عالمی قرض ملنے کی خوشی
آخر کار پاکستان کا نمبر آ ہی گیا، آئی ایم ایف کے بورڈ کے اجلاس منعقدہ25 ستمبر بروز بدھ کو پاکستان کو دیئے جانے والے قرض پروگرام کی توثیق ہو گی۔یاد رہے سات ارب ڈالر کے37ماہ پر مشتمل اس قرض پروگرام کی تفصیلات گزشتہ سے پیوستہ ماہ میں سٹاف لیول پر طے پا چکی ہیں۔حکومت پاکستان نے قرض کی تفصیلات اور اس سے جڑی شرائط پر تفصیلاً گفتگو کر لی تھی بہت سی شرائط پر پہلے ہی عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ بجٹ2024-25ء میں بھی تمام اقدامات کو سمو دیا گیا تھا۔ سٹاف لیول ایگریمنٹ ہونے کے باوجود پاکستان کے قرض کی منظوری کے لئے بورڈ ایجنڈے میں آئیٹم آف ایجنڈا کے طور پر پیش نہیں کیا جا رہا تھا،حالانکہ سٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد بورڈ کی تین میٹنگز ہو چکی ہیں ان میں کئی ممالک کے قرضہ جات کی منظوری بھی دی گئی۔اِس حوالے سے تاخیر کو دیکھتے ہوئے شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے کہ شاید پاکستان کو قرض دینے سے پہلے کچھ اور شرائط منوانے کی حکمت عملی کے تحت معاملات میں تاخیر کی جا رہی ہے پھر ٹائمز آف اسرائیل میں عمران خان کے حوالے سے چھپنے والے بلاگ کے مندرجات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانے لگا کہ صہیونی لابی عمران خان کی جیل سے رہائی چاہتی ہے تاکہ وہ نہ صرف آزادانہ طور پر سیاست کر سکیں، بلکہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں میں بہتری لانے کے اپنے پرانے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکیں۔ بادی النظر میں قرض کی حتمی منظوری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی،حکومت پاکستان نے ایک فرمانبردار بچے کی طرح فنڈ کی تمام جائز و ناجائز، آسان و مشکل تمام شرائط مان لی تھیں،ان کے مطابق پالیسی سازیاں بھی شروع کر دی تھیں، بجٹ مکمل طور پر فنڈ ماہرین کی نگرانی اور قیادت میں تیار ہوا تھا۔ بجٹ کو عوام کی اکثریت نے رد بھی کر دیا تھا اسے عوام دشمن بھی قرار دے دیا تھا، لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی،کیونکہ اس نے یہ سب کچھ فنڈ کے کہنے پر کیا تھا اور فنڈ کے ہاتھ میں قومی معیشت کی جان تھی اس کے باوجود قرض کی حتمی منظوری میں تاخیر پاکستان کے لئے حقیقتاً جان لیوا ثبوت ہو رہی تھی۔ہمارے برادر اور دوست ممالک بھی بہت آسانی سے ہماری امداد کرنے یا ہماری دہائی سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔کئی سرکاری محکموں میں تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہوتی چلی جا رہی تھی۔سات ارب ڈالر کا پیکیج نہ ملنے کی صورت میں منی بجٹ پیش کرنے کی باتیں بھی شروع ہو چکی تھیں حالات کے بگاڑ میں، منفی تاثرات کی تخلیق میں حکمرانوں کے طرزِ فکر و عمل کا بھی بہت حصہ ہے،جب سٹاف لیول ایگریمنٹ ہوا تو حکومتی وزراء نے بیانات دینے شروع کر دیئے کہ بس قسط ملنی شروع ہوا چاہتی ہے خوشی سے بھنگڑے ڈالے جانے شروع ہو گئے۔تاثر یہی تھا کہ جیسے کوہ ہمالیہ سر کر لیا ہے۔ہم نے بھی ایسا ہی جانا کہ بس ڈالروں کی ترسیل شروع ہوا چاہتی ہے،حالانکہ سٹاف لیول ایگریمنٹ میں کچھ ایسی بھی شرائط شامل تھیں، جنہیں قبل از بورڈ منظوری پورا کرنا ضروری قرار پایا تھا ہم نے قبول کیا تھا۔ بیرون ممالک سے فنڈنگ کا حصول بھی انہی شرائط میں شامل تھا۔چین، سعودی عرب اور یو اے ای کو جو رقوم ہم نے ادا کرنا تھیں، انہیں رول اوور کرانا بھی ایسی ہی پری کنڈیشنز میں شامل تھا۔ہمارے حکمران کیونکہ مانگنے، منت ترلے کرنے اور معافی تلافی کرانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اِس لئے انہوں نے یہ سب کچھ منٹوں کا کھیل قرار دے کر اعلان کر دیا کہ بس ڈالر آئے کہ آئے،لیکن جب عملاً سب کچھ کرنا پڑا تو لگ پتہ گیا، منفی تاثر ایسے ہی پیدا ہوا، لیکن اب الحمد للہ معاملات کی حتمی منظوری کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ 25ستمبر کو فنڈ کے بورڈ میں ہمارا سٹاف لیول ایگریمنٹ پیش ہو رہا تھا اور منظوری کا مرحلہ بھی طے پا جائے گا۔ مایوسی کے امڈتے بادل چھٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ہماری قومی معیشت، فنڈ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کے نتیجے میں پہلے ہی بہتری کی طرف گامزن ہو چکی ہے، معاشی اشاریے مثبت تبدیلیوں کا پیغام دے رہے ہیں۔
مہنگائی کم ہوتی ہوتی ڈبل سے سنگل ڈیجٹ پر آ گئی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تسلسل سے کمی کی طرف جا رہی ہیں۔حکومت نے حال ہی میں بجلی کی کمپنیوں کے ساتھ قیمتوں میں کمی کے حوالے سے مذاکرات کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے،جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ توانائی کے شعبے سے بھی مثبت خبر ملے گی۔سٹیٹ بینک شرح سود کو21/22 فیصد سے17.5فیصد تک نیچے لے آیا ہے، جس سے سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوتے چلے جا رہے ہیں،بحیثیت مجموعی معاشی تکلیف کا دور قصہ ماضی بنتا نظر آ رہا ہے،لیکن آئی پی پیز کے ساتھ معاملات درست کئے بغیر کچھ بھی نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔بجلی کے ہوشر با نرخ اور اس پر کیپسٹی چارج کی وصولیاں کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہیں۔سوشل میڈیا نے عوام میں معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے،عوام کے درمیان انٹرایکشن بھی بڑھ گیا،بجلی کے بلوں میں 13 قسم کے اضافی ٹیکس اب عوام کے لئے قابل ِ قبول نہیں ہیں،بجلی کا بل اخراجات کی مد میں شمار ہوتا ہے اس پر دو طرح کے انکم ٹیکس،پھر بجلی میٹر جو صارف کا خرید کردہ ہوتا ہے، کا کرایہ، ٹیلی ویژن فیس مل ملا کر13قسم کے ٹیکسز سمیت بجلی بلوں کی وصولی عوام کے لئے سوہانِ روح بن چکی ہے۔ اشرافیہ کے خلاف عمران خان کی للکار حکمران طبقات کو پریشان کیے ہوئے ہے،جماعت اسلامی کے دھرنے اور شٹر ڈاؤن، ہڑتالیں بھی حکمرانوں پر،ان کی حکمرانی پر، ان کی لوٹ مار اور عوام کش پالیسیوں پر حکمرانوں کی نیندیں حرام ہونا شروع ہو چکی ہیں،بغاوت کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔قرض کی منظوری کی امید پر خوشیاں اپنی جگہ لیکن،عوام کی بے اطمینانی اور حکمران طبقات کے خلاف بیداری کی لہر اگر طوفان بن گئی تو سب کچھ بہا کر لے جا سکتی ہے۔