طالبان کا محبت نامہ امریکی عوام کے نام
ظلم جتنا بھی طویل ہوجائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انجام کو پہنچ ہی جاتا ہے۔ خون بہتا ہے تو جم جاتا ہے، اندھیری رات کے بعد روشن صبح نے طلوع ہونا ہی ہوتا ہے۔سننے میں آیا ہے کہ افغان طالبان نے امریکہ کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے ’’ جنگ جنگ چھوڑو آؤ امن کی بات کرتے ہیں،لڑائی سے نہیں افغانستان کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے‘‘
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے امریکی عوام اور امن پسند کانگریس کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت پر زور ڈالیں کے وہ پرامن ذرائع سے افغانستان کے مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔مزید لکھتے ہیں کہ ہٹ دھرمی سے جنگ جاری رکھنے اور کابل میں ایک کرپٹ اور غیر موثر حکومت کی پشت پناہی جاری رکھنے سے پورے خطے اور امریکہ کے اپنے استحکام کے لیے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے،یہ خط پشتو اور انگریزی زبانوں میں طالبان کی اپنی ایک ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔
یہ خط ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک معتبر ادارہ افغانستان کی ستر فیصد سرزمین پر طالبان کے کنٹرول کا اعتراف کرچکا ہے، یہ ادارہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ اس وقت افغانستان کے 14 اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ 263 اضلاع ایسے ہیں جہاں وہ سرگرم ہیں اور کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں، یہ تعداد ماضی میں طالبان کی طاقت کے بارے میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔وہ علاقے جہاں طالبان کی کھلے عام موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کی بات کی گئی ہے، وہاں وہ سرکاری عمارتوں پر اکثر حملے کرتے ہیں جن میں فوجی اڈوں پر مربوط حملوں سے لے کر انفرادی حملے سب شامل ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ افغان دارالحکومت کابل میں بھی طالبان گھس کر کارروائیاں کررہے ہیں لیکن تعصب کی عینک پہنے امریکی تصویر کا ایک رخ دیکھ رہے ہیں اور پوری کوشش میں لگے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے افغانستان میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر جان چھڑائی جائے ۔افغانستان میں لگی آگ کو پاک سرزمین پر منتقل کیا جائے۔
یہ امریکی کوشش آج کی نہیں بلکہ یہ 15سال سے جاری ہیں جب ڈیزی کٹر بموں سے افغانیوں کی گردنیں کاٹی گئیں،جب بارود سے تورا بورا کے پہاڑ سیاہ کیے گئے،جب شادیوں،جنازوں کی تفریق کیے بغیر کارپٹڈ بمباری کی گئی،آج امریکہ انہی دہشتگردوں سے امن کی بات کرنے پر مجبور ہے جن کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا رہا۔
افغانستان میں امن کیلئے یہ اہم پیش رفت ہے ،یقیناً یہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو پاکستان،چین،روس اور ایران کررہے تھے ،امریکہ کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے بقول شاعرکیوں کہ
خون اپنا ہو یا پرایا ہو ۔۔۔نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں ۔۔امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر ۔۔۔۔روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے ۔۔زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں ۔۔کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ ۔۔۔۔۔زندگی میتوں پہ روتی ہے
ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ امریکا افغانستان میں اُسامہ کو پکڑنے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آیا تھا۔ جس کے لیے اُس نے جہاں لاکھوں لوگوں کو اِس کام کے لیے بھینٹ چڑھایا وہیں اپنے لاکھوں، کروڑوں ڈالر بھی ضائع کیے۔ اب افغانستان کے انسانوں سے تو شاید اُس کو کچھ لینا دینا نہ ہو، مگر اپنے لاکھوں، کروڑوں ڈالر کے لیے تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے امریکہ کو افغانستان، پاکستان اور پوری عالمی برادری کی کوششوں میں مخلصانہ تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے،اب وہ وقت آچکا ہے کہ برسوں سے جلتے ہوئے پہاڑوں، دہکتے ہوئے ریگزاروں میں محبت امن کے پھول کھلائے جائیں،امن کی پیاسی سرزمین کو پیار سے سیراب کیا جائے، جنگ کے ترانوں کو محبت کے سریلے نغموں سے مات دی جائے۔ اگرچہ ماضی میں یہ تجربہ ناکام ہوا ہے مگر اِس بار اُمید اور خواہش تو یہی ہے کہ افغانستان میں15 سالہ آگ اور خون کے کھیل کے بعد محبت امن وآشتی کے پھول کھلیں گے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔