عمران خان کا خاندان سے سیاسی رجوع 

  عمران خان کا خاندان سے سیاسی رجوع 
  عمران خان کا خاندان سے سیاسی رجوع 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 عمران خان کے حقیقی سیاسی گرو تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی تھے حفیظ اللہ نیازی ان کے کزن پھر بہنوئی اور سب سے بڑھ کے دوست اور سیاسی گرو تھے بہت بعد میں سیاسی گروؤں کا ایک گروہ ان کے ارد گرد جمع ہوگیا اگر عمران خان کی ابتدائی سیاسی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ ایک متحمل اور شائشتہ سیاستدان تھے یہ دوسری بات ہے کہ حفیظ اللہ نیازی خود ایک انتہائی جذباتی آدمی ہیں اور یہ ان کی خاندانی خوبی ہے یہ لوگ واقعی بہت جذباتی ہیں اور کھل کر اظہارِ کرنے پر یقین رکھتے ہیں مگر حفیظ اللہ نیازی کا زیادہ وقت لاہور میں مجیب الرحمن شامی اور جاوید ہاشمی کے ساتھ گزرا اور سیاسی سماجی تبدیلی آئی صحافتی حلقوں میں بھی شنا سائی پیدا ہوئی درحقیقت حفیظ اللہ نیازی کی یہ کل سیاسی سماجی اور صحافتی متاع تھی جو انہوں نے عمران خان پر لٹاتے ہوئے انہیں سیاست کے میدان میں ابتدائی پزیرائی دلائی عمران خان کو ذاتی شہرت نے بھی کافی سہارا دیا مگر سیاست میں محض شہرت سے کام نہیں چلتا جب تک دیگر سیاسی لوازمات پورے نہ ہوں یہی وجہ ہے کہ سیاسی اٹھان کیلئے حفیظ اللہ نیازی نے عمران خان کو ابتدا میں جماعت اسلامی کے قریب کیا اور قاضی حسین احمد کے ذریعے انہیں آگے بڑھنے کا موقع دلایا عمران خان ایک عرصے تک جماعت کے فیصلوں کے ساتھ اپنے فیصلے آگے بڑھاتے رہے سیاست میں یہی دن عمران خان کی بہترین سیاسی تربیت کے دن تھے انہی دنوں  وہ کتابوں کے ساتھ جڑے اور  اپنی زندگی کو از سر نو ترتیب دیا دراصل حفیظ اللہ نیازی کی قربت و تربیت نے ہی عمران خان کو زندگی کے بعض معمولات کو بدلنے میں مدد دی عمران خان خاندانی طور پر مسلم لیگی ہیں ان کے بزرگوں کا مسلم لیگ کے ساتھ گہرا تعلق تھا اب تو وہ خود بھی اپنی والدہ اور والد کو تحریک پاکستان کا کارکن کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں عمران خان نے جب پہلی بار میانوالی سے شکست کھائی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنی شہرت کو پہاڑ  جیسی چیز سمجھتے تھے جو الیکشن میں ریت سے بھی کمزور نکلی یعنی صرف آٹھ ہزار ووٹ مگر دوسری بار الیکشن میں حفیظ اللہ نیازی اور انعام اللہ نیازی نے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے اور جنرل مشرف کی زبردست مخالفت کے باوجود عمران خان کو کامیاب کروایا بعد میں اس خاندان کے درمیان اختلاف پیدا ہوگئے اور مقامی سیاسی دھڑے بندی نے عمران خان کو اپنے کزنز اور سیاسی گرو حفیظ اللہ نیازی کے مخالف جا کھڑا کیا یہاں سے سیاسی مخالفت شروع ہوئی اور اس میں سب سے بڑی دراڑ اس وقت پڑی جب حفیظ اللہ نیازی کے سب سے چھوٹے بھائی سابق ایم پی اے نجیب اللہ نیازی اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے عمومی خیال تھا عمران خان ان کے جنازے میں شرکت کیلئے جائیں گے مگر عمران خان نے جنازے والے دن اپنے دھرنے میں اپنی سالگرہ کا کیک کاٹ کے اپنے کزنز کو  مزید دکھ سے دوچار کر دیا اور خاندانی تعلق بھی جاتا رہا اور تقریباً پونے چار سال سے عمران خان اپنے خاندان سے کٹے ہوئے ہیں وہ میانوالی جائیں بھی تو خاندان کے کسی فرد سے نہیں ملتے اور تو اور اپنے والد اور بزرگوں کے  قبرستان تک بھی کبھی نہیں گئے اب دونوں خاندانوں کے درمیان ایک بار پھر سیاسی تعلق کی ابتدا ہوئی ہے اور عمران خان نے میانوالی کے قریبی ضلع بھکر کے ضمنی الیکشن میں اپنے کزن عرفان اللہ نیازی کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے جو کہ حفیظ اللہ نیازی کے چھوٹے بھائی ہیں پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں یہ ٹکٹ موضوع بحث بنا ہوا ہے عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی میں بطور خاص ٹکٹ کے حوالے سے بحث مباحثہ جاری ہے کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے سیاسی طور پر بہت سے نشیب وفراز دیکھنے کے بعد کچھ فیصلوں پر دوبارہ غور شروع کر دیا ہے مور وثی سیاست سے انکار کے باوجود وہ جماعت کے مستقبل کیلئے کچھ فیصلے کرنے جا رہے ہیں اور ان فیصلوں میں اپنے کزنز کے ساتھ دوبارہ سے خاندانی اور سیاسی رجوع ہے عمران خان نے پہلے اپنے بھانجے حفیظ اللہ نیازی کے بیٹے حسن نیازی کو اپنا چیف لیگل ترجمان بھی بنایا ہے اب عرفان نیازی کو بنا درخواست وملاقات کے ضمنی الیکشن میں ٹکٹ بھی دیا ہے اگلا مرحلہ انعام اللہ نیازی حفیظ اللہ نیازی اور سعید اللہ نیازی کو واپس لانا ہوسکتا ہے مگر نیازی برادران  ابھی  مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہیں اور گزشتہ چار سال سے پوری استقامت دکھا رہے ہیں ادھر میانوالی اور جنوبی پنجاب میں عمران خان اور ان کے کزنز کے درمیان اس رابطے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے اگر دونوں کے درمیان صلح ہوجاتی ہے تو جنوبی پنجاب کے اضلاع کے حوالے سے عمران خان کی بہت سی سیاسی مشکلات حل ہوسکتی ہیں انعام اللہ نیازی بطور ایم این اے اور ایم پی اے ان اضلاع میں خاصی شہرت رکھتے ہیں اور اپنے دبنگ لہجے کی وجہ سے پسند بھی کیے جاتے ہیں بہرحال لوگوں کی خواہش ہے کہ دونوں کے درمیان سیاسی سمجھوتہ نہ بھی ہو تو کم از کم خاندانی تعلق دوبارہ بحال ہونا چاہئے  اور خاندانی رنجشیں ختم ہونی چاہیں۔

مزید :

رائے -کالم -