قانون نافذ کرنیوالے اداروں کومظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا حکم
قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو کراچی کے عوام نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا۔احتجاجی عوام گورنر جنرل ہاؤس کے گیٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ انگریز کے تربیت یافتہ سٹاف نے قائد اعظم سے کہا کہ ہمیں عوام پر لاٹھی چارج کرنا پڑے گا۔قائد اعظم نے اپنے سٹاف سے کہا کہ تم پاکستان کے مالک عوام پر لاٹھی چارج کیوں کرنا چاہتے ہو۔قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس کی بالکنی پر گئے اور عوام سے کہا کہ آپ کیوں احتجاج کر رہے ہیں آپ کے مطالبات کیا ہیں آپ کے پانچ نمائندے کل دس بجے میرے دفتر میں آجائیں میں آپ کا مسئلہ حل کر دوں گا۔ قائد اعظم کی یہ بات سن کر احتجاجی عوام منتشر ہو گئے- عوام کے ہمدرد اور دوست لیڈر عوام پر لاٹھی چارج کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ غیر مقبول حکومتیں ہی عوام پر تشدد کرتی ہیں۔ لاٹھی چارج کرتی ہیں اور بے دریغ آنسو گیس کا استعمال کرتی ہیں۔ اگر مینار پاکستان کو جانے والے راستے بند نہ کیے جاتے اور تحریک انصاف کے کارکن مینار پاکستان میں پہنچ جاتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ وہ احتجاج کرتے اپنا غصہ نکالتے اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے۔ احتجاج پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں جب بھی احتجاج کی کال دی جاتی ہے احتجاج سے پہلے پولیس گردی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے، فعال اور متحرک کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔ فون سروس بند کر دی جاتی ہے، کنٹینر لگا کر راستے روک دئیے جاتے ہیں، احتجاج کی کال دینے والی سیاسی جماعت حکومت کی ان افسوسناک کارروائیوں سے سیاسی فائدہ اٹھا لیتی ہے۔پولیس نے اوپر سے ملنے والی ہدایات پر مینار پاکستان جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا-تحریک انصاف کے کارکنان تمام رکاؤٹوں کو عبور کرتے ہوئے اور آنسو گیس سے متاثر ہوتے ہوئے مینار پاکستان کے قرب و جوار میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا۔ حکومت نے سیکورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دئیے اور ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے باوجود عوام کی جانب سے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی تاریخ کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ڈی چوک اسلام اباد کی صورتحال اس قدر کشیدہ ہو گئی کہ حکومت کو پولیس کے علاوہ رینجرز اور فوج کو بھی طلب کرنا پڑا تاکہ وہ امن و امان کے فرائض انجام دے سکے۔ اگر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے آنے والے قافلے کو برہان انٹرچینج پر نہ روکا جاتا اور خندقیں نہ کھودی جاتیں اور کارکنوں پر بلا جواز شیلنگ نہ کی جاتی تو صورتحال اس قدر کشیدہ نہیں ہو سکتی تھی- پاکستان کے عوام ڈی چوک اسلام آباد پر سینکڑوں احتجاجی جلسے اور دھرنے دیکھ چکے ہیں -عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014ء میں ڈی چوک اسلام آباد میں 126 دن کا طویل ترین دھرنا دیا تھا-اس تاریخی دھرنے میں 60 سے 70 ہزار افراد شریک ہوئے تھے- ایک معتبر رپورٹ کے مطابق علی امین گنڈا پور کے ساتھ صرف دو تین ہزار کارکن موجود تھے وہ اگر اسلام آباد میں داخل ہو بھی جاتے تو پولیس اور سیکیورٹی فورسز ان کو آسانی سے منیج کر سکتی تھیں - مگر افسوس حکومت نے عجلت میں غلط فیصلے کر کے اشتعال انگیزی کی راہ ہموار کی جس کا سیاسی نقصان خود حکومت کو ہی برداشت کرنا پڑا۔ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت دونوں احتجاجی کال کو مناسب طریقے سے ڈیل کرنے سے قاصر رہیں۔علی امین گنڈا پور صوبہ خیبر پختونخوا کے منتخب وزیراعلیٰ ہیں۔ ان پر کچھ آئینی اور قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔حکومت کی جائز پریشانی یہ ہے کہ ایک روز بعد 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں دو روزہ شنگھائی کانفرنس شروع ہو رہی ہے حکومت کا خیال ہے کہ عمران خان اس شنگھائی کانفرنس کو ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔ جیسے انہوں نے 2014ء_ میں جو دھرنا دیا اس کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرنا پڑا تھا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم ایک ہی طرح کے تجربات کرتے رہتے ہیں۔اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ احتجاجی سرگرمیوں سے امن و امان قائم نہیں رہتا اور سکیورٹی کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر ایسی قانون سازی کرے جس کے نتیجے میں کسی بھی سیاسی مذہبی جماعت کو ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہ ہو جن سے لوگوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہو اور سکیورٹی کے خدشات لاحق ہو سکتے ہوں۔پاکستان میں سٹیٹس کو اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ تبدیلی کی کوشش کرنے والے اکثر اوقات ناکام ہی رہتے ہیں۔تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بیدار باشعور اور منظم ہو کر ایک انقلابی تحریک چلائیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست معیشت اور سماجیت کا قبلہ درست کیا جا سکے۔سٹیٹس کو کی قوتوں کو بے بس بنایا جا سکے- حالیہ احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا تحریک انصاف کے لیڈر کسی جگہ نظر نہ آئے۔ لیڈروں کے اس شرمناک روپے سے کارکنوں میں مایوسی اور بداعتمادی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جو سیاسی جماعتیں منظم نہیں ہوتیں انہیں ہمیشہ بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔