کیا آپ کے اکاونٹ میں پچاس لاکھ موجود ہیں،اگر نہیں تو پھر اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں
آج قومی اخبارات میں یو ایچ ایس کی جانب سے پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں داخلہ کا اشتہار کیا شائع ہوا کہ کہرام مچ گیا ہے۔لوگوں نے اپنے سینے پیٹ لئے ہیں کہ ساڑھے نولاکھ روپے سالانہ کالج فیس ادا کرنے کی اہلیت وہ کیسے ثابت کریں گے ؟؟۔لوگوں کی اس بے تابی اورغصے کو عام مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے ،اس میں ایسے مضمرات ،خطرات ،تنبیہات چھپی ہیں کہ پورے ملک کا حلیہ بگاڑ کر رکھا جاسکتا ہے ۔تبدیلی خوشگواری کی بجائے کراہت کا باعث بنتی نظر آئے گی۔
مذکورہ اشتہار میں داخلہ لینے والے بچوں کو جن قواعد پر عمل کرنے کا کہا گیا ہے ،انہیں بہترین نمبروں کے علاوہ مالی طور پر اس بات کی اہلیت اور ضمانت بھی دینے کا کہا گیا ہے کہ کیا اس کے والد یا سرپرست کے اثاثے پانچ سالہ تعلیمی بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں ،اسکا ثبوت انہہیں انکم ٹیکس ذرائع سے دینا ہوگااور کیا اسکے والد یا سرپرست کی اتنی انشورنش ہوگی کہ اگر وہ مرجائے تو اسکی تعلیم پر اثر نہیں ہوگا ۔ اس تناظر میں اب سوچئے کہ کیا پاکستان میں لائق ترین اور غریب و متوسط کلاس کے بچوں کے ڈاکٹر بننے کے خواب یکسر ختم نہیں ہوگئے ۔سوچئے جو غریب بچہ اکیڈمیوں کی بھاری فیسیں کسی نہ کسی طرح دیکر ایف ایس سی میں نوے فیصد سے زیادہ نمبر لے لیتا ہے مگر اگلے مرحلہ میں اسے میڈیکل انٹری ٹیسٹ دینے کے لئے پھر بھاری فیس دیکر ہی یہ تکنیکی امتحان دیکر اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوتی ہے،بدقسمتی سے وہ اس میں بھی ستر اسّی فیصد نمبر لے لیتا ہے مگر تب بھی وہ کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں لے پاتا تواس پر کیا گذرتی ہوگی ،اس درد کو نہ چیف جسٹس جانتے ہیں نہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے ،نہ پرانے پاکستان کے مسیحا اور نہ ان سب سے ارفٰع درجہ رکھنے والی بالا دست قوتیں کہ پاکستان طبقاتی طور پر ایسی تقسیم کے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے جس کے بعد آپ توقع کریں کہ آپ کی نسل محب الوطن ہوگی، وہ ڈپریشن زدہ ذہنیت کے ساتھ اس ملک میں رہتے ہوئے اعلٰی ہمتی سے کام کرے گی اور آنے والے وقت میں ملک اسکے ناتواں کاندھوں پر کھڑا ہوگا، جائیے کسی ماہر نفسیات،ماہر سماجیات اورماہر جرمیات سے پوچھئے ،وہ کہیں گے کہ ایسے بچے جرم، بددیانتی اور تباہی کے خیالات لیکر آگے بڑھتے ہیں۔ان کی قابلیت اور جدوجہد کو جوتے کی نوک پر رکھ کر آپ نے انکے خواب برباد کردئےے ہیں ،اب وہ کسی اور پیشے میں چلے بھی جائیں گے مگر آپ ان کے دلوں اور ذہنوں پر لگے تالوں کو نہ کھول سکیں گے۔
صاحب، آپ نے پیسے کی بنیاد پر تعلیم اور مستقبل کا خواب بیچنا شروع کردیا ہے ۔ غریب متوسط اور کسی طور پر صاحب استطاعت لوگ بھی اس سفاکانہ نظام کے ساتھ اس منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے جس پر امیروں کے ساٹھ فیصد ،ستر فیصد لینے والے بچے پہنچ جائیں گے۔اب ریاست کے بڑے اداروں میں اونچی سیٹوں پر امیروں کے بچے بیٹھیں گے ۔آپ ایک بچے کا نہیں پورے خاندان کاوحشیانہ قتل کررہے ہیں ،جو لوگ اپنے لائق بچوں کو زمینیں ،زیور ،مکان اور گاڑیاں بیچ کر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں پڑھا لینے میں کامیاب ہوجاتے تھے ،اب وہ بھی اس سے محروم کردئے گئے ہیں۔پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لئے یہ کالا قانون بنا دیا گیا ہے کہ جو بچہ سنٹرل پالیسی کے تحت پرائیویٹ کالج میں داخلہ لے گا ،اسکے والد یا سرپرست اپنی ایسی ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کرائیں گے جس سے ثابت ہوسکے کہ پانچ سالہ دوران تعلیم کی ایڈوانس فیس کا وہ بندوبست کئے ہوئے ہیں۔ یعنی پینتالیس سے پچاس لاکھ روپے تک آپ کے اکاونٹ میں موجود ہیں یا ایسی جائیداد ہے جسے بیچ کر آپ فیسیں ادا کرسکیں گے تو تب آپ کا بچہ ،بچی پرائیویٹ طور پر کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اس بچے کے والد یا سرپرست کی انشورنش کا سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا لازمی ہے۔اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کتنے والدین ایسے ہوں گے جن کے بینک بیلنس اتنے بھاری ہوں گے اور وہ انشورنش کرواچکے ہوں گے،شاید یہ قانون بنانے والے بھول گئے ہیں کہ جس بندے کا بچہ ایف ایس اسی میں پہنچتا ہے تب اسکی اپنی عمر پچاس کے قریب پہنچ چکی ہوتی ہے اور اسکی ہیلتھ پالیسی جاندار نہیں بنتی۔
اس سے قبل پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لئے ایسا کوئی کالا قانون نہیں تھا،جس افلاطون نے یہ قانون بنایا ہے ،اس نے لازمی طور پر غیرملکی میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والوں کے قواعد کو دیکھا ہوگا اور پھر متاثر ہوکر اسے پاکستان میں نافذ کردیا ہے۔یہ قانون کسی بھی غیر ملکی میڈیکل کالج کے لئے تو جائز ہے لیکن اسے ہم اپنے ملک میں بالکل نافذ نہیں کرسکتے کیونکہ ان ملکوں میں یہ قانون ان کے اپنے شہریوں پر نافذ نہیں ہوتا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ہم پاکستان کو بدل رہے ہیں یا پاکستان سے بدلہ لے رہے ہیں ،کیا آپ قوم کوکسی فتنہ انگیز انقلاب پر ابھار رہے ہیں،آپ اپنی ایسی غیر منصفانہ سفاکانہ ،جاہلانہ پالیسوں کا نفاذ کریں گے جس سے والدین سمیت ان کے بچوں کے خواب مرجائیں تو کوئی کیونکرآپ کو برداشت کر پائے گا،آپ اپنے ملک میں بیٹھ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ملک کا نظام چلانا چاہ رہے ہیں،تعلیم اپ کی ترجیح ہے مگر آپ اس کا قلع قمع کرنا اور طبقاتی تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔میڈیکل کالجز کے خفیہ فنڈز کو ختم کرنے کا اچھا کام کرنے کے ساتھ ہی آپ نے ایسا قانون بنادیا ہے کہ خیراتی چندے پر چلنے والے میڈیکل کالجز کی فیسیں بھی آپ نے بڑھادی ہیں۔آپ نے ایسے والدین ا ور بچوں کے لئے تمام راستے مسدود کردئےے ہیں صاحب .... کہ غریب ،متوسط اور اپر کلاس والے بھی بچوں کو ڈاکٹر بنانا چھوڑ دیں گے ۔
۔۔
ادارے کا کسی بھی بلاگر کے ذاتی نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔