کر اچی سے جہاز بھر بھر کر برطانیہ جانے لگے، ان میں سے اکثر بحری جہازوں کے ذریعے جاتے جو کوئی ایک مہینے کا سفر تھا 

کر اچی سے جہاز بھر بھر کر برطانیہ جانے لگے، ان میں سے اکثر بحری جہازوں کے ...
کر اچی سے جہاز بھر بھر کر برطانیہ جانے لگے، ان میں سے اکثر بحری جہازوں کے ذریعے جاتے جو کوئی ایک مہینے کا سفر تھا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:106
ایسا ہی کچھ سلسلہ پاسپورٹ بنوانے کا بھی تھا۔ سن 50 اور 60 کی دہائی میں پاکستانی پاسپورٹ کا حصول بے حد مشکل بلکہ قریب قریب نا ممکن تھا ۔ اب صحیح مقام تو یاد نہیں، ڈرگ روڈ پر بہت دور جا کر کہیں پاسپورٹ آفس ہوا کرتا تھا۔فاصلہ تو ایک مسئلہ تھا ہی لیکن اس سے زیادہ ذلت اور رسوائی پاسپورٹ کی درخواست جمع کروانے اور پھر اس کی پیروی کرنے پر اٹھانا پڑتی تھی ۔ اس کام کے لیے کئی کئی برس لگ جاتے تھے۔ہاں اگر آپ صاحب اختیار کی مٹھی گرم کر دیتے یا کوئی تگڑی سفارش ڈھونڈ لاتے تو یہ کام ہفتوں میں ہو جاتا تھا۔ اس زمانے میں اگر اپنی بنیادی سہولتوں کے حصول کا ذکر کیا جائے تو سب سے زیادہ رشوت اسی محکمے میں چلتی تھی ۔ برطانیہ اور کچھ دوسرے یور پی ملکوں میں پاکستانی تارکین وطن کی مانگ بہت زیادہ تھی ۔ ویزہ وغیرہ کی بھی کوئی سختی نہیں ہوتی تھی ، بس آپ کو ایک پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اکثر ملکوں میں ویزے وہاں ایئرپورٹ پر ہی لگ جاتے تھے ۔
منگلاڈیم کی تعمیر کے دوران جب پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک وسیع و عریض جھیل کی ضرورت محسوس ہوئی توآس پاس کے سینکڑوں دیہاتوں کو خالی کروا لیا گیا۔حکومت نے بے گھر ہو جانے والوں کو دل کھول کرمعاوضے دیئے۔ انہی دنوں برطانیہ کی حکومت کو مزدور پیشہ لوگوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے پاکستانیوں کو ترجیحی بنیادوں پربھرتی کرنے کا عندیہ دیا۔ حکومت منگلا ڈیم کے بے گھر اور نقل مکانی کرنے والی آبادی کے نوجوانوں کو برطانیہ بھیجنے پر رضا مند ہو گئی۔پھر یوں ہوا کہ کراچی سے جہاز بھر بھر کر برطانیہ جانے لگے ۔ ان میں سے اکثر تو بحری جہازوں کے ذریعے جاتے جو کوئی ایک مہینے کا سفر تھا ، کیونکہ نہر سوئز کی بندش کی وجہ سے جہازوں کو ایک طویل راستہ اختیار کرکے برطانیہ پہنچنا پڑتا تھا ۔ میرپور، آزاد کشمیر سے آنے والے ان لوگوں کے پاس معاوضے میں ملی ہوئی بھاری رقوم تھیں ، اس لیے محکمہ پاسپورٹ والوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ایک وقت تو ایسا آگیا تھا کہ ایک پاسپورٹ پر دو دو ہزار روپے رشوت دینی پڑتی تھی تب کہیں جا کرفوری پاسپورٹ ملتا تھا ۔ یہ رقم ایک عام شہری کے لیے دینا قطعی آسان نہ تھا ۔
پاسپورٹ پر بھی بہت ساری قدغنیں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ تو پاکستانی حکومت نے لگائی تھیں اور کچھ ملکوں میں پاکستانی پاسپورٹ کو ابھی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا۔
پاکستانی پاسپورٹ کے ڈیزائن اور رنگوں میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ ایوب خان کی حکومت سے پہلے پاسپورٹ گہرے سبز رنگ کا ہوتا تھا ، جس پر2 جھنڈے ، صاحب پاسپورٹ کا نام اور نمبر باہر جلد پر ہی لکھے جاتے تھے ۔ان کے دور میں پاسپورٹ کا رنگ ہلکا سبز ہوگیا اور جھنڈوں کی جگہ حکومت پاکستان کے امتیازی نشان نے لے لی ۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -