جاپانی قوم اور عسکریت                     (4)

جاپانی قوم اور عسکریت                     (4)
جاپانی قوم اور عسکریت                     (4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

ہم دوسری عالمی جنگ میں جاپانی قوم کے ایک نامور فوجی کمانڈر، ایڈمرل یاماموتو کی داستانِ حیات پڑھ رہے ہیں۔ کالم کی تنگ دامانی اجازت نہیں دیتی کہ اس موضوع کو دو تین اقساط میں سمیٹ دیا جائے۔ لیکن بقولِ اقبال:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کالم کی قسط نمبر کو نہ دیکھیں بلکہ اس بات پر توجہ دیں کہ جاپان نے ایک عظیم قوم کا مقام صرف ایک صدی میں کیسے حاصل کیا اور پاکستانی قوم گزشتہ 77برسوں میں وہ مقام کیوں حاصل نہیں کر سکی۔ ہم جوہری اور میزائلی قوت ضرور بن گئے ہیں لیکن اس قوت کی اجارہ داری صرف چند لوگوں کے پاس ہے۔ باقی پاکستانی پبلک جوہری اور میزائلی قوت کے مقام و احترام سے اتنی ہی دور ہے جتنی او آئی سی (OIC)ناٹو اقوام سے دور ہے۔

جاپانی قوم دوسری عالمی جنگ میں ایک شکست خوردہ قوم تھی،جوہری بموں کی تباہی کی زخم خوردہ تھی اور اس کا قومی پندار بُری طرح مجروح ہو چکا تھا لیکن اس نے اپنی راکھ سے سمندر (Phoenix) کی طرح ایک جہانِ تازہ پیدا کیا اور آج عسکری، سیاسی، معاشی اور تکنیکی اعتبارات سے ایک ممتاز مقام پر فائز کھڑی ہے:

اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود

مرکے پھر ہوتا ہے پیدا، یہ جہانِ پیر، دیکھ

ناگاساکی پر امریکی جوہری حملے کی ایک ناظر خاتون جو 9اگست 1945ء کو گھر سے باہر تھی اور ازراہِ اتفاق زندہ بچ گئی تھی اس نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں جو 12اگست 2024ء کے ”دی نیویارک ٹائمز“ کے بین الاقوامی ایڈیشن میں شائع ہوا، اپنی داستان سناتے ہوئے کہتی ہے:

”ہم چند لوگ جواس جوہری حملے میں زندہ بچ گئے تھے، وہ اپنی داستان سنانے کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ بطورِ قوم ہمارا وعدہ ہے کہ ہم امریکیوں کی طرح جوہری قوت کو گلے نہیں لگائیں گے اور مرتے دم تک ایسا کریں گے۔ اس داستانِ بربادی کا تصور بہت محال ہے۔ جو لوگ اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے وہ اپنے مر جانے کی دعا مانگتے ہیں اور اپنے آباؤ اجدادسے دارالبقاء میں ملاقات کرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ اس حملے میں بچ جانے والوں سے میں نے اکثر سنا ہے کہ وہ اب کہتے ہیں:ہم یہاں اس دنیائے فانی میں رہ کر کیا کریں گے۔ اس دنیا میں تو آج بھی ہزاروں جوہری بم موجود ہیں۔ میں آسمان میں جا کر اپنی بیٹی سے ملوں گی جو 19اگست کے حملے میں گھر میں تھی اور ماری گئی اور میں باہر ہونے کی وجہ سے اس کو بچانہ سکی۔ مجھ سے وہ بیٹی پوچھے گی: ’ماما! آپ نے جوہری ہتھیاروں کو کرۂ ارض سے ختم کرنے کے بارے میں کیا کیا؟ تو میں اس کو کیا جواب دوں گی؟ اور میرے پاس اس کے سوال کا جواب ہوگا بھی کیا؟‘…… کاش مجھے جلد اپنی بیٹی سے ملنے کا موقع مل جائے“۔

شاید یہی وجہ ہوگی کہ جاپانی قوم نے دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سے پہلوؤں میں ترقی کی ہے۔ وہ اگر چاہتی تو جوہری بم بنا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا…… تاہم یاماموتو کی اولاد سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کے انتقامی جذبات کیا ہیں۔ جاپان آج امریکہ کا اتحادی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ امریکہ (اور دوسرے اتحادیوں) کا جانی دشمن تھا۔

ہم پڑھ رہے تھے کہ یاماموتو کی شادی 1918ء میں ہو گئی تھی کہ جب اس کی عمر 34برس تھی۔اس خدوخال میں رنگ بھرنے کا موقع اب آ گیا تھا۔

جاپانی بحریہ کے نوجوان افسروں میں یاماموتو کی قائدانہ صفات نے گویا ایک نئی روح پھونک دی۔

اس میں قطعاً کوئی شک نہیں تھا کہ بیسویں صدی کے آغاز سے جاپانی بحریہ نے ساری دنیا سے اپنے پیشہ ورانہ علم و ہنر کا لوہا منوایا تھا تاہم افسروں کی برادری میں یہ کہاوت مشہور تھی کہ بحریہ کا آفیسر ”جنٹل مین“پہلے ہوتا ہے اور آفیسر بعد میں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ جاپانی بحریہ کی آفیسر کلاس کریمانہ اخلاق کی پیروکار تھی جبکہ یاماموتو نے یہ مہم شروع کی کہ ”جنٹل مین“ سے مراد صرف شریفانہ اور کریمانہ کردار کا حامل انسان ہی نہیں بلکہ اس سے مراد ایک ایسا افسر ہے جس پر جسورانہ اور غیورانہ اخلاق کا بھی غلبہ ہو۔ جاپانی بحریہ کے افسروں کے لئے یہ ایک نیا سبق تھا۔ ایک ولولہء تازہ تھا جویاماموتو نے نوجوان نیول افسروں کے نوجوان سینوں میں پھونک دیا:

آگ اس  کی پھونک دیتی ہے برناو پیر کو

لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں 

1926ء میں یاماموتو کو امریکہ میں جاپان کا بحری اتاشی پوسٹ کیا گیا۔ دو سال بعد 1928ء میں وہ واپس آیا اور ایک طیارہ بردار آگاکی (Agaki) میں پوسٹ کیا گیا۔ 1929ء میں اسے ریئر ایڈمرل کے رینک میں ترقی دے دی گئی۔

جاپانی حکومت سے اس کا پُرزور مطالبہ تھا کہ تیز رفتار طیارہ بردار اور تیز تر لڑاکا طیارے پروڈیوس کئے جائیں۔ کہتے ہیں یاماموتو کے اسی مطالبے کی وجہ سے مٹسوبی شی طیارہ ساز کمپنی نے وہ مشہور و معروف جنگی طیارہ پروڈیوس کیا جس کو زیرو (Zero) کا نام دیا گیا۔ اس طیارے کی دُم پر ڈبل زیرو (00) کا نشان بنا ہوتا تھا اور یہ نشان جاپان کے کیلنڈر سال کے آخری دو ہندسوں کو ظاہر کرتا تھا۔ اس طیارے کا پہلا ماڈل 2600ج میں فیکٹری سے باہر آیا۔ یہ عیسوی سال 1940ء کی بات ہے (یعنی جاپانی سال،عیسوی سال سے 660سال آگے ہے)۔

1933ء میں یاماموتو نے کیریئر ڈویژن نمبر1کی کمانڈ سنبھالی(ایک ڈویژن میں تین سے لے کر چار طیارہ بردار ہوتے ہیں) کمانڈ سنبھالتے ہی یاماموتو نے ٹریننگ پر زور دینا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی جب شرح حادثات میں اضافہ ہوا تو شور مچ گیا۔یاماموتو نے اس واویلا پر جو ردعمل ظاہر کیا وہ یہ تھا: ”جاپان کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ ہمیں سخت ٹریننگ کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔میرے نزدیک اس ٹریننگ میں جان ہارنے والے قوم کے ہیرو ہیں۔ ان کی موت شہید کی موت ہے“۔ یاماموتو نے ٹریننگ کے دوران مارنے جانے والے پائلٹوں کے ناموں کی ایک فہرست جاری کر دی جو ملک کے بڑے بڑے شہروں کے چوراہوں میں نمایاں مقامات پر آویزاں کر دی گئی۔ جاپانی جب بھی اس فہرست کے سامنے سے گزرتے، جھک کر اپنے شہیدوں کے لئے تسلیمات بجا لاتے۔

1935ء میں یاماموتو کو وائس ایڈمرل کے رینک میں ترقی دی گئی اور بحریہ کا وائس منسٹر (وزیرمملکت) بھی بنا دیا گیا۔ اس حیثیت  میں اسے جاپانی بحریہ کی ”ایئرپاور“ کو فروغ دینے کا بے مثال موقع ہاتھ آگیا۔

1930ء کے عشرے کا نصف آخر شروع ہو چکا تھا۔ یورپ کی فضاء پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے اور جاپانی بحریہ میں یہ بحث جاری تھی کہ آیا بیٹل شپ پروڈیوس کرنے پر زیادہ توجہ دی جائے یا طیارہ بردار جہازوں پر انحصار کیا جائے۔ جاپانی بحریہ کے سینئر افسرو ں کی اکثریت ہنوز بیٹل شپ کے سحر میں گرفتار تھی۔ بیٹل شپ ایک ایسے بحری جنگی جہاز کو کہا جاتا ہے جس میں بھاری توپوں اور طیارہ شکن توپوں دونوں کی کثیر فائر پاور موجود ہوتی ہے جبکہ طیارہ بردار بحری جہاز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک ایسا جنگی پلیٹ فارم ہے جو سینہء  بحر پر رواں دواں رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا فضائی مستقر ہے جہاں سے بمبار، لڑاکا، ٹرانسپورٹ اور جاسوسی طیارے اڑائے جا سکتے ہیں۔ یاماموتو اسی قسم کے اور اسی معیارکے طیارہ بردار کا حامی تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ صرف ان طیارہ برداروں کی مدد سے ہی دشمن کے علاقے میں دور تک فائر پاور پہنچائی جا سکتی ہے۔ جب جاپان کے دوسرے ایڈمرل یہ دلیل لاتے تھے کہ صرف کوئی بیٹل شپ ہی دشمن کے بیٹل شپ کو غرقاب کر سکتا ہے تو ایڈمرل یاماموتو کہا کرتا تھا کہ تار پیڈو بردار ہوائی جہاز بھی کسی طیارہ بردار سے اڑ کر بیٹل شپ کو غرقاب کر سکتے ہیں اور جب بحریہ کے سینئر آفیسرز اس عقیدے کا پرچار کیا کرتے کہ کسی بیٹل شپ کے سامنے ہوائی جہاز کی مثال ویسی ہی ہے کہ جیسے کسی دیو کے سامنے کوئی فاختہ اڑ رہی ہو ہر چند کہ اس کے منہ میں کوئی ”بارودی کنکر“ پکڑا ہوا ہو تو یاماموتو اس کا جواب یہ دیتا تھا کہ بڑے سے بڑے زہریلے اژدھے کو بھی چیونٹیوں کا غول بے بس اور لاچار کر دیتا ہے۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -