بچگانہ سے مدبرانہ تک!! 

بچگانہ سے مدبرانہ تک!! 
بچگانہ سے مدبرانہ تک!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارا ایک مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ہم ”من بھاتا“ کو ہی درست تسلیم کرنے کے عادی ہیں۔ ورنہ اصول، قاعدے، ضابطے، نتائج کو مستقبل کی منصوبہ بندی میں بنیاد بنایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں کسی بڑے سے بڑے اور مستند سے مستند ادارے یا تنظیم کی طرف سے کیا جانے والا اور سروے اسی صورت میں قابل قبول ہوتا ہے جب وہ ہماری خواہشات سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہ دلیل تو دل و لگتی ہے کہ خبردار افراد کی رائے حاصل کردہ نتائج کو کروڑوں کے ملک یا صوبے پر کیسے منطبق کیا جا سکتا ہے؟ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ماضی میں عموماً اس طرح کے سروے سے جاری کئے گئے نتائج بعد کے انتخابی نتائج کے قریب قریب ہی تھے۔ مگر ووٹوں کی گنتی تک ہم ان اعداد و شمار کو مان کر نہیں دیتے کہ جو ہماری ممدوح سیاسی جماعت یا شخصیت کے حق میں نہ ہوں۔ سیاست کے علاوہ معیشت کے شعبے میں بھی ہمارا رویہ یہی ہے۔ عالمی ادارے یا تنظمیں سائنسی بنیادوں پر معیشت کی موجودہ حالت اور آئندہ کے تخمینوں کے حوالے سے جو کچھ بتاتے ہیں اسے بھی ہم اپنی اپنی عینک سے دیکھ کر قبول یا مسترد کرتے ہیں۔ یہی کیفیت معاشرت کی ہے۔ اس حوالے سے مشاہداتی تجزیوں کو بھی ہم درخور اعتناء نہیں سمجھتے اور انہیں این جی اوز کی خرمستیاں قرار دے کر آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اس کے برعکس موجودہ حکمرانوں کا خمیر این جی اوز کی جنم بھومی مغرب سے اٹھا ہے۔ اس لئے ان کا انداز کار این جی اوز سے ملتا جلتا ہونا فطری ہے۔ این جی اوز کا طریقہ کار جن دستاویزات اور کتابوں میں درج ہے وہ ہمارے درآمدی حکمرانوں کو ازبر ہیں۔ البتہ خرابی یہ ہوئی ہے کہ ان کتابی فارمولوں کی ”کاشت“ کے لئے جو زمین درکار تھی وہ نہیں ملی تو مطلوبہ پیداوار کیسے حاصل ہو پاتی۔ زمینی حقائق اور رہنما اصولوں میں مطابقت نہ ہو تو اعلانات، دعوؤں اور وعدوں پر مشتمل تقاریر کانوں کو بھلی تو لگ سکتی ہیں۔

فلاح و بہبود والے نتائج نہیں دے سکتیں۔ کتابی فارمولے کے تحت تو یہ بہت اچھی بات ہے کہ اچھی کارکردگی کو تسلیم کیا جائے، اس کی توصیف کی جائے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ کم کارکردگی یا بری کارکردگی والوں کو بھی اچھا کرنے کی ترغیب ملے۔ گھرانے سے لے کر سکول کی کلاس تک یہ آزمودہ فارمولا ہے۔ فرق یہ ہے کہ گھروں میں اور سکولوں میں بری کارکردگی پر سزا بھی ملتی ہے بھلے وہ جھاڑ کی صورت میں ہی ہو اب اگر ماسٹر عمران خان نے اپنی وزارتی کلاس کے ہونہار بچوں پر یہ فارمولا لاگو کر دیا ہے تو اس کا اصولی طور پر خیر مقدم کیا جانا چاہئے یہ تو بہت ہی ڈیسنٹ انداز ہے کہ پچاس کی کلاس میں سے دس بچوں کو توصیفی اسناد دے کر بتایا گیا ہے کہ ان کی کارکردگی سب سے اچھی ہے۔ ان میں بھی کارکردگی کی بنیاد پر ہی درجہ بندی کی گئی ہے کہ پہلے عزیز وزیر مراد سعید ہے، دوسرے پر فلاں تیسرے پر فلاں وغیرہ وغیرہ۔ انہیں تھپکی دی گئی ہے شاباش دی گئی ہے لیکن کسی کی سرزنش نہیں کی گئی۔ برا بھلا نہیں کہا گیا۔ سزا نہیں دی گئی۔ صرف ترغیب دی گئی ہے کہ آپ مزید محنت کریں آئندہ  آپ کو شاباش مل تو ملے۔ میڈیا ڈارلنگ شیخ رشید نے اپنے عوامی انداز میں خوشی کا اظہار بھی کر دیا کہ میں ٹاپ ٹین میں آ گیا ہوں۔ ان کا نمبر 9 واں ہے اگر ایک آنے کی کسر بھی رہ جاتی تو وہ فہرست سے باہر ہو سکتے تھے۔

یہ ان کے انداز بیان کا بھی کمال ہے کہ چینلز پر ان کی ریٹنگ حریم شاہ اور مفتی قوی سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ ادھر ہمارے سدا بہار وزیر خارجہ ہیں جو اس درجہ بندی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ انہیں لکھنے اور بولنے میں یکساں مہارت حاصل ہے وہ سرائیکی، پنجابی، اردو، انگریزی میں اظہار خیال کا بھی یکساں ملکہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سیکرٹری کابینہ کو خط لکھ کر یہ پوچھنا ضروری سمجھا ہے کہ وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ایسا کون سا فارمولا لاگو کیا گیا ہے کہ ان کی وزارت خارجہ بھی فہرست سے خارج ہو گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی وزارت خارجہ طے شدہ ”پیرا میٹرز“ پر نہ صرف پورا اترتی ہے بلکہ ماضی کی کئی دہائیوں سے بڑھ کر ہے۔ یار لوگوں نے ان کے خط کو فسانہ بنا کر اس میں سے وہ وہ کچھ نکالنے کی کوشش کی ہے جو مخدوم صاحب کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا انہوں نے تو ریکارڈ درست رکھنے کے لئے فائل کا پیٹ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی ان کی طرف سے ”حق گوئی اور بے با کی“ کا مرحلہ نہیں آیا۔ یہ یار لوگ بھی بہت ظالم ہیں۔

پہلے ہی ان کا نام کسی کے متبادل کے طور پر لے لے کر ان کو گرم پانی میں دھکیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اب ان کو نا خوش پینٹ کر کے خلیج حائل کرنے کی نامناسب کوشش کرتے  دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض دوست البتہ ماسٹر صاحب کی اس شاباشی کوشش کو بچگانہ بھی قرار دے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی اس حرکت سے کابینہ کے باقی ماندہ چالیس پچاس لوگوں کو ناراض کر لیا ہے ہمارے ہاں پائے جانے والے عام چلن کے مطابق اسناد پانے والے دس تو شائد ہی خوش ہوں البتہ چالیس پچاس کی ناراضگی پکی ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ یہ نیا کام ہوا ہے جو آہستہ آہستہ ہی ہضم ہوگا۔ کسی کی خوشی یا ناراضگی سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو کتابی طور پر یہ بہت اچھا اقدام ہے۔ شرط صرف میرٹ کی ہے کہ اس طرح کی فہرست میں پسند نا پسند یا لابی ازم کا شائبہ تک نہ ہو۔ ورنہ ایک اچھا تجربہ ناکامی کی دھول میں گم ہو جائے گا۔ پہلے ہی ہمارے ارباب اقتدار کے کھاتے میں کامیابیوں کا اندراج مشکل سے ہی ملتا ہے۔ اس اچھی حرکت کا تسلسل جاری رہا تو یہ ”بچگانہ سے مدبرانہ“ بھی ہو سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -