بچوں کو جھوٹ بولنا سکھایئے

بچوں کو جھوٹ بولنا سکھایئے
بچوں کو جھوٹ بولنا سکھایئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پچھلے دنوں ایک امریکی ماہر نفسیات ایلکس سٹون (Alex Stone) کا ایک آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان وہی تھا جو میں نے اس کالم کا عنوان بنایا ہے۔

یہ عنوان بڑا اشتعال انگیز (Intriguing) تھا اس لئے پہلے تو سوچا کہ ٹرمپ کے امریکہ میں ایسے ہی ماہرنفسیات ہوں گے جیسا کہ موصوف خود ہیں کہ سیانے کہہ گئے ہیں کہ ’’جیسا راجہ ویسی پرجا‘‘۔۔۔لیکن جب پہلا فقرہ پڑھا تو دل کو لگا۔

فقرہ یہ تھا: ’’تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جھوٹ بولنا نہ صرف نارمل سی بات ہے بلکہ ذہانت و فطانت کی علامت بھی ہے‘‘۔ اس کے بعد تحقیق کی تفصیل دی ہوئی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ 1980ء کی دہائی کے وسط میں مشہور امریکی ماہرنفسیات مائیکل لیوس (Lewis) نے ایک سادہ سا تجربہ کیا تھا۔

اس نے دو سال کے ایک ننھے بچے کی کمر کے پیچھے چپکے سے ایک کھلونا رکھ دیا اور کہا: ’’دیکھو بیٹا، کمر کی طرف مڑ کر نہ دیکھنا‘‘ اور خود کسی بہانے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں ایک کھڑکی سے دیکھا تو بچے نے پہلے اِدھر اُدھر جھانکا اور جب یقین کر لیا کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا تو کمر کے پیچھے دیکھنے لگا۔

کھلونے کو اٹھا کر اپنے سامنے رکھا۔ کچھ دیر اس سے کھیلتا رہا اور پھر واپس اسی جگہ رکھ دیا جہاں سے اٹھایا تھا۔جب لیوس واپس آیا تو بچے سے پوچھا: ’’بیٹا! کمر کے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا تھا ناں؟‘‘ بچے نے سر ہلایا اور جواب دیا: ’’بالکل نہیں!‘‘۔۔۔


اس حیرت انگیز تجربے کے بعد اس نے 500بچوں پر یہی تجربہ دہرایا۔ ان بچوں کی عمریں 3سال سے لے کر پانچ سال تک تھیں۔ ان میں بچے بھی تھے اور بچیاں بھی اور آبادی کے مختلف طبقوں سے ان کا تعلق تھا۔

کوئی افریقی تھا، کوئی ایشیائی، کوئی بالکل غریب تھا اورکوئی کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ۔۔۔۔ اس تجربے سے دو حقائق کا انکشاف ہوا۔

ایک یہ کہ بچوں کی اکثریت نے موقع ملتے ہی فوراً کمر کے پیچھے دیکھنا شروع کر دیا اور دوسرے یہ کہ اکثریت نے دریافت کرنے پر جھوٹ بولا اور کہا کہ ہم نے تو بالکل بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔


لیوس نے ان سب بچوں کے کوائف اکٹھے کئے اور انتظار کرنے لگا اور جب وہ بچے 20،25برس کے جوان ہو گئے تو ان کی سماجی حیثیت یعنی معاشرے میں ان کے مقام و مراتب اور دوسری مختلف سرگرمیوں کی تفصیلات اکٹھی کیں تو معلوم ہوا کہ جنہوں نے بچپن میں جھوٹ بولا تھا، وہ بڑے ہو کر کامیاب بزنس مین، کامیاب وکیل، کامیاب طالب علم اور کامیاب افرادِ معاشرہ ثابت ہوئے۔

وہ ہر شعبے میں سمارٹ شمار کئے گئے ۔ ان کے برعکس جنہوں نے سچ بولا تھا یا لیوس کی بات مان کر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا وہ اوسط ذہانت کے حامل نکلے، انہوں نے معاشرے میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کیا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کر سکے جس میں عقل و دانش اور ذہانت درکار تھی! پروفیسر لیوس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ دروغ گو بچوں کا آئی کیو (IQ)راست گو بچوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تھا۔

اسی طرح ایک اور ماہر نفسیات پروفیسر کانگ لی (Kang Lee) بھی تین عشروں تک بچوں پر تجربات کرتا رہا اور ان کے جھوٹ سچ بولنے کا سراغ لگا کر ان کی آئندہ زندگیوں کے کوائف اکٹھے کرتا رہا اور آخر میں ایک ریسرچ پیپر میں یہ لکھا کہ جو والدین یہ مشاہدہ کریں کہ ان کے دو یا تین سال کے بچے یا بچی نے جھوٹ بولنے کا ارتکاب کیا ہے تو ان کو باقاعدہ اس کا جشن منانا چاہیے اور جن والدین کے بچے راست گوہیں اور جنہوں نے سچ بولا ہے ان کو بھی زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے سچ بولنے والوں کو مختلف قسم کی مشقیں کروا کر چند ہفتوں میں جھوٹ بولنے کی تربیت دے کر سمارٹ بنایا جا سکتا ہے۔

ایسے بچوں کو کہا جائے کہ جھوٹ بولیں اور سچ بولنے سے گریز کریں۔ پروفیسر کانگ لی نے آخر میں نتیجہ نکالا کہ: ’’چھوٹے بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر کامیاب زندگی گزار سکیں اور معاشرے کی ترقی میں بہتر کردار ادا کر سکیں‘‘۔۔۔ اس آرٹیکل میں ایلکس سٹون نے مزید تجربات کا ذکر بھی کیا تھا اور مزید ٹیکنیکل نفسیاتی موضوعات پر بحث کرتے ہوئے آخر میں یہی نتیجہ نکالا تھا کہ جھوٹ بولنا بری عادت نہیں بلکہ دروغ گوئی کا فن بچوں کو مستقبل میں بہت سی دوسری آفات و بلیّات سے محفوظ رکھنے کے کام آتا ہے۔۔۔


میں یہ مضمون پڑھ کر سکول کے زمانے میں شیخ سعدی کی ان دو حکایات کو یاد کرنے لگا جو اس وقت بڑی عجیب بلکہ حد درجہ اجنبی معلوم ہوتی تھیں لیکن حضرتِ شیخ سعدی بھی وہی بات کہہ گئے تھے جو پروفیسر لیوس اور پروفیسر کانگ لی نے سالہا سال کے تجربات کے بعد اب جا کر معلوم کی ہے!۔۔۔شیخ سعدی کی یہ حکائت ان کی مشہور و معروف تصنیف ’’گلستاں‘‘ کی پہلی حکایت بھی ہے جو اس طرح ہے: ایک بادشاہ کی کہانی بیان کی جاتی ہے کہ اس نے ایک قیدی کو اس کی کسی بات سے ناراض ہو کر قتل کر دینے کا حکم دیا۔ وہ قیدی کوئی غیر ملکی باشندہ تھا۔ اس نے حکم سنا تو بادشاہ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور اونچی اونچی آواز میں اس کی ماں بہن ایک کر دی۔

بادشاہ نے مصاحبین سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ ایک نے جواب دیا کہ حضور یہ وہی بات کہہ رہا ہے جو قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ ’’جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے رحمدلی کا سلوک کرتے ہیں‘‘۔۔۔ بادشاہ یہ سن کر بڑا متاثر ہوا اور قیدی کی سزائے موت معاف کر دی۔۔۔ بادشاہ کا ایک اور وزیر بھی پاس ہی بیٹھا تھا۔ وہ اٹھا اور کہا: ’’ہم لوگوں کو زیب نہیں دیتا کہ بادشاہ سلامت کو سچائی کے سوا کچھ اور کہیں۔

حضور! یہ قیدی تو آپ کو گالیاں دے رہا تھا اور ظلِ سبحانی کے خلاف بہت بکواس کر رہا تھا۔۔۔‘‘ بادشاہ نے اس کی بات سنی تو غصے سے لال پیلا ہو گیا اور کہا: ’’مجھے پہلے وزیر کا جھوٹ پسند آیا ہے تمہارے اس سچ سے کہ جو تم کہہ رہے ہو کیونکہ پہلے وزیر کا مقصد مصلحت کوشی تھا اور تمہارا مقصد اپنے دوست کو نیچا دکھانا اور میری نگاہوں میں اس کی عزت گرانا تھا۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ عقل مندوں کا قول ہے کہ: ’’دروغِ مصلحت آمیز بہ از راستیء فتنہ انگیز‘‘۔۔۔[مصلحت والا جھوٹ اس سچ سے کہیں بہتر ہے جس سے فتنہ پیدا ہوتا ہو]۔۔۔


اسی ’’گلستاں‘‘ میں شیخ سعدی آگے چل کر ایک اور حکایت بیان کرتے ہیں جو اس طرح ہے: ’’ایک فرشتہ صورت آدمی ایک بادشاہ کے سامنے لایا گیا۔ اس کے گیسو کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے

۔ اس نے آ کر حضورِ شاہ میں عرض کی کہ میں علوی (سید) ہوں،ابھی ابھی حج کرکے واپس آ رہا ہوں اور اس قافلہ ء حجاز میں شامل تھا جو کل مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے یہاں پہنچا ہے۔

اس مبارک سفر کے بعد میں نے آتے ہی پہلا کام یہ کیا ہے کہ حضور شاہ میں ایک قصیدہ عرض کروں۔ اس کے بعد اس نے قصیدہ پڑھا اور بادشاہ نے خوش ہو کر اسے انعام و اکرام سے نوازنے کے احکام جاری کر دیئے۔۔۔اتنے میں بادشاہ کے ندیموں میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہنے لگا: ’حضور میں بھی ابھی ابھی بصرہ سے آ رہا ہوں۔ اس شخص کو تو میں نے وہاں عیدالاضحی کے دوران دیکھا تھا۔ اس نے حج کب اور کیسے کر لیا؟

‘۔۔۔ اس کے بعد ایک اور درباری اٹھا اور کہا: ’حضور کا اقبال بلند! اس کا باپ تو عیسائی تھا جسے میں نے روم میں دیکھا تھا، یہ سید کب سے ہو گیا؟‘ اور پھر ایک تیسرا درباری اٹھا اور کورنش بجا لایا اور کہا: حضور والا:’یہ قصیدہ جو اس نے آپ کے سامنے پڑھا ہے یہ تو انوری کا قصیدہ ہے۔

انوری کا دیوان منگو اکر حضور خود مشاہدہ کر سکتے ہیں‘۔۔۔ بادشاہ یہ سن کر بہت ناراض ہوا اور کہا کہ اس مردود کو فوراً حوالہء زنداں کر دیا جائے۔

اس قدر جھوٹ بولنے والے کی سزا یہی ہے کہ عمر بھر جیل کی ہوا کھائے۔۔۔ اس اجنبی نے یہ سنا تو عرض کیا: ’’حضور: مجھے صرف ایک بات عرض کرنے کی اجازت دی جائے۔ اگر وہ بھی جھوٹ ہو تو جو سزا آپ مجھے دیں گے، میں خوشی سے قبول کروں گا‘‘۔ بادشاہ نے فرمایا: ’’اجازت ہے۔۔۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو!‘‘ اس نے ایک مشہور شاعر کے یہ دو شعر بادشاہ کے سامنے پڑھے:
غریبے گرت ماست پیش آورد
دوپیمانہ آبست ویک چمچہ دوغ
گر از بندہ لغوے شنیدی بہ بخش
جہاندیدہ بسیار گوید دروغ

اگر کوئی غریب آپ کے سامنے لسّی پیش کرے تو اس میں صرف ایک چمچہ دہی ہوگا اور باقی دو پیالے پانی ہوگا۔ اس لئے اگر اس غلام سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے تو بخشش کا طلبگار ہوں کہ دنیا میں جو شخص جتنا زیادہ جہاندیدہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ جھوٹ بولتا ہے‘‘۔۔۔ بادشاہ یہ سن کر ہنسا اور درباریوں سے کہا: ’’اس سے زیادہ سچی بات میں نے آج تک نہیں سنی۔۔۔ اس کو معاف کیا جاتا ہے۔ جو انعام و اکرام اسے دیا گیا تھا، وہ اسے دے کر بخوشی رخصت کیا جائے‘‘۔۔۔اس طرح کی کئی حکایات اور بھی گلستاں اور بوستاں میں درج ہیں جن کا حوالہ دوں تو یہ کالم مقالہ بن جائے گا۔ یہی حال مولانا روم کا بھی ہے۔

ان کی مثنوی میں بھی جگہ جگہ ایسی ہی حکیمانہ کہانیاں نظم کی ہوئی ہیں۔ یہ جو کسی نے مثنوی کے مضامین کے بارے میں یہ کہا ہے کہ : ’’ہست قرآں در زبانِ پہلوی‘‘ ۔۔۔ تو یہی جھوٹی سچی حکایات بیان کرکے اخلاقیات کے ان اسباق کا تذکرہ مقصود تھاجو مولانا روم کا اصل مدعا تھا۔ علاوہ ازیں تمام مشرقی زبانوں کی شاعری کو دیکھ لیجئے، سراسر جھوٹ اور دروغ گوئی ہے۔ غزل کے مضامین میں شعرا جن معاملاتِ حسن و عشق کو بیان کرتے چلے آئے ہیں، ان میں اگر کوئی صداقت ہے تو یہی ہے ناں کہ عاشق کی محبوبہ، بے وفا، ہرجائی، دھوکے باز، مکروفریب کا مجسمہ، دھوکہ دہی میں طاق، تکبر اور غرورِ حسن سے چُور ایک ایسی مخلوق ہے جس کو مشرق کے سارے شعرائے کرام من و عن ’’قبول‘‘ کرکے اس کی طرف ’’رجوع‘‘فرمانے کے لئے بے تاب اور بے قرار رہتے ہیں۔۔۔شان الحق حقی کے صرف ایک شعر پر اکتفا کرتا ہوں:
بے وفا ہے کہ نہیں، بدزباں ہے کہ نہیں؟
باوجود اس کے، وہ ظالم میری جاں ہے کہ نہیں
اور جہاں تک پیشہ ء سپاہ گری کا تعلق ہے تو اس میں تو بڑے بڑے فلسفی جرنیلوں نے جنگ کے جو سات آٹھ اصول مقرر کئے ہیں ان میں ایک بڑا اصول دھوکہ دہی اور ناگہانیت (Deception and Surprise) بھی ہے۔ کوئی سپاہی اپنے دشمن کو اس وقت تک دھوکا نہیں دے سکتاجب تک اس کو دھوکا دہی کی ٹریننگ نہ دی جائے۔

اب جس سپاہی کی ساری سروس فریب دینے کا درس سیکھنے یا دینے میں گزری ہو وہ کسی دوست کے سامنے سچ اور دشمن کے سامنے جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟ ہمیں سچ اور جھوٹ یا صادق و کاذب کی تعریف (Definition) بیان کرنے کے لئے آئینِ پاکستان میں ایک نئی شق شامل کرنی پڑے گی!۔۔۔

میرے نزدیک سچ اور جھوٹ دو استعارے ہیں۔ جھوٹ نہ ہو تو سچ کی پہچان ممکن نہیں۔اقبال نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ : ’’اُس کور ذوق دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں رحمان تو ہو، شیطان نہ ہو‘‘۔
مزی اندر جہانِ کور ذوقے
کہ یزداں دارد و شیطاں ندارد

ہمیشہ سچ بولنا پیغمبروں اور ولیوں کا شیوہ ہے اور اگر صرف راستگوئی کو ساری دنیا کے لئے ایک اٹل قانون بنا لیا جائے تو پھرساری خلقِ خدا پیغمبروں اور ولیوں سے بھر جائے گی۔۔۔ ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارے نابالغ بچے ہمارے سامنے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور ہم اس کو ایک ’’معصوم ادا‘‘ سمجھ کر ان سے اغماز برتتے ہیں۔

بس یہی عالمگیر سچائی ہے۔۔۔۔ جس جھوٹ سے خلق خدا کا نقصان نہ ہو اسے ’’معصوم ادا‘‘ سمجھ کر اس سے صرفِ نظر کر لینا عین دانش مندی ہے۔ جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں پھرجوان ہو جاتے ہیں اور پھر شادی شدہ ہو جاتے ہیں تو ان کو خود سمجھ آنے لگتی ہے کہ انہوں نے کس عمر میں اپنے بچوں کی ’’معصوم اداؤں‘‘ سے درگزر کرنا ہے اور کس وقت جوانی کی ’’سفاک اداؤں‘‘ کا حساب دینا ہے!

مزید :

رائے -کالم -