کچھ پاک بھارت جنگ1971ء کے بارے میں (3)
یہ اس کالم کی آخری قسط ہے اور اس کتاب کے پہلے باب کا بھی آخری حصہ ہے جس کا عنوان کتاب کے مصنف، مرحوم جنرل قریشی نے وتعز من تشاء و تزّل من تشاء رکھا تھا۔اور اس کا اردو ترجمہ راقم الحروف نے 2006ء یا شاید2007ء میں آخری مہینوں میں کیا تھا۔
پاک فوج کے سینئر افسروں میں اس وقت بھی بہت سے صاحب ِ دل پاکستانی موجود تھے جو اس وقت کے مشرقی پاکستان اور1971ء کے بعد آج کے بنگلہ دیش کہلانے والے، خطہ ئ ارض میں پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ آج سے55 برس پہلے جو ملک پاکستان کا حصہ تھا وہ صرف 24 برس بعد ہم سے جدا ہو کر ایک الگ ملک بننے پر کیوں مجبور ہوا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی ہم پاکستان میں رہنے والوں کا اندازِ نظر وہی ہے جو ہمارے1970ء والے اسلاف کا تھا۔
حال ہی میں ایک ہندو مصنف کے قلم سے لکھی ایک اور انگریزی تصنیف میرے زیر مطالعہ ہے جس کا عنوان ہے:
India's Military strategy
اس کتاب میں بھی1971ء کی پاک بھارت جنگ پر ایک الگ باب تحریر کیا گیا ہے جس میں اُن جنگی معرکوں کی کوئی تفصیل نہیں جو25نومبر1970ء اور 16دسمبر1971ء کے درمیان آج کے بنگلہ دیش میں لڑ ے گئے۔
یہ ایک طرح کے ٹیکٹیکل معرکے تھے۔ مصنف نے اس میں ٹیکٹکس کی بجائے ”سٹرٹیجی“ کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔یہ کتاب حال ہی میں (2023ء) میں دنیا کے تمام معروف اشاعتی اداروں کی طرف سے شائع ہوئی ہے اور مصنف کا نام ”کلیان آرامان“ ہے۔ وہ ہندو ضرور ہے لیکن اس نے تقریباً 300 صفحات پر مشتمل اس انگریزی زبان میں لکھی گئی تحریر کو کسی ناروا تعصب اور مسلم دشمنی (یا پاکستان دشمنی) کی آویزش سے ملوث نہیں کیا۔ میری نظر میں اس موضوع پر کسی پاکستانی مصنف نے(انگریزی زبان میں بھی) قلم نہیں اٹھایا۔میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا اردو ترجمہ ضرور ہونا چاہئے اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ1971ء کی اس جنگ میں ہم نے ملٹری اور سویلین محاذ پر کیا کیا غلطیاں کیں۔جنرل حکیم ارشد قریشی نے اس کتاب میں جن مباحث پر قلم اٹھایا ہے ان میں سے بعض حصے کلیان آرامان کی کتاب میں بھی مل جاتے ہیں۔ ان دونوں مسلم اور غیر مسلم مصنفین کا نقطہئ نظر یہی ہے کہ پاکستان نے1971ء کی اِس جنگ میں بھارت سے نہیں بلکہ اپنے مسلمان بنگالی بھائیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک (1947ء سے لے کر1971ء تک) روا رکھا،اس کی وجہ سے انڈین آرمی سے شکست کھائی۔اس انڈین آرمی کے ساتھ اس وقت کے مشرقی پاکستان کی 90فیصد پاکستانی/بنگالی آبادی بھی شامل تھی۔
میں اس سلسلے میں آپ کا زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔جنرل قریشی کے بابِ اول کے اردو ترجمے کا آخری حصہ پیش ِ خدمت ہے:
میرے سیکنڈ اِن کمانڈ نے رنگ پور ریلوے سٹیشن پر مجھے خوش آمدید کہا۔ اس کے ہمراہ باقاعدہ مسلح گارڈ تھی۔ میرے اس طرح بغیر گارڈ کے سفر کرنے پر اسے چنداں خوشی نہ ہوئی بلکہ اس نے مجھے ہلکی سی سرزنش بھی کی کہ میں نے کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ میں سوچنے لگا کیا میں ایک کم آمیز یا خشک مزاج شخص ہوں؟ یا کیا احکامات کی خلاف ورزی میری عادت ہے یا کیا میں لوگوں کو مبتلائے حیرت رکھنا چاہتا ہوں کہ وہ میری عادات کا نوٹس لیں کہ میں ایک ”وکھری قسم“ کا کمانڈنگ آفیسر ہوں؟…………ہو سکتا ہے میرے رویئے میں یہ سارے ہی عناصر شامل ہوں! لیکن میرے اس عمل کی سب سے بڑی وجہ میرا یہ یقین تھا کہ اپنے ہی لوگوں اور اپنے ہی ملک میں ذاتی حفاظت کے لئے کسی گارڈز کا اہتمام کرنا اصولی طور پرغلط ہے۔ ہاں جب آپ کسی دشمن کے مقبوضہ علاقے میں سفر کر رہے ہوں تو بات اور ہوتی ہے کہ وہاں مفتوح کو کسی فاتح سے کوئی محبت، کوئی الفت نہیں ہوتی۔ اگر لوگوں کی اکثریت آپ سے اِس قدرنفرت کرنے لگے کہ وہ آپ کو نقصان پہنچانے حتیٰ کہ قتل کرنے تک آجائے تو پھر آپ کو مسئلے کی اصل وجوہات کا پتہ چلانا چاہئے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ بجائے اس کے کہ آپ ہر سویلین اور فوجی کو کسی جسمانی حملے کے خطرے کے پیش ِ نظر قلعہ بند کرنا شروع کر دیں، بہتر ہو گا کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ انسانی رشتوں کا احترام اور تقدس لوگوں کے دِلوں میں اُتر ے اور ان کے رویوں کی تہذیب ہوسکے۔
یہ حفاظتی گارڈ،یہ اسکارٹ اور اس طرح کے دوسرے اقدامات آپ کو عوام کے سوادِ اعظم سے دور لے جاتے ہیں اور آپ کو مزید تنہا کردیتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے کہ دو خاندان اگر ایک دوسرے کے ہمسائے میں رہ رہے ہوں ان کے مابین سخت مخالفت ہو اور وہ ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں اور ایسے میں آپ ان دونوں کے درمیان ایک ایسی بلند دیوار حائل کردیں کہ وہ ایک دوسرے کے پچھواڑے میں جھانک بھی نہ سکیں تو ان حالات اور ایسی فضاء میں اگر محض اتفاقی طورپر ہی کوئی برتن کسی ایک ہمسائے کے ہاں نیچے زمین پر گر پڑے تو دوسرا فوراً شک کرے گا کہ شاید پستول لوڈ کئے جارہے ہیں اور ہم پر فائر بس آیا ہی چاہتا ہے؟…… …… بے یقینی، خوف اور شکوک و شبہات کی فضاء میں ایسی سمتوں سے خطرات کی آمد متصور کرلی جاتی ہے جہاں درحقیقت کوئی خطرہ ہوتا ہی نہیں، جس کشیدہ ماحول میں خفیف سا خطرہ بھی ایک بہت بڑی جوابی کارروائی کا باعث بن جاتا ہے اور اس کے ردعمل کے نتیجے میں بہت سی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی حکمران، ایڈمنسٹریٹر یاملٹری کی کمانڈ کی ذہنی کیفیت کا یہ عالم ہو تو اس کا نتیجہ ہمیشہ افراتفری اور شدید ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اوراس کا انجام بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف اپنے آپ کو بچانے کے لئے ایک مسلح اسکارٹ کا اہتمام کرنا ویسے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ اسی علاقے میں ہم نے اپنے پیشروؤں کے بارے میں بالکل مختلف قسم کی داستانیں سن رکھی تھیں۔ ایک ایسی ہی کہانی جو 1950ء کے عشرے کے وسط کے بارے میں بیان کی جاتی تھی،یہ تھی کہ ایک کمانڈنگ آفیسر کی پوسٹنگ اس علاقے میں ہوئی۔اُس نے اپنے ایک نوجوان آفیسر کو خط لکھا کہ میں فلاں فلاں ٹرین سے آ رہا ہوں۔ میرے لئے ریلوے سٹیشن سے آفیسرز میس تک ایک گائیڈ اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیاجائے۔ فوج میں اِس قسم کا بندوبست ایک معمول کی بات شمار ہوتی ہے۔ نجانے اس نوجوان آفیسر نے اس خط کا کیا مطلب لیا کہ جب کمانڈنگ آفسر ریلوے سٹیشن سے باہر نکلے تو دیکھا کہ علاقے کے سارے رؤسا، معززین شہر اور سول محکموں کے سارے بڑے بڑے آفیسر اور عہدیدار ہاتھوں میں ہاتھ لئے ایک لمبی قطار بنائے ریلوے پلیٹ فارم پر استقبال کے لئے موجود تھے۔ باہر ایک پورا بینڈ استقبالی دھنیں بجا رہا تھا اور پاس ہی ایک سجا سجایا ہاتھی منتظر کھڑا تھا۔ کمانڈنگ آفیسر کو اس ہاتھی پر سوارکیا گیا اور سٹیشن سے آفیسرز میس تک کا فاصلہ رنگ و آہنگ اور جوش و خروش کے ایک بے مثال جذبے کے ساتھ طے کیا گیا۔ دراصل اپنے کسی بھی نووارد مہمانِ عزیز کے استقبال کی یہ روایت اس علاقے کا ایک دیرینہ طرہئ امتیاز تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب کمانڈنگ آفیسر نے یہ سب لاؤ لشکر دیکھا تو ناراضگی کی ایک ہلکی سی شکن ان کے ماتھے پر نمودار ہوئی۔ اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے اس نوجوان استقبالی آفیسر نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا:”سر مجھے افسوس ہے آپ کا پیغام اتنااچانک ملا کہ میں آپ کے استقبال کے لئے کافی و شافی اور خاطر خواہ انتظامات نہ کرسکا۔“