جسٹس نقوی اور ایڈمیرل منصور کو ہتھکڑیاں 

      جسٹس نقوی اور ایڈمیرل منصور کو ہتھکڑیاں 
      جسٹس نقوی اور ایڈمیرل منصور کو ہتھکڑیاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  75 سال تک ہر پارلیمان اور ہر سول حکومت کے ٹینٹوے پر بھائی لوگوں کا انگوٹھا رہے تو مسائل کیا خاک حل ہوں گے؟  ہر ملک کا آئین اصول طے کر کے قانون سازی کا اختیار پارلیمان کو دے دیتا ہے۔ از خود نوٹس ہی کو لے لیجئے، پارلیمان کو دبائے رکھنے کے سبب اس پر 50 سال قانون سازی نہ رہی۔ اولاً یہ تلوار لے کر جسٹس نام کا ہر شخص اپنی الجھی ہوئی نفسیاتی گرہیں کھولنے کی ناکام کوششیں کرتا رہا۔ بحر ظلمات کی کالی رات حد سے بڑھ گئی تو آمرانہ مزاج حرکت میں آیا۔ پھر یہ اختیار اس شخص نے بلا شرکت غیرے اپنے نام معنون کر لیا جسے چیف جسٹس آف پاکستان کہا جاتا ہے۔ یہ دوسری انتہا تھی۔ پہلے کسی جسٹس کے منفرد از خود نوٹس میں بہت کم بصیرت دیکھنے کو ملی تو چیف جسٹس کی آمریت نے وہ وہ تماشے دکھائے کہ آج نئی نسل کو ہم ماضی کا لکی ایرانی سرکس بتانا سمجھانا چاہیں تو چیف جسٹس کے از خود نوٹس سے بہتر مثال مجھے تو کبھی نہیں ملی۔ مقامِ شکر ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد یہ مقدس آئینی امانت اب عدلیہ کی اجتماعی دانش کے پاس ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا معاملہ بعنیہ وہی ہے۔ سات سال سے میں مسلسل توجہ دلائے جا رہا ہوں. یہ وہ ادارہ ہے جسے ہر دم متحرک رہ کر امور عدلیہ پر عقاب اور شکرے کی سی نظر رکھنا چاہئے، لیکن یہ ادارہ ہے کہاں؟ اس کا کوئی تفصیلی قانون؟ آج کے نت نئے پیدا شدہ سوالات کے جواب موجود ہی نہیں۔ اس کا کوئی آئینی قانونی سیکرٹیریٹ؟ اس کا کوئی اپنا مستقل سیکرٹری؟ یہ سب کچھ نہ ہونے کے سبب 50 سال سے ہم از خود نوٹس کی طرح یہاں بھی چیف جسٹس کی آمریت بھگت رہے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جمہوری ذہن رکھتے ہیں۔ ان کی جمہوری سوچ کے باعث پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ والے 15 رکنی بینچ پر نو چھ کے تناسب سے اجتماعی دانش غالب رہی۔ دیکھ لیجئے، اس فیصلے میں  چار دن قبل کے اکتوبر 2024ء میں ”متوقع چیف جسٹس“ کی سوئی وہیں آمرانہ بندیالی فکر کے ساتھ ہم آہنگ پائی گئی۔ خود چیف جسٹس بخوبی جانتے ہیں کہ بھائی لوگوں سے ”فیض“ یاب بندیالی فکر ملک بھر کی عدلیہ میں کہاں کہاں بارودی سرنگیں لگائے موقع کی تاک میں بیٹھی ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل میں چیف سے پرزور گزارش کروں گا، پہلے بھی کرتا رہا ہوں کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی چار خالی نشستوں پر تقرری سے قبل جوڈیشل کمیشن کے قواعد خوب چھان پھٹک کر بنائے جائیں۔ یہ گنجائش رکھی جائے کہ حتمی فیصلے سے قبل کمیشن متوقع ججوں کے ناموں کا اعلان کرے تاکہ اگلے ایک دو ماہ میں عوام  رائے دے کر جرائم پیشہ افراد کی تقرری روک سکیں۔ کبھی پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ راتوں رات جسٹس بننے والوں میں سے ایک کے خلاف قومی پرچم جلانے کا مقدمہ درج تھا۔ جج بن کر اسے آئینی تحفظ سے مل گیا۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ قتل درج تھا جسے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے آئینی فیصلے کے سبب معزول ہو کر دوبارہ کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔ سپریم جوڈیشل کونسل آج تک کی اپنی موجودہ ساخت میں ایسے معززین کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔

وفاقی حکومت اب عافیہ شہر بانو کیس کے خلاف اپیل کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے (اور نکلنا چاہئے) کہ دو رکنی بینچ کے فیصلے کو سپریم کورٹ مسترد کر کے ریٹائرڈ ججوں کے خلاف کارروائی کا دروازہ کھلا رکھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں مستعفی جج اعجاز الاحسن کے خلاف ریفرنس  آ رہا ہے کہ انہوں نے گرینڈ ہوٹل میں فلیٹ لے کر اس غیر قانونی ہوٹل کو قانونی قرار دیا تھا۔ یہ الزام واقعتا بد عملی (misconduct) کا ہوگا کیونکہ انہوں نے مقدس حلف کے خلاف بد عملی کا ارتکاب کیا۔ بس اتنا ہی وہ آئینی تحفظ ہے جو ججوں کی آئینی بد عملی کو اٹھا کر اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے کردیتا ہے۔ اعجاز الاحسن کے خلاف اگر یہ ریفرنس دوران ملازمت آتا تو بلا حجت کونسل کے حوالے ہو جاتا۔ لیکن مستعفی ہونے پر اب ریفرنس آیا تو اس کا موثر بہ ماضی (retrospective) فیصلہ عافیہ شہر بانو اپیل کیس میں ہوگا۔

 کسی جسٹس کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں کر سکتی ٹریفک افیسر کرے گا۔ کوئی جسٹس اپنی بیوی کو نان نفقہ نہ دے تو سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں ہو گی،بلکہ عام ملکی قانون کے تحت اس کا فیصلہ فیملی کورٹ کرے گی۔ جسٹس کسی کو گولی مار دے تو کیا اس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی؟ ہرگز نہیں! کونسل کا دائرہ اختیار آئینی طور پر جج کی عدالتی بدعملی اور ذہنی و جسمانی معذوری تک محدود ہے۔ ہر جسٹس کے دیگر تمام امور عام ملکی قوانین ہی کے تحت نمٹائے جائیں گے۔ یہی معاملہ مستعفی جج مظاہر علی اکبر نقوی کا ہے۔ ان کا معاملہ بد عملی والا ہرگز، ہرگز، ہرگز نہیں ہے۔ سائل نے ان کے جن مبینہ جرائم کی فہرست کونسل کو دی ہے، وہ جرائم وہی ہیں جو عام پولیس، ایف ائی اے اور نیب وغیرہ کے نمٹانے کے ہیں۔

 24 کروڑ عوام کے نمائندے شاہد خاقان عباسی کو اگر نیب گرفتار کر سکتا ہے کہ مبینہ الزام بد عملی کا نہیں تھا، عام جرم کا تھا۔ نواز شریف کے خلاف طیارہ اغوا کیس کو بدعملی کے حصار سے باہر کر کے ہتھکڑیاں لگائی جا سکتی ہیں، ایڈمرل منصور الحق کو ریٹائرمنٹ کے بعد پابجولاں کر کے سزائے قید دی جا سکتی ہے تو مظاہر اکبر نقوی کے مبینہ جرائم ان سب سے کہیں بڑے حجم کے ہیں۔ کیا ملزمان کی کوئی ایسی درجہ بندی موجود ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی مجرم کو سرخاب کے پر لگا کر اسے خصوصی حیثیت دے دے؟اس شخص نے تو یہ کہہ کر کہ مجھے چیف جسٹس اور جسٹس سردار طارق پر اعتماد ہی نہیں, اپنے پورے ادارے کو اپنے مبینہ جرائم میں آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل خود کو آئینی بد عملی (misconduct) اور ذہنی اور جسمانی معذوری والے تین امور ہی تک محدود رکھ کر تمام ججوں کے دیگر تمام جرائم کو عام ملکی قوانین کے تحت نمٹانے کا حکم دے گی۔ اگر شاید خاقان عباسی، نواز شریف، ایڈمرل منصور الحق وغیرہ کو ہتھکڑیاں لگ سکتی ہیں تو جسٹس نقوی کو کیوں نہیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل سے یہ میرا آئینی تقاضا ہے۔ امید ہے کہ کونسل میرے اس آئینی سوال کو بھی نمٹائے گی۔

مزید :

رائے -کالم -