ا بو سمبل کے مجسموں اور مندروں کو 300 کلومیٹر دور لے جا کر نئی جگہ پر نصب کرنا تھا، یہ کام مالیاتی اور تکنیکی وجوہات کی بناء پر مصریوں کیلئے ناممکن تھا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:93
منصوبے کے مطابق ابو سمبل کے ان مجسموں اور مندروں کو یہاں سے اٹھا کرکوئی 300 کلومیٹر دور لے جا کر نئی جگہ پر نصب کرنا تھا۔ یہ کام مالیاتی اور تکنیکی وجوہات کی بناء پر مصریوں کے لئے ناممکن تھا۔ اس لئے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے یہ بیڑہ اٹھایا اور اس سلسلے میں اس نے دنیا بھر کے ملکوں سے مالی تعاون اور منصوبے میں شمولیت کے لئے اپیل کی، تاکہ ضرورت کے مطابق سرمایہ مہیا کیا جاسکے۔ اس ادارے کی مسلسل کوششوں اور اپیلوں سے مطلوبہ سرمائے کے حصول کو تقریباً ممکن بنالیا گیا۔
اس دوران اس منصوبے پر کاغذی کارروائیاں اور سوچ بچار کا کام بھی جاری رہا۔انجینئروں اور ماہرین آثار قدیمہ نے یہ فیصلہ کیا کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں ٹن وزنی ان مجسموں، مندروں اور ستونوں کو جھیل بھرنے سے پہلے پہلے محفوظ مقامات پر پہنچا دیا جائے۔ اس دوران دنیا بھر سے مالیاتی امداد کے وعدے بھی ہوتے رہے۔ پھر 1964ء میں اس کام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔اس عظیم الشان منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے 4 کروڑ ڈالر کی ضرورت تھی،جو اس زمانے میں بلا شبہ ایک بہت بڑی رقم تصور ہوتی تھی۔تاہم یونیسکو کی مسلسل کوششوں سے یہ رقم بالآخر جمع ہوگئی۔
بڑی تعداد میں دنیا بھر سے انجینئراور ماہرین آثار قدیمہ اس مقام پر پہنچ گئے۔ فیصلہ ہوا کہ ان دیوہیکل مجسموں کو اوسطاًتیس تیس ٹن کے کئی ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا اور پھر ان کو ٹرکوں اور ٹریلروں پر رکھ کر زمینی راستے سے ابوسمبل لے جایا جائے گا جہاں ساتھ ساتھ ہی اس کی دوبارہ تنصیب کا کام بھی شروع ہو جائے گا۔
یہ ایک بہت ہی بڑا، طویل اور تھکا دینے والا منصوبہ تھا۔ جس پر دن رات کام ہونا تھا۔ اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے 2 مختلف جگہوں پر بیک وقت کام شروع ہوا۔ ایک تو وہ جہاں سے اُن کو بڑے ٹکڑوں کی شکل میں کاٹ کر ان کے نئے مقام تنصیب پر بھیجا جانا تھا اور دوسری طرف وہ جگہ جہاں انہیں دوبارہ نصب کرنا تھا۔ وہاں دو مصنوعی پہاڑیاں 2 بہت بڑے اور مضبوط کنکریٹ کے گنبدوں پر بنائی گئی تھیں۔ ایک طرف تو بڑے بڑے برقی آروں اور ڈرل مشینوں کی مدد سے مجسموں کے ٹکڑے کاٹے جا رہے تھے، تو دوسری طرف ان کی دوبارہ تنصیب کی تیاریاں بھی عروج پر تھیں۔
یہ دونوں مندر بہت ہی عظیم اور دیو ہیکل تھے۔ بادشاہ رعمیسس ثانی کے مندر کی بلندی کوئی100 فٹ اور چوڑائی 115فٹ تھی، جبکہ اس میں تراشے ہوئے باد شاہ کے چاروں مجسموں کی اونچائی 70 فٹ کے لگ بھگ تھی، حالانکہ وہ بیٹھی ہوئی حالت میں تھے۔
دوسری طرف ملکہ نفر تاری کا مندر 40 فٹ اونچا اور 92 فٹ چوڑا تھا، جبکہ اس میں کھڑے ہوئے بادشاہ رعمیسس ثانی اور ملکہ نفر تاری کے 6 مجسموں کی اونچائی 30 فٹ کے قریب تھی اور یہ سب کھڑے ہوئے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ابتدائی طور پر ان مندروں اور مجسموں کی تیاری میں فرعونوں کو کوئی20 سال کا عرصہ تو یقیناًلگا ہو گااور اس وقت ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں اور کاریگروں نے اس کی تیاری میں حصہ لیا ہو گا۔
ہوتا کچھ یوں تھا کہ پہلے سے طے کئے گئے ایک منصوبے اور ترتیب کے مطابق مجسموں اور مندر کے ستونوں یا چھتوں وغیرہ پر نمبر لگا دیئے جاتے اور پھر کاریگر پتھر کاٹنے والے نفیس قسم کے آروں کی مدد سے وہ ٹکڑے علیٰحدہ کر لیتے جو فوراً ہی کرین سے اٹھا کر نیچے منتظر ٹرکوں پر کھ دیئے جاتے جو ان کو احتیاط سے لے کر 300 کلو میٹر دور ان کی نئی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے۔ ابو سمبل پہنچتے ہی ان کو اتار کر نمبروں کے مطابق ایک ترتیب سے رکھ لیا جاتا اور پھر ضرورت کے مطابق بڑے نٹ بولٹ اور کنکریٹ وغیرہ کی مدد سے انہیں ان کے مجوزہ مقام پر نصب کر دیا جاتا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں