کبھی وہ نہیں ملتا جس کا انتظار ہوتا ہے، مرتا انسان جسے ملنا چاہتا ہو وہ نہ ملے تو اس کے احساسات اور بے بسی کا اندازہ شاید ہمارے تصور سے بھی باہر ہے

 کبھی وہ نہیں ملتا جس کا انتظار ہوتا ہے، مرتا انسان جسے ملنا چاہتا ہو وہ نہ ...
 کبھی وہ نہیں ملتا جس کا انتظار ہوتا ہے، مرتا انسان جسے ملنا چاہتا ہو وہ نہ ملے تو اس کے احساسات اور بے بسی کا اندازہ شاید ہمارے تصور سے بھی باہر ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:50
 تمھارے نانا کا ایک پرانا نوکر اللہ دتہ بتاتا تھا۔”شیخ صاحب مرتے دم تک پوچھتے ہی رہے افضال نہیں پہنچی ابھی تک۔ کسی نے اس کو اطلاع بھی دی یا نہیں۔ بہت یاد کرتے تھے اپنی بیٹی کو۔ بس جو اللہ کومنظور تھا۔“زندگی بھی کیا شے ہے۔ کبھی انسان کو وہ نہیں ملتا جس کا اسے انتظار ہوتا ہے اور کبھی جسے ملنا نہیں چاہتا وہ اس کی نظروں سے دور نہیں جاتا۔ مرتا انسان جسے ملنا چاہتا ہو اور وہ نہ ملے تو اس کے احساسات کا احاطہ اور بے بسی کا اندازہ شاید ہمارے تصور سے بھی باہر ہے۔
میرے والدین جنازے کے بعد پہنچے تھے۔ ہم بھی ساتھ تھے۔”صغیر روڈ(65ء کی جنگ کے شہید کپٹن صغیر کے نام پر تھی) نایاں والا چوک“ میں نانا کی بڑی حویلی ستارہ انڈسٹری والوں کے گھر اور فیکٹری سے ملحقہ تھی۔نانا کے دوسرے ہمسائے ایک حکیم صاحب تھے جن کا نام ذہن سے نکل گیا ہے۔میرے نانا عطا محمد ہائی سکول سے ملحقہ قبرستان میں دفن ہوئے۔ میں کئی سال ان کی قبر پر والدہ کے ہمراہ جاتارہا۔ امی جی تو لاہور آ کر بھی جب تک میرے بڑے بھائی خالد فاروق گوجرانوالہ میں چیف افسر ضلع کونسل تعینات رہے اپنے والد کی قبر پر باقائدگی سے جاتی رہیں۔جب میں ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ گوجرانوالہ پوسٹ ہوا تو اپنی بہترین کوشش کے باوجود ان کی قبر تلاش نہ کر سکا تھا۔ درست ہے کہ قیامت کے دن ایک ایک قبر سے بہتر بہتر مردے اٹھائے جائیں گے۔ بقول شاعر؛ 
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
مجھے نانا کا ہیولہ یاد ہے۔ ایک بار میں نے انہیں امی جی کے خالہ زاد بھائی جان ارشد کی شادی پر لائل پور میں دیکھا تھا۔ درمیانہ قد، بڑی بڑی مونچھیں، سفید رنگت، سر پر کلا دار پگڑی اور چیک کوٹ پہنے تھے۔مجھے اللہ پر بھروسہ ہے کہ میرے نانا کو اللہ نے اپنے جوار رحمت میں جگہ دی ہو گی۔ ان کی سخاوت اور دریا دلی کے قصے میری نانی اور خاندان کے دوسرے افراد جھوم جھوم کر سناتے تھے جن میں امی جی کے دو خالو کرنل ڈاکٹر غیاث الدین اور شیخ شریف پھولوریا(شیخ شریف بھی گوجرانوالہ رہتے تھے اور ان کا سٹیل کے برتنوں کا بڑا کاروبار تھا۔)بڑے معتبر تھے۔ کبھی بھی کوئی میرا نا نا کے در سے خالی نہ لوٹا تھا۔ ان کے جنازے پر آدھا گوجرانوالہ شہر اُمڈ آیا تھا۔کہتے ہیں جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت مرنے والے کی بخشش کی نشانی ہی ہوتی ہے۔ میرا تو اس بات پر پختہ یقین ہے۔
 نانا کی وفات کے ساتھ ہی میرے والد کی کندیاں کی نوکری بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔فرنچ کمپنی  پر اجیکٹ کی تکمیل میں اپنے وقت سے پیچھے تھی تو وہاں نہر کی کھدائی کے لئے اس دور کی سب سے بڑی مشین ”بکٹ ویل“ منگوائی گئی تھی جو برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مل کر تیار کی تھی۔ یہ اتنی بڑی اور اونچی تھی کہ ڈمپر ٹرک اس کے نیچے سے بآسانی گزر سکتے تھے۔ یہ کھدائی بھی کرتی تھی اور نہر کے کنارے بھی بناتی تھی۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے اس میں 2 بیس کلو واٹ اور ایک 50 کلوواٹ کے جنریٹرز لگے تھے۔ رات کو جب کام کرتی تو لگتا تھا جیسے ستاروں کی کہکشاں زمین پر اتری ہو۔پراجیکٹ اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ ہم سب اب نانا کے گھر گوجرانوالہ شفٹ ہو گئے تھے۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -