انسان کی تاریخ

  انسان کی تاریخ
  انسان کی تاریخ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یروشلم میں ہبرو یونیورسٹی کے استاد یووال نوح حراری کی کتاب کو عہدسازکہا جا سکتا ہے۔وہ اس لئے بھی کہ پوری دنیاکے علمی افق پراس نے ایک دہائی سے تہلکہ مچا رکھاہے۔اپنی اشاعت کے تین برس بعدعبرانی میں شائع ہونے والی کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ بازارمیں پہنچا توپوری دنیا میں جنگل کی آگ کے محاورے کی طرح پھیل گیا۔سائنس اور تاریخ کے ساتھ کہانی نویسی کا ایسا خوبصورت امتزاج میں نے آج تک نہیں پڑھا جیسا”بنی نوع انسان کی مختصرتاریخ۔ سسپینز“میں مصنف نے پیش کیاہے۔اس کتاب کو پڑھنے اوراس پرتبصرہ تحریرکرنے کی وجہ یہ قطعاً نہیں ہے کہ اخباری خبرکے مطابق،عمران خان نے جیل میں جن چند کتابوں کامطالعہ کرنے کی فرمائش کی ہے ان میں یہ کتاب شامل ہے،جوکہ انہیں فراہم کر دی گئی ہے۔بل گیٹس کا یہ مشورہ بھی باعث تحریر نہیں کہ پانچ صد صفحات کا یہ دلچسپ مطالعہ آپ کوضرور کرنا چاہئے۔اس کتاب کے موضوع کے متعلق ہمارے ایک ادیب دوست نے ایک محفل میں مختصر گفتگو کی تو دلچسپی پیدا ہوئی۔وہ اس لئے کہ جس بنیادی سوال کایہ کتاب احاطہ کرتی ہے وہ میرے ذہن میں کئی سال تک مچلتا رہا۔

شام کے دارالحکومت دمشق سے کوئی ایک،ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر زبدانی نامی مقام ہے۔پہاڑیوں کے بیچوں بیچ سفر طے کر کے جب چوٹی پرپہنچتے ہیں توایک طرف اسرائیل کی پہاڑیاں نظر آتی ہیں اور دوسری طرف اردن کا پہاڑی سلسلہ،یہ سر سبز پہاڑ ہیں جن پر زیتون لہلہاتے ہیں۔زبدانی کی ایک پہاڑی چوٹی پر حضرت آدم کے فرزند ہابیل کی قبر ہے،جو کہ تاریخ انسان کے پہلے مقتول ہیں۔ اپنے حقیقی بھائی قابیل کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ہابیل کے مزار کی دیوار پر ایک شجرہئ نسب آویزاں ہے۔یہ شجرہ نسب حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی خاتم  ؐ تک ہے۔میں نے دیر تک اس شجرے کا مطالعہ کیا۔ایک سوال میرے ذہن میں پیدا ہوا جس نے پریشان کر دیا۔ سوال یہ تھا کہ سائنسی نقطہ  ئ نظرکے مطابق تو کائنات کی ابتداء پانچ ارب سال پہلے ”بگ بینگ“ نامی زوردار دھماکے کے نتیجے میں بیان کی جاتی ہے،جبکہ شجرہ جو بتاتاہے،اس کے مطابق تو انسانی تاریخ فقط ہزاروں سالوں پر مبنی ہے۔میں نے یہ سوال اپنے شہرکی روحانی شخصیت کے سامنے پیش کیا، اعجاز احمد کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطاء کی کہ انہوں نے نبی اکرمؐ  کی دعائیں جمع کیں اور اردو ترجمے کے ساتھ ایک ضخیم کتاب کی صورت میں شائع کروا دیں۔ وقت کی عدم ہم آہنگی کے میرے سوال کے جواب میں انہوں نے مجھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ فرمان سنایا کہ ”آدم سے پہلے بھی ستر آدم تھے“یہاں یہ وضاحت بھی برمحل ہو گی کہ عربی زبان میں ستر سے مراد اَن گنت یا بے شمار مراد لیا جاتا ہے،جیسے پنجابی زبان میں ”کوتر سو101“ کہتے ہیں۔ صوفی سکالر کی بات سن کرمیرا دِل مطمئن ہو گیا۔ خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب یووال نوع حراری کی کتاب نے بھی یہی بات کہی،گرچہ الفاظ تھوڑے بہت مختلف ہیں۔بنی نوع انسان جسے خرد مند آدمی بھی کہا جا سکتا ہے،اس سے ملتے جلتے انسانوں کی کئی اقسام تھیں مثال کے طور پر نینڈر تھل، جاوامین وغیرہ۔یہ تمام دیگر اقسام کے انسان بارہ ہزارپہلے معدوم ہو گئے اور ہم واحد بنی آدم زندہ بچے اورپھلے پھولے۔یہ آخری برفانی دور بھی کہلاتا ہے اور زرعی انقلاب کی ابتداء بھی اسی وقت ہوئی تھی۔

زرعی انقلاب نے انسانی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور مصنف نے اس کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر بحث کی ہے،دس ہزارسال پہلے شروع ہونے والا زرعی انقلاب دو ہزار سال پہلے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔گندم پہلے فقط مشرق وسطیٰ میں پائی جاتی تھی جبکہ مصنف کے مطابق اب پاکستان کے رقبے سے تین گنارقبے پرگندم کاشت ہو رہی ہے، دنیا بھر کے ہرکونے میں۔

زراعت کے فن میں آگ نے انسان کی بڑی مددکی ہے۔مٹی راکھ کی بدولت مزید زرخیز ہو جاتی ہے۔جنگل کی نسبت میدانوں میں شکار کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے۔یاد رہے کہ انسان روایتی طور پر ہمہ خور ہے۔تاریخی اعتبار سے شکار اور جنگلی جڑی بوٹیاں ہی اس کی خوراک ہوتی تھیں۔گندم بھی جنگلی پودا تھا۔جیسے ہی انسان اس سے متعارف ہوا تو خمار گندم سر چڑھ کر بولا۔اس نازک اندام پودے کو پتھریلی زمین ناپسند تھی اور دوسری بات یہ کہ اسے ہر غیرضروری جڑی بوٹیوں سے چڑ تھی۔اس بابت ایک روایت ہے کہ زراعت کی ابتداء گھریلو خواتین نے کی اور مرد شکار کھیلا کرتے تھے،مگر زرعی انقلاب نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

پانچ سو سال پہلے صنعتی انقلاب کو بھی مصنف تفصیل سے بیان کرتا ہے۔یووال نوح حریری تاریخ کو ڈرامائی انداز میں بیان کرنے کا ماہر ہے،کہیں وہ 30 کروڑ سال پہلے آسمان سے ایک شہابیے کو زمین پر گرنے کو تمام ڈینو سار کی موت کا سبب بیان کرتا ہے، کسی جگہ نیویارک کی تاریخ ان الفاظ میں بیان کرتاہے،کہ ہالینڈ سے آئے نوآبادیاتی قابضین نے ایک جزیرہ شہر بسانے کے لئے چنا اور اس کا نام نیو ایمسٹرڈیم رکھا۔مقامی ریڈ انڈین حملہ آور نہ ہو سکیں، اس خیال سے ایک عظیم دیوار تعمیر کی گئی۔جب سترھویں صدی میں برطانیہ نے اس شہر پر قبضہ کیا تو اس کا نام تبدیل کر کے نیویارک رکھ دیا۔شہر کی دیوار گرا دی گئی اور اس جگہ وال سٹریٹ تعمیرکر دی گئی،جو کہ آج کل عالمی کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی اور سرمایہ دارانہ نظام کا استعارہ ہے۔

مصنف بنیادی طورپرعسکری مورخ ہے۔جنگی مہمات پر اس نے کئی مضامین اور کتابچے لکھے ہیں،مگر عالمی شہرت اسے اسی کتاب سے ملی ہے۔درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوکرکروڑوں کی تعداد میں بکنے والی اس کتاب کی حقیقت جان کرمیں حیران رہ گیا۔یہ بنیادی طور پر یووال نوح حراری کے ان بیس لیکچرزکا مجموعہ ہے کہ جو وہ اپنی انڈرگریجوایٹ جماعت کو بطور نصاب پڑھاتے ہیں۔ اس حقیقت کے آشکار ہونے سے ایک بات تویہ سمجھ آتی ہے کہ ہمارے اہل قلم کو لکھتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان کا مخاطب انڈر گریجوایٹ طالب علم ہیں، اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی کتاب کی فروخت بھرپور ہو اور اسے عوامی پذیرائی حاصل ہو سکے۔دوسرا پہلو،یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے،اگر اسرائیل کی یونیورسٹیوں میں عمومی معیار تعلیم یہی ہے جواس کتاب میں جھلکتا ہے تو پھر یہ انتہائی بلند اور اعلیٰ معیار ِتعلیم ہے۔یووال نوح حریری جیسے اساتذہ اور بھی اگر وہاں ہیں تو ان کی یہ خوش قسمتی ہے۔ صرف یہ یاد دلاتا چلوں کہ عالم اسلام کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا نام پنجاب یونیورسٹی لاہور ہے،جس کا وائس چانسلر بعض اوقات دس سال تک میٹرک پاس شخص ہوتا آیا ہے۔اگرچہ اس کتاب پر ثقہ مبصرین کی رائے منفی اور منقسم ہے،مگر یہ بہت سارے نئے سوالات کھڑے کرتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بے شمارمشکل اور اہم سوالات کے جوابات فراہم کرتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -