30,000 ہزار ایکڑ پر بننے والا شہر جو شروع نہ ہوسکا
اس سے پہلے کہ میں اپنے خواب یا Ambition کے بارے میں کچھ لکھوں تھوڑاسا میرا پس منظر جاننا ضروری ہے میں 6 سال بطور ایک CSP آفیسر، ملازمت کرتے ہوئے مناسب پوزیشن اور بہت تنخواہ اور مراعات کے ساتھ بینکنگ کے شعبے سے منسلک ہو گیا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں قواعد وضوابط سے ہٹ کر سوچنے کی آزادی ہوتی ہے۔ میں نے اپنے بینک کی ملازمت کے دوران 1974/75 میں ہاؤسنگ کا ایک منصوبہ بنایا جو میرے اس وقت کے بینک UBL کا portfolio Business بن گیا۔ اس منصوبے کا نام تھا کینال ویو کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور جو اس وقت قریبا 275 ایکڑ پرمشتمل تھی،بینک نے ابتدائی سرمایہ مہیا کیا۔ کینال ویو اس زمانے کے لحاظ سے دور افتادہ سمجھی گئی۔ نہر کے کنارے پر پنجاب یونیورٹی نیو کیمپس سے بھی 5/6 کلومیٹر دور واقع ہونے کی وجہ سے، نہر کے جس طرف اس سوسائٹی کے لئے اراضی خریدی گئی وہاں بڑی سڑک بھی نہ تھی۔ نہر کے اس پار جانے کے لئے کوئی پل بھی نہ بنا تھا، مجھ پرتنقیدبھی بہت ہوئی۔ میرے سینئر اور جونیئر ساتھیوں نے میری حوصلہ شکنی بھی کی لیکن بینک کے سربراہ آغا حسن عابدی نے نہ صرف ہمت: افزائی کی بلکہ اس وقت کے حساب سے دو کروڑ روپے کی خطیر رقم سوسائٹی کے لئے مختص کر دی۔ کنیال ویو کے ابتدائی ممبران بینک ملازمین تھے جنہیں میرے منصوبے پراعتماد تھا چند ہی ماہ میں سوسائٹی کے ممبران میں پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور اسٹاف، سرکاری اداروں کے بڑے افسر، صنعت کار، عمران خان کے والد اور ان کے تمام بچے، لاہور ہائی کورٹ کے ججز اور وکیل لاہور کی پڑھی لکھی مڈل کلاس اشرافیہ کینال و یوکی ممبر بن گئی۔ اس سوسائٹی کی وجہ سے بینک کو تعلقات عامہ اور بزنس Promotion کے وسیع مواقع ملے۔ دراصل لاہور میں یہ پہلا ہاؤسنگ منصوبہ تھا جس پر بینک کی نہ صرف چھاپ لگ گئی تھی بلکہ اس کی انتظامیہ بھی بینک کے سینئر افسروں کے پاس تھی۔ اس سوسائٹی کا میں پہلا اعزازی سیکرٹری بنا۔ سوسائٹی سے میں 1978 میں سبکدوش ہو گیا۔ سوسائٹی کی شہرت اس وقت اپنے عروج پر تھی چونکہ بینک قومیائے جا چکے تھے، بینکوں کا ماحول سرکاری قسم کا بن گیا۔ ضوابط، سفارش، کام چوری عام ہو چکی تھی۔ 1979 میں میں نے پاکستانی بینک چھوڑ دیا اور باہر کے بینکوں میں ملازمتیں کرتا رہا 1987 میں دوبئی کے بینک آف عمان (اب مشرق بینک کہلاتا ہے) میں اچھی تنخواہ، مراعات اور بڑے عہدے پر فائز ہو گیا۔ بینک کے مالکان دوبئی کے بڑے خاندان سے تھے العزیز فیملی کو کون نہیں جانتا، دبئی کے نصف سے زیادہ کاروبار اس خاندان کی ملکیت ہیں، جائیدادیں بنانے کا ان کا شوق نمبرون ہے۔ اس بینک میں شمولیت کئے ہوئے مجھے ابھی ایک ماہ بھی نہ ہوا تھا کہ انہیں پتہ چلا، میں نے لاہور میں کینال و یو بنائی ہے انہوں نے مجھے کہا کہ میں روائتی بینکنگ چھوڑ کر کینال ویو کی طرح لاہور میں UBL کے ماڈل کی طرح کی سرمایہ کاری سے سوسائٹیاں بناؤں، میں نے اس پر سوچ بچار کی اور ایک ہفتہ میں اپنے کنال ویو والے منصوبے میں رد و بدل کر کے ایک قابل عمل سکیم العزیز کو پیش کی۔ میری تجویز تھی کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے لئے لاہور میں دوبئی کی طرح کی رہائشی سوسائٹی بنائی جائے، بینک 100 فیصد سرمایہ کاری زرمبادلہ کی شکل میں کرے اور سوسائٹی کے تمام پلاٹ overseas Pakistanis کوفروخت کئے جائیں اور یہ فروخت نقد قیمت پر نہ ہو بلکہ Expat پاکستانیوں کو پلاٹ خریدنے کے لئے درہموں میں ادھار دیا جائے اور یوں مشرق بینک اپنی 70 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ادھار پر پلاٹ فروخت کرنے کے بعد منافع باہر ہی وصول کرلے۔ سفید پوش پاکستانی دنیا میں کہیں بھی ہوں، انہیں پلاٹ خریدنے کے لئے قرض درہموں میں ہی دیا گیا۔ اس طرح بینک کی آمدنی دو طریقوں سے ہوئی، قرض پر منافع کی شکل میں اور Exchange diference کی شکل میں۔ اس کا میاب منصوبے سے تمام فریقین کو فائدہ ہوا، فائدہ نمبر ایک پاکستان نے 7 کروڑ ڈالر زرمبادلہ کمایا، فائدہ نمبر 2، بیرون ملک پاکستانیوں کو مکان بنانے کے لئے نہایت آسان اقساط پر خوب صورت ویلنشیاء اور ازمیر سوسائٹیز میں رہائشی پلاٹ ملے۔ فائدہ نمبر 3، لاہور شہر میں بہتر پلاننگ کے ساتھ اور قابل | اعتاد کوآپریٹو سوسائٹیوں کا اضافہ ہوا، اور سب سے بڑا فائدہ بینک کو ہوا کہ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ان کا ایک اہم اور منافع بخش کاروبار بن گیا۔ میری تجویز کو بڑھاتے ہوئے مشرق بینک نے ہندوستان سری لنکا اور مصر کے Expats کے لئے ان کے ملکوں میں بہترین ہاؤسنگ پروجیکٹس بنائے، میں ہی ان میں سرمایہ کاری کا سربراہ بنا اور یوں مجھے انٹرنیشنل ڈویلپر کا اعزاز حاصل ہوا۔
اب میں آتا ہوں اپنے اس قابل عمل اور منافع بخش منصوبے کی طرف جو شروع ہوتے ہوتے رہ گیا کیونکہ بیرونی سرمایہ کار نے پاکستان کی سیاسی اور معاشی بے یقینی کی وجہ سے اپنا ہاتھ روک لیا، میں نے ایک نجی بینک اور ایک کویتی شیخ کو تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان میں چھوٹی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں تو بنتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ بحریہ ٹاؤن اور DHA بھی محدود مقاصد کے لئے ہیں۔ میرا ارادہ New economic City بنانے کا تھا۔ پاکستان میں اب تک مکمل طور پر ایک نیا شہر صرف اسلام آباد ہی بنا ہے جو پبلک سیکٹر میں پورے پاکستان کا دارالحکومت بنا۔ اس کارقبہ قریباً 3لاکھ ایکڑ ہے لیکن اس میں رہائشی رقبہ 35000 ایکٹر پرمشتمل ہے۔ منصوبہ 30,000 ایکڑ اراضی پر اسلام آبادجیسی خاصیتوں کی زمین پر ایک مکمل شہر بنانا تھا۔ اس اراضی کی لوکیشن جی۔
ٹی روڈ جہلم میں واقع ہے۔ زمین پتھریلی، چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور سرسبز خودرو جھاڑیوں اور درختوں کی حامل ہے۔ اس اراضی کو کویتی مشن کے اہل کاروں نے 3 سال قبل وزٹ بھی کیا تھا` اس زمین کی کویتی دیناروں میں فزیبلٹی بنائی گئی` چھوٹے بڑے سائز کے 70,000 پلاٹوں کے ساتھ، ایک انڈسٹریل زون، سولر بجلی، ایک سرکلر ریلوے، برساتی در یا جواس رقبے میں بہتا ہوا دریائے جہلم میں جا گرتا ہے، اس کے پانی سے تفریحی جھیل۔ ڈزنی ورلڈ کی طرح تھیم پارک مشہور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے Campus۔ برانڈ ڈسکول، کرکٹ اسٹیڈیم بنانا اور شہر کی مکمل میونسپل خدمات پرائیویٹ سیکٹر کی تحویل میں دینے کا منصوبہ تھا۔ بالکل امریکہ اور یورپ کی طرح کاونٹی یا Borough کی طرح اس کا انتظام ہونا تھا۔ اس پراجیکٹ کی پاور پوائنٹ پر Presentation حکومتی ادارے Punjab Board of Investment کودی گئی۔ جنوری فروری تک حالات بہت موافق تھے۔ پاکستان کے مشہور Consultants جو اربن ڈویلپمنٹ کے ماہر تھے، سولر بجلی کے ماہر تھے۔ انہیں Engage کر لیا گیا تھا۔ PBIT نے بھی اس پروجیکٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کاغذی, تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ میں خوش تھا کہ میری بقیہ مختصر زندگی میں میرا ایک ایسا خواب پورا ہو گا جس میں پاکستانیوں کی چھوٹے مکانوں میں رہائش باعث افتخار ہو گی۔ میں نے اس شہر کی پلاننگ میں 50,000 چھوٹے پلاٹ تجویز کئے تھے اور انہیں Valancia Homes کی طرح باعث وقار بنانا تھا۔ Agro farms، 2 اور ایک کنال کے پلاٹ بھی تجویز کئے گئے تھے۔ یہ شہر غریبوں کی بستی کے طور پر نہیں پہچانا جانا تھا، بلکہ یہ ہر طبقے کی آبادی ہوتی۔ اتنے بڑے شہر کی تعمیر سے Internal Employment کم از کم 2 لاکھ سے زیادہ تعمیری، انتظامی اور کمرشل شعبوں میں پیدا ہونی تھی۔ ابتدائی سرمایہ کاری 8ارب درہم ہونا تھی، شہرکو مکمل طور پر پرائیویٹ سرمائے سے مکمل ہونا تھا، حکومت سے صرف Logistics میں مدد درکار تھی لیکن پاکستان میں دن بدن بڑھتی ہوئی سیاسی بے یقینی سے کویتی سرمایہ کار تو بالکل ہی نا امید ہو گیا اور لوکل بینک نے بھی احتیاط کا دامن تھام لیا۔ اب اگر پاکستان میں ہاؤسنگ کے شعبے کو ترقی دینی ہے تو نئے شہر آبناؤ مناسب آبادی والے یعنی 5 لاکھ سے زیادہ آبادی نہ ہو۔ ملازمتیں خود بخو د نکلیں گی۔ سرمایہ کاری پر 4-3 سو فیصد و منافع 5-6سال میں یقینی ہو گا۔ شائد پاکستان میں بھی Stability آجائے تو میرا یہ خواب بھی پورا ہو جائے۔ میری زندگی کے بعد ہی سہی۔