کیا گداگروں کا تعلق صرف پنجاب سے ہے؟
ہمارے بچپن کے زمانے میں پاکستان میں گداگری نہ ہونے کے برابر تھی، البتہ ایک فقیر برادری ہوتی تھی، جن کا پیشہ مانگنا ہوتا تھا، وہ اپنے کاندھوں پر ایک بڑا سا تھیلا لٹکا کر دیہاتوں میں گھر گھر جا کر گدا کی صدا لگاتے تھے ان کے تھیلوں میں دو الگ الگ حصے ہوتے تھے ایک کے اندر آٹا اور دوسرے کے اندر دانے رکھتے تھے جب وہ کسی گھر کے در پر گدا کی صدا لگاتے تو اس گھر کے مکینوں میں سے کوئی بڑا چھوٹا مرد یا خاتون اندر سے کسی برتن میں دانے یا آٹا لا کر فقیر کے تھیلے میں ڈال دیتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ افراط زر میں اضافہ ہوتا گیا اور آٹے دانے اور دوسری چیزوں کی جگہ نقدی نے لے لی اس کے بعد فقیروں کی وہ برادری ناپید ہوتی گئی اور نئے نئے گداگر بھی نقد رقم پر آ گئے اور اس میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا کہ شاید اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا پیشہ گداگری بن چکا ہے گاؤں سے لے کر شہروں تک کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں مانگنے والے نہ ہوں، آپ کسی بھی جگہ گاڑی کھڑی کریں تو آپ کو گاڑی سے اُترنے نہیں دیا جاتا جب تک کہ آپ دو چار مانگنے والوں کو کچھ دے نہیں دیتے،پاکستان کا شاید ہی کوئی کونہ گداگری سے محفوظ ہوگا یہ خاکسار پچھلے دِنوں چترال اور کیلاش کے علاقے میں گیا، جہاں بہت ہی زیادہ غربت ہے، مگر وہاں مانگنے والے شاذونادر ہی کہیں نظر آتے ہیں، کسی کسی جگہ چھوٹے چھوٹے بچے سیاحوں کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں کہ ہمیں کچھ دے دو اس طرح تو کئی دوسرے ممالک کے سیاحتی مقامات پر بھی ہوتا ہے، پچھلے تین دن میں آزاد کشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں رہ کر آیا ہوں وہاں بھی مانگنے والے کوئی زیادہ نظر نہیں آئے، لیکن میرے اپنے شہر بھمبر اور میرپور آزاد کشمیر میں تو مانگنے والوں کی بھرمار ہے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پٹھان جوتے پالش سے لے کر ہر مزدوری کرتے ہیں، مگر گداگری نہیں کرتے ہیں یہ ناچیز 2011ء میں پشاور گیا تو وہاں کچھ مانگنے والوں کو دیکھ کر مجھے لگا کہ شاید یہ بات جھوٹ تھی کہ پٹھان گداگر نہیں ہوتے، لیکن جب وہ مانگنے والے ایک معذور شخص اور ایک دو خواتیں میرے قریب آ کر مانگنے لگیں تو پتا چلا کہ ان لوگوں کا تعلق سرگودھا پنجاب سے ہے۔ کشمیر کے اندر بھی آپ کو ایک بھی فرد مقامی نظر نہیں آئے گا، جو مانگنے والا ہو سب لوگ پنجاب سے آئے ہوئے ہیں، جنہیں خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے،اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا گداگر صرف پنجاب پیدا کرتا ہے؟ کیونکہ پورے ملک میں جہاں بھی کوئی مانگنے والا یا والی نظر آئے اس کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے پنجاب کا کوئی شہر، قصبہ یا گاؤں ایسا نہیں ہے،جہاں جگہ جگہ مانگنے والے نہ ہوں اور یہ صرف سوال نہیں کرتے،بلکہ گاڑی والے بندے کا اس وقت تک تعاقب کرتے ہیں جب تک وہ کچھ دے نہ دے، بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو دس بیس روپے قبول نہیں کرتے، بلکہ کم از کم سو کے نوٹ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ مجھے سندھ اور بلوچستان کا زیادہ اندازہ نہیں ہے، لیکن پنجاب، کشمیر اور خیبر پختون خوا میں مانگنے والوں کا تعلق صرف پنجاب سے ہے۔ کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آپ کو کوئی مقامی بندہ راستے میں مانگتا نظر نہیں آئے گا، دوسری طرف پنجاب ہی پاکستان کا سب سے متمول اور خوشحال صوبہ ہے اسی طرح جرائم کی شرح بھی پنجاب میں سب سے زیادہ ہے۔ کراچی کو الگ کر کے دیکھیں تو سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر میں اتنے جرائم نہیں ہوتے ہیں جتنے پنجاب کے اندر ہو جاتے ہیں، پنجابیوں کو یہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے انہوں نے کبھی مزاحمت نہیں کی جو بھی پنجاب پر قابض ہو جائے یہ اسی کی غلامی قبول کر لیتے ہیں۔ میرے لکھنے کا مقصد کوئی تعصب ہے نہ کسی علاقے کو دوسرے پر ترجیح دینا ہے۔ سارا پاکستان ہی ہمارا ہے، پنجاب ہمارا مسکن بھی ہے اور پنجاب اور کراچی سارے پاکستان کے لوگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں لوگوں کا روزگار پنجاب اور کراچی میں سب سے زیادہ ہے،لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ مانگنے والوں کی بڑی تعداد پنجابیوں ہی کی ہے اس پر تحقیق ہونا چاہئے کہ یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے لوگوں کو مانگنے پر مجبور کر رکھا ہے؟میں تو مانگنے والوں کو کہتا ہوں کہ اگر آپ واقعی مستحق ہیں تو اپنے قریبی لوگوں سے مدد کیوں نہیں لیتے جو آپ کو جانتے ہیں؟ حکومت کو کوئی ایسا نظام بنانا چاہئے، جس میں گداگری کی حوصلہ شکنی ہو اور ضرورت مندوں کی باعزت کفالت ہو سکے اور عوام کو بھی چاہئے کہ اگر آپ مدد کر سکتے ہیں تو اپنے اردگرد دیکھیں کون ضرورت مند ہے اس کی مدد کریں اس طرح نوسربازی میں کمی ہو سکتی ہے۔