والدہ محترمہ کی یاد میں!

        والدہ محترمہ کی یاد میں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”کل نفس ذائقۃ الموت“(ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے)۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، جو شخص بھی اس جہاں میں آیا اس کو ایک روز دنیائے فانی سے کوچ کرنا ہے۔ یہی نظام قدرت ہے جو کائنات کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک چل رہا ہے اور تاقیامت یونہی چلتا رہے گا۔یہ دنیا عارضی قیام گاہ ہے اور ہر ایک اپنا وقت پورا کر کے ابدی جہاں کی طرف چلا جاتا ہے۔ 19اکتوبر 2023ء بمطابق 4ربیع الثانی 1445ھ جمعتہ المبارک کی شب میری پیاری والدہ محترمہ اِس دارِ فنا سے دارِ بقاء کی طرف کوچ کر گئیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔جمعتہ المبارک کو ان کی نماز جنازہ ادا کر کے سپردِ خاک کر دیا۔ روایات میں آیا ہے کہ جو شخص رمضان المبارک،شب جمعہ یا جمعتہ المبارک کے روز وفات پائے تو اس سے قبر کا عذاب و سختی ہٹا لی جاتی ہے۔ محدثین کے مطابق اسے تاقیامت عذاب قبرنہیں ہوتا اور یہ قبر میں راحت وسکون کے ساتھ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ حشر میں بھی ان سے حساب نہ لیں اور جنت میں داخل فرمادیں۔ 

میں جب یہ سطور تحریر کر رہا ہوں والدہ محترمہ کی وفات کو 18روز گزر چکے ہیں، لیکن اِن شب و روز میں کوئی ایک ساعت اور لمحہ بھی ایسا نہ ہوگا، جو ان کی یاد اور تصوّر سے خالی ہو۔یہ غم سدا رہنے والا اور تادمِ مرگ ہمارے ساتھ رہے گا۔ماں کے بغیر شام و سحر بے کیف اور حیات کے رنگ پھیکے پڑتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ماں، لفظ ہی شہد سے میٹھا اور چاہتوں کاسمندر ہے۔ ماں کا تصور آتے ہی ذہن میں ایک ایسی شبیہ سامنے آتی ہے جو ہمدردی و خیرخواہی، بے لوث محبت و خلوص، عزم وہمت کا پیکر، مونس و غم خواری کا مجسم ہوتی ہے۔ ماں ایسی ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، ماں کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی محض یادوں کے سہارے ہی باقی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔میرا ماننا ہے کہ ماں جانے کے بعد اپنی نیک اولاد سے دور نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔وہ ان کی دُعاؤں، یادوں، سوچوں،کاموں اور باتوں میں، غرضیکہ ہر لمحے میں ان کے دِل کے قریب، بلکہ قریب تَرہوتی ہے۔ میری والدہ محترمہ جب موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھیں تو اس وقت میں اپنے آپ کو انتہائی بے بس محسوس کر رہا تھاکہ وسائل کے باوجود میں کچھ نہیں کر سکتا تھا، اس وقت میں اپنے آپ کو دنیا کا مفلس ترین شخص تصور کر رہا تھا،لیکن انسان تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بے بس ہے۔ہم اس حکم  ِ ربی پر صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ماں کی ذات توہر ایک کو عزیز ہوتی ہے، کیونکہ ماں سے بڑھ کر اپنے بچوں کی خاطر مشقت جھیلنے والی اور ان سے محبت کرنے والی ہستی کوئی اور نہیں ہے۔والدہ محترمہ کی وفات پر اظہارِ تعزیت کے لئے آنے والوں کی زبان سے یہ سن کر دلی سکون ملا کہ ان کی والدہ نے اپنی اولاد کی ایسی نیک تربیت کی کہ رشک آتا ہے۔ خاندان اور اہل ِ محلہ سب نے اس کی گواہی دی۔ شاعر مشرق نے کیا خوب کہا تھا:

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہوا

گھر مِرے اجداد کا سرمایہئ عزت ہوا

دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات

تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

مَیں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

والدہ محترمہ کو سپردِ خاک کرتے ہوئے میرے نظروں کے سامنے ماضی کی زندگی گھوم رہی تھی۔میں اس ہستی کو اپنے ہاتھوں لحد میں اتار رہا تھا، جس نے بڑی مشقت اور محنت سے ہماری پرورش کی، اُس وقت محدود وسائل کے باوجود ہم بہن بھائیوں کو دین اور دنیا کی بہترین تعلیم دلوائی، نماز باقاعدگی سے پڑھنے کی ہمیشہ تلقین کی، قرآن پاک ناظرہ خود پڑھایا اور اہل محلہ کے دیگر بچوں نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔اپنے ایک بیٹے حمزہ حبیب کو عالم دین بنایا۔ 2009ء میں جب والد صاحب حج پر گئے تو شدید ترین خواہش کے باوجود سفرِ حج پر نہ جا سکیں کہ ہم بہن بھائیوں کی خواہش تھی کہ آپ دونوں میں سے ایک ہمارے پاس گھر ہی رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی عاشق تھیں کہ ان کی کامل اتباع کو ہی ذریعہ  ئ نجات اور دنیا وآخرت کی کامیابی سمجھتی تھیں۔ مجھے نہیں یاد کہ بچپن سے لے کر جوانی تک، ہم گھر موجودہوں اور ہماری کوئی نماز رہ گئی ہو، بلکہ کوئی رشتہ دار بھی آجاتے تو انہیں معلوم ہوتا تھا کہ نماز کے وقت ماں جی نے سب کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد بھیج دینا ہے، اس معاملہ میں وہ نہایت سخت تھیں۔ صابر و شاکر ایسی تھیں کہ کبھی کوئی دنیاوی طمع و لالچ ان کے قریب نہیں آیا، ہمیشہ رزقِ حلال کمانے کی تلقین کی اور کہا کرتی تھیں کہ تمہارے باپ نے محنت کر کے ہمیشہ حلال رزق کمایا تم نے حرام کے قریب  بھی نہیں جانا ہے۔ والدہ کا کہنا تھا کہ دولت کی ہوس کو کبھی اپنے دِل و دماغ میں جگہ نہ دینا، پیسے کے پیچھے بھاگو گے تو یہ تمہیں اپنے پیچھے بھگاتی رہے گی اور شاید عارضی فائدہ بھی ہو جائے، لیکن تمہیں ذہنی سکون نصیب نہیں ہو گا، ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔اِس لئے انہوں نے ہمیشہ تھوڑے پر قناعت اور صبر وشکر کا سبق دیا۔ میری والدہ نے وراثتی جائیداد میں سے کبھی حصہ لینے کا مطالبہ نہیں کیا، جو ملا بخوشی رکھ لیا اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائیں۔ورنہ ہمارے معاشرہ میں تو وراثتی جائیداد کے حصول کے لئے اپنوں کا خون سفید ہوتے اور یہ معاملات کچہریوں تک میں جاتے دیکھے گئے ہیں۔ والدہ محترمہ نے زندگی میں ہر طرح کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں ”اے اللہ! مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا“۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دُعا قبول فرمائی اور وہ کسی پر بھی بوجھ نہ بنیں۔ اپنے ہوش و حواس میں آخری نماز بھی خود ادا کی پھر ہسپتال میں دو تین دن موت و حیات کی جنگ لڑنے کے بعد ابدی نیند سو گئیں۔ 

والدہ محترمہ کے نمازِ جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی، جبکہ اظہارِ تعزیت کے لئے بھی بیسیوں افراد آئے۔میں خاص طور پر بیت اللہ اور مسجد نبویؐ میں دعائیں کرنے والے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ان مقدس مقامات پر والدہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھا، اس کے علاوہ دیارِ غیر میں میقم دوستوں کا بھی مشکور ہوں۔نمازِ جمعہ کے اجتماعات میں میری والدہ کے بلندیئ درجات کے لئے اٹھنے والے ہر ہاتھ کو میرا سلام۔ کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہے جو بڑے سے بڑے زخم کو بھر دیتا ہے، لیکن کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے اور والدہ کی وفات بھی کچھ ایسا ہی زخم ہے جو شاید کبھی بھر ا نہیں جاسکتا، بس انسان صبر کرنا سیکھ جاتا ہے۔ آپ سب سے التماس ہے کہ میری والدہ محترمہ کے بلندیئ درجات کے لئے دعائیں جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ کی قبر کو کشادہ اور نور سے منور فرمائے اور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے۔ آمین

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہئ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

مزید :

رائے -کالم -