عاشقِ صادق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ

عاشقِ صادق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ
عاشقِ صادق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’مصطفٰے ﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘کی خوبصورت صدا ،جب بھی عاشقانِ رسولﷺ کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو خیالات و تصورات میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی عظیم شخصیت سما جاتی ہے۔آپؒ کی ولادت 10شوال 1272ھ بمطابق 14جون 1856ء کو ہندوستان کے شہربریلی میں ہوئی۔آپؒ کا اسمِ گرامی’’احمدرضا‘‘ہے اور القاب میں ’’اعلیٰ حضرت‘‘اور’’ فاضل بریلوی‘‘زیادہ مشہور ہیں۔آپ نسلاًَ پٹھان،مسلکاًحنفی اور مشرباً قادری تھے ۔

آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم حضرت مولانا نقی علی خاںؒ سے حاصل کی ،جو اُس دور میں اپنے علم وفضل اور تقویٰ وپرہیز گاری میں پورے ہندوستان میں مشہور تھے ۔اعلیٰ حضرت نے تین سال کی عمر میں ناظرہ قرآن پاک ختم کیا اور پھر اُس کے بعد قرآن ،حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی ۔آپؒ نے اپنے والدِ محترم کے علاوہ دیگر علاقائی علمائے کرام سے بھی علم حاصل کیا اور بہت چھوٹی عمر میں ہی آپؒ نے کافی علوم پر دسترس حاصل کر لی تھی ۔جب آپؒ کی عمر مبارک چھ برس کی ہوئی تو بڑے بڑے جید علمائے کرام اور ہزاروں افراد کے اجتماع میں میلاد النبیﷺ کے موضوع پر ایک شاندار تقریر فرمائی اور لوگ،انتہائی دل نشین انداز میں سیرتِ مصطفےٰﷺ کا تذکرہ سُن کر متعجب اور حیران ہوئے اور سب علمائے کرام یہ سمجھ گئے کہ یہ بچہ آگے چل کر دینِ اِسلام کی بہت بڑی خدمت کرے گا۔اعلیٰ حضرت امام رضا خاںؒ نے تعلیم حاصل کرنے کیساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کیااور صرف آٹھ سال کی عمر میں پہلی کتاب جو علمِ نحو کی شرح پر مشتمل تھی ، لکھ کر لوگوں کو حیران کر دیا ۔ جب آپ کی عمر دس بر س کی ہوئی تو آپ نے دوسری کتاب لکھی جو فقہء کی شرح کے متعلق تھی ، اس کے بعد تیرہ برس کی عمر میں آپ نے مروجہ تمام علوم کی کامیاب تکمیل کر کے سند بھی حاصل کر لی اوور مفتی کے عہدہ پر فائز ہوئے اور اپنے والد مولانا نقی علی خاں ؒ کی مسندِ افتاء سنبھال کر فتویٰ نویسی کا کام شروع کر دیا۔ مسائل کے بارے میں دریافت کرنے والے لوگ جب اتنی چھوٹی عمر کے مفتی کو دیکھتے تو انہیں یقین ہی نہ آتا تھا کہ یہ بچہ مفتی ہو سکتا ہے، مگر جب اپنے مسائل کے مدلل جوابات اور فتویٰ دیکھتے تو اُنہیں یقین کرنا پڑتا تھا کہ یہ بچہ واقعی اپنے کام میں پوری مہارت رکھتا ہے،آپ کے علمِ قرآن کا اندازہ آپ کا کیا ہواقرآن پاک کا اردو ترجہ سے کیجیے جو’’ کنزل الایمان ‘‘ کے نام سے تقریباََ ہر مسلمان کے گھر میں موجود ہے ،اور جس کی مثال نہ فارسی ترجمہ میں ملتی ہے اور نہ ہی اردو زبان میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جاسکتا ،جو بظاہر ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں روح القرآن ہے اس ترجمہ کی شرح حضرت صدر الفاضل، استاذالعلماء مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی ؒ نے حاشیہ پر لکھی ہے ۔ وہ فرماتے تھے کہ دورانِ شرح میں ،ایسا کئی بار ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقامِ استنباط کی تلاش میں دن پر دن اور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ماخذ ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا۔ اعلیٰ حضرت خود حضرت شیخ سعدی ؒ کے فارسی ترجمہ کو سراہا کرتے تھے لیکن اگر حضرت شیخ سعدی اردو زبان کے اس عظیم ترجمہ کو دیکھ پاتے تو فرما ہی دیتے کہ ’’ترجمہ ء قرآن شے دیگر ست و علم القرآن شئے دیگر ‘‘
اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت کے اس ترجمہ میں جو ہمیں ایک خاص پہلو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ؒ نے قرآن پاک کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک ایک لفظ کے ادب کو ملحوظ خاطر رکھ کر لکھا، یہاں ہم صرف دو مثالیں دیتے ہیں ، کہ آپ نے بسم اللہ شریف کا ترجمہ کرتے ہوئے ’’شروع اللہ کے نام سے ‘‘ کی بجائے ’’ اللہ کے نام سے شروع ‘‘ لکھا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ خدا کو ’’مکار‘‘ کی بجائے ’’اعلیٰ تدبیر کرنے والا ‘‘لکھا ہے۔
آپ نے فتویٰ نویسی ، تحریر و تقریر اور تصنیف کے ساتھ ساتھ مزید علوم میں بھی مہارت حاصل کی ،آپؒ نے کچھ علوم اپنے والد ،کچھ پیرو مرشد حضرت شاہ آل رسول مار ہروی ؒ سے ، کچھ اپنے اساتذہ سے اور کچھ علوم اپنے ذاتی مطالعہ ،تجربہ اور بصیرت سے سیکھے، اس طرح آپ ؒ کو دنیا کے تقریباََ چھپن جدید و قدیم علوم پر مکمل عبور حاصل ہو گیا تھا۔آپ نے اُن علوم پر ایک ہزار سے زائدکتب تحریر کیں ، آپ کے فتویٰ کے مجموعہ ’’ فتویٰ رضویہ ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے جو کہ بہت مشہور ہے۔
آپ ؒ اکیس سال کی عمر میں اپنے والد ماجد کے ساتھ حضرت شاہ آل رسول مارہروی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں ان سے بیعت کی ، مرشد کامل نے تمام سلسلوں کی اجازت و خلافت کی عظیم نعمت سے سرفراز کرتے ہوئے سندِ حدیث بھی عطا کی ۔
حضرت شاہ آل رسول ؒ خلافت و اجازت دینے کے معاملے میں بڑے محتاط تھے ،اعلیٰ حضرت کو مرید ہوتے ہی جملہ سلاسل کی اجازت ملی تو خانقاہ کے ایک حاضر باش سے رہا نہ گیا اور عرض کیا ’’حضور! آپ ؒ کے خاندان میں تو خلافت بڑی ریاضت اور مجاہدے کے بعد دی جاتی ہے؟ان کو آپؒ نے فوراً خلافت عطا فرمادی۔‘‘حضرت شاہ آل رسول نے فرمایا۔’’میاں ! اور لوگ گندے دل اور نفس لے کر آتے ہیں ان کی صفائی پر خاصا وقت لگتاہے، مگر یہ پاکیزگیء نفس کے ساتھ آئے تھے صرف نسبت کی ضرورت تھی ، وہ ہم نے عطاکردی۔‘‘
اللہ تبارک تعالیٰ نے اعلیٰ حضرت کو خدا داد صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں آپ ایک ماہر ریاضی داں بھی تھے۔ ریاضی کا بڑے سے بڑا مسئلہ جو بڑے بڑے ریاضی دانوں سے حل نہ ہوتا تھا آپ چند منٹوں میں حل فرما دیتے تھے ۔ آپ ؒ چاند ، ستاروں اور سورج کو دیکھ کر بالکل ٹھیک ٹھیک وقت بتا دیا کرتے تھے ا ور گھڑی تک ملا لیا کرتے تھے جو مروجہ وقت سے ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہ ہوتی تھی ، آپؒ کی علمی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ مولانا سید سلیمان اشرف بہاری ، مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کو لے کر جب صرف اس لئے آپکی ؒ خدمت میں حاضر ہوئے کہ ایشیا بھر میں ڈاکٹرصاحب ریاضی و فلسفہ میں فرسٹ کلاس ڈگری رکھنے کے باوجود بھی ایک مسئلہ کو حل کرنے میں زندگی کے سال لگا کر بھی حل نہ کر پائے تھے ، اور فیثا غورثی فلسفہ کشش ان پر چھایا ہوا تھا، تو اعلیٰ حضرت نے عصر و مغرب کی درمیانی مدت میں اس مسئلہ کا حل بھی قلم بند کر دیا اور فلسفہ ء کشش کی کھینچ تان کو بھی قلم بند کر دیا ،جو رسالہ کی شکل میں چھپ چکا ہے، اس وقت ڈاکٹر صاحب حیران تھے کہ اُن کو یورپ کا کوئی ’’تھیوری ‘‘ والا درس دے رہا ہے یا اسی ملک کا کوئی حقیقت شناس اُن کو سبق پڑھا رہا ہے ،انہوں نے اس صحبت کے تاثرات کو اجمالاً ان الفاظ میں ظاہر کیا تھا کہ ’’ اپنے ملک میں جب معقولات کاماہر(Expert)موجود ہے تو ہم نے یورپ جا کر جو کچھ سیکھا ، اپنا وقت ضائع کیا ۔‘‘
امام احمد رضا خاں انتہائی باکمال حافظہ کے مالک تھے آپ جس کتاب کا مطالعہ ایک بار کر لیتے تھے وہ آپؒ کو مکمل ازبر ہو جایا کرتی تھی ، حتیٰ کہ قرآن پاک جیسی عظیم ترین و ضخیم ترین کتاب حفظ کرنے کے لئے نہ تو آپؒ نے کسی استاد کی خدمات حاصل کیں اور نہ ہی اس کے لئے کوئی باقاعدہ اہتمام کیا، بس ایک سال تراویح پڑھانے کا ارادہ کیا اور نماز مغرب اور عشاء کے درمیان میں ہر روز ایک سپارہ یاد کر کے تراویح میں سنا دیتے تھے ، اس طرح ایک ماہ کی قلیل مدت میں آپ ؒ نے قرآن پاک حفظ کر لیا ، آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی کہ آپؒ ایک وقت میں دونوں ہاتھو ں سے لکھتے تھے اور دونوں صفحوں پر برابر لفظ ہوتے تھے ۔ آپ دن رات درس وتدریس اور عبادت و ریاضت میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ کسی کی طرف بلا وجہ آنکھ بھی اُٹھا کر نہیں دیکھتے تھے،آپؒ دن رات میں صرف چند گھنٹے سوتے تھے ، نماز باجماعت یا واعظ کے علاوہ اپنے درِ دولت سے باہر نہیں نکلتے تھے ۔
اعلیٰ حضرتؒ نے تمام عمر دشمنانِ اسلام ،خاص کر انگریزوں کی حکومت کے خلاف جہاد کیا ، جب انگریزوں نے آپؒ پر بغاوت کا الزام لگایا اور آپ ؒ کو عدالت طلب کیا تو آپ ؒ نے فرمایا’’جب میں اُن کی حکومت کو ہی تسلیم نہیں کرتا تو اُن کی عدالت کا حکم کیوں مانوں گا۔‘‘ مجبوراً انگریزوں کو مقدمہ واپس لینا پڑھا ، آپؒ نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے مکرو فریب کا پردہ بھی چاک کیا، شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے آپؒ کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’ آپؒ اپنے وقت کے امام ابو حنیفہؒ ہیں ۔‘‘
دوقومی نظریہ کو فروغ دینے میں بھی آپؒ کا اسمِ گرامی نمایاں ہے اِس حوالہ آپؒ کے متعلق قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’دوقومی نظریہ عام ذہنوں میں پہنچانے کا سہرامولانا امام احمد رضا خان صاحب کے سر ہے۔لوگ اُن کی بات سنتے اور مانتے تھے۔‘‘(بحوالہ:کردارِ قائد اعظم،صفحہ نمبر۵۲)
عشقِ رسول ﷺ ۔۔۔اعلیٰ حضرتؒ کی خوبصورت زندگی کا نمایاں ترین پہلو تھا اور آپ اطاعتِ رسول ؐ کے بغیر عشق کے قائل نہ تھے بلکہ صحیح معنوں میں عاشقِ صادق اور اللہ کے کامل ولی تھے ، یہی وجہ ہے کہ آپؒ کو ’‘’عاشقوں کے امام‘‘ بھی کہا جاتا ہے ،رحمتِ عالم ﷺ سے آپؒ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی کوئی ناموسِ رسالت ؐ پر حملہ کرتا تو اس کی گرفت سب سے پہلے آپ ؒ ہی کرتے تھے ، آپ ؒ نے کریم آقاؐ کے عشق میں ڈوب کر بے شمار نعتیں بھی کہیں، آپ ؒ کا نعتیہ مجموعہ ’’حدائقِ بخشش ‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے ۔
اعلیٰ حضرت ؒ نے 25صفر 1340ھ کو جمعتہ المبارک کے روز عین اذانِ جمعہ کے دوران جب موذن نے حییٰ الفلاح پکارا، وصال فرمایا، جس روز امام احمد رضا خاں ؒ کا وصال ہوا ، ٹھیک اُسی روز بیت المقدس میں ایک بزرگ نے خواب دیکھا کہ آقائے نامدار ﷺتشریف فرما ہیں ، تمام صحابہ کرامؓ دربارِ رسالت مآب ؐمیں حاضر ہیں ،لیکن مجلس پر سکوت طاری ہے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی آنے والے کا انتظار ہے ، شامی بزرگ نے بارگاہِ رسالتؐ میں عرض کی ’’یارسول اللہ ﷺ !کس کا انتظار ہے؟‘‘ رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا ’’ احمد رضا خاں ؒ ‘‘عرض کی ،احمد رضا خاں ؒ کو ن ہے ؟ فرمایا ہے ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں ۔شامی بزرگ شوقِ دیدار میں ہندوستان آئے اور بریلی پہنچ کر اعلیٰ حضرت کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ اُن کا عین اُسی روز وصال ہوگیاتھا، جس روز خواب میں رسولِ عربیؐ نے فرمایا کہ ہمیں احمد رضا خاں ؒ کا انتظار ہے ۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -