سگریٹ کی پانچویں برسی اور آدھی ڈبی کاالمیہ

پانچ برس قبل 16دسمبر کوملتان ٹی ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران میں سٹیج پر بیٹھا تھا۔اِس تقریب کا اہتمام نامور معالج ڈاکٹر سعید احمد نے کیاتھا۔شہر کی نامور شخصیات ٹی ہاؤس میں موجودتھیں۔ تقریب کے دوران میں دوتین مرتبہ اُٹھ کر ہال سے باہر گیا اور سگریٹ پی کر واپس آگیا۔ شاکرحسین شاکر جوہمیشہ سے میری سگریٹ نوشی کو ناپسند کرتے تھے اُس تقریب میں موجودتھے اورشاید نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔تیسری مرتبہ جب میں ہال میں واپس آیا تو شاکر نے مجھ پر سگریٹ نوشی کے حوالے سے کوئی جملہ کسا۔شاکر کی عادت تھی کہ وہ مجھے سگریٹ کے حوالے سے عموماً ٹوکتے رہتے تھے اور میں بھی اُن کے طنزیہ جملوں کا پلٹ کر جواب دیاکرتاتھا۔اُنہیں کہتاتھا کہ تم جیسے لوگ اِس نعمت سے محروم ہو اوراِسی لیے کڑھتے ہو لیکن اُس روز میں خاموش رہااورمسکراتا ہوا اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ کسی اور کو تونہیں لیکن اُس روز صرف مجھے معلوم تھا کہ آج میری سگریٹ نوشی کاآخری دن ہے اور میں نے جو ایک ڈبیا خرید رکھی تھی اُسے صبح تک ختم کرنا چاہتاتھا۔
سگریٹ چھوڑنے کا خیال مجھے کیوں آیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔شاید میں نے سگریٹ چھوڑنے کافیصلہ اُس روز کرلیاتھا جب نومبر2015ء میں نوازش علی ندیم کابائی پاس آپریشن ہوا تھایا شاید اُس روز جب میں نے اپنے دوست مسعودکاظمی کو سگریٹ ترک کرنے کے باوجود اذیت ناک حالت میں دیکھا تھا۔اُن کاچلنا پھرنا دوبھرہوچکا تھااورمسلسل تکلیف میں رہتے تھے یا پھراِس سے بھی پہلے جب میں نے2010ء میں نامور شاعر نجم الاصغر شاہیا کو اُن کے آخری دِنوں میں بہت قریب سے دیکھا۔ وہ سگریٹ چھوڑ چکے تھے لیکن اُن کادِل اُن کاساتھ نہیں دیتاتھا۔یہ تمام واقعات کہیں میرے لاشعور میں موجودتھے اور مجھے بتاتے تھے کہ سگریٹ نوشی کس طرح موت سے ہمکنارکرتی ہے۔موت بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن موت سے پہلے موت جیسی زندگی کم ازکم مجھے قبول نہیں تھی۔
کالم کے آغاز میں ٹی ہاؤس میں ہونے والی جس تقریب کا میں نے ذکر کیا اُس کے اگلے روز میری آنکھ کاآپریشن تھا۔ امراضِ چشم کے نامور معالج ڈاکٹر نوید صادق سے آپریشن کروانے کے بعد میں گھرواپس آیا۔آنکھ سے پٹی ایک آدھ روز میں اُتاردی گئی لیکن میں نے اپنی آنکھوں کو دھوئیں سے بچانے کے لیے کچھ دن کے لیے سگریٹ نوشی ترک کردی اور پھرصرف تین روز میں سگریٹ میرے ماضی کاحصہ بن چکا تھا۔اِس واقعہ کو پانچ برس بیت گئے ہیں۔پہلے دو تین مہینے تو سب یہی سمجھتے رہے کہ میں چوری چھپے سگریٹ پیتا ہوں لیکن رفتہ رفتہ سب کو یقین آگیا۔سگریٹ کے ساتھ میراتعلق اتنا پرانا تھا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے جیسا سگریٹ پینے والا جو سگریٹ بجھنے بھی نہیں دیتا تھا وہ اِس طرح سگریٹ ترک کر دے گا اور پھر میں نے یہ جملہ کہا تھا کہ جو سگریٹ چھوڑ سکتا ہے وہ کسی کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔ سگریٹ کے ساتھ جڑے ہوئے بے شمار واقعات اور کہانیاں ایک الگ کتاب کی متقاضی ہیں لیکن سگریٹ کی پانچویں برسی پر مجھے یہ کہانیاں نہیں سنانی۔ مجھے سگریٹ سے وابستہ اوربہت سی یادوں کو قلم بند کرنا ہے۔
یہ 1978ء کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور میں نے پہلی مرتبہ سگریٹ پیا تھا۔یہ سگریٹ اُس زمانے میں 10پیسے میں آتاتھا پھر مجھے کسی کلاس فیلو نے ٹھنڈے دھوئیں والا سگریٹ پلادیا لیکن یہ وارداتیں کبھی کبھار اور اِکا دُکا تھیں۔کالج کے زمانے میں بھی گاہے گاہے سگریٹ پیتا رہا۔ پھر1983ء میں صحافت سے وابستگی کے بعد روزانہ تین چار سگریٹ سے میں نے سگریٹ نوشی کا باقاعدہ آغاز کردیا۔کبھی علی اعجازنظامی کے ساتھ اورکبھی اپنے اُستاد اور نیوزایڈیٹر افضل چوہدری کے ساتھ سگریٹ پی لیتاتھا لیکن اب بھی میں سگریٹ کاعادی نہیں ہواتھا۔ 1985ء میں لاہور جانے کے بعد میں نے باقاعدگی کے ساتھ ایک اور سگریٹ پینا شروع کیا جودیگر سگریٹوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی ہوتی تھی۔ایک سگریٹ سلگانے کے بعد ہم بھول جاتے تھے کہ سگریٹ کو کبھی ختم بھی ہونا ہے۔ یہ دراصل منو بھائی کی پہچان تھی اور منو بھائی کا جہاں ذکر ہوتا اُن کی پسندیدہ سگریٹ کا حوالہ بھی ضرور آتاتھا۔ شاید میں نے اِس کا انتخاب منو بھائی کی محبت میں ہی کیاتھا لیکن منوبھائی کے علاوہ اِس سگریٹ کے ایک شیدائی پروفیسر خالد سعید بھی تو تھے۔ اِس کی ڈبیا کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو یہ بڑی ہوتی تھی اور دوسرا ”کرش پروف“نہیں تھی اِس لیے یہ سگریٹ جیب میں ٹوٹ جاتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد اِس کاکرش پروف پیکٹ بھی متعارف کرادیا گیالیکن وہ سائز میں بگ ون سے چھوٹاتھا۔
لاہور میں طفیل ابن گل اور اطہر ناسک مختلف برانڈز پیتے تھے تاہم جب کبھی میرے حالات اچھے نہ ہوتے تومیں اُن کے سگریٹ پر گزارا کرتاتھا۔اِسی دوران میں نے ایک اور برانڈ اپنا لیا۔یہ اپنے زمانے کابہت مقبول سگریٹ تھااور مجھے ایک اور سگریٹ یاد آ رہا ہے جو عاشق علی فرخ پیتے تھے اور جب مجھے لیڈ بنانا ہوتی تھی تووہ اپنی پوری ڈبیا میرے سامنے رکھ دیتے تھے۔ میں نے بہت وقت اِس برانڈ کے ساتھ گزارا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ایک اور ذرا سا قیمتی برانڈ پینا شروع کر دیا، گویا اپنا معیار کچھ بہتر کرلیا۔ مالی حالات کچھ بہتر ہوئے تو ہم مشہور زمانہ برا نڈکی طرف آ گئے۔ اِس برانڈ کاالمیہ یہ تھا کہ یہ سگریٹ اوروں کو زیادہ پلانا پڑتی تھی۔ آپ کے ہاتھ میں اگر اِس کی ڈبیا ہے تو سگریٹ نہ پینے والے بھی سگریٹ کا تقاضا کرنے سے نہیں چوکتے۔یہ چونکہ مہنگا سگریٹ تھا اِس لیے ”مفت نوشوں“سے بچنا پڑتا تھاجس کے بہت سے طریقے تھے۔ پہلا تو یہی کہ جیب میں دو تین سگریٹ ہی رکھے جائیں اور دوسرا یہ کہ اِس کی ڈبیا میں ذرا سستے برانڈ کے سگریٹ بھی ڈال لیے جائیں اور جب کوئی سگریٹ کا تقاضا کرتا تو ہم مسکرا کر اُسے سستا سگریٹ نکال کر دیتے۔وہ قیمتی برانڈ کی طرف اشارہ کرتا تو ہم ہنس کر اُسے کہتے،بھائی یہ آدھی ڈبی کا المیہ ہے۔
”آدھی ڈبی کا المیہ یہی تھا کہ جب ہم سگریٹ لیتے تھے تو دکاندار ہمارے برانڈ کی سگریٹ کسی اور برانڈ کی ڈبیا میں ڈال دیتاتھا لیکن یہ تب کی باتیں ہیں جب ہم اورسگریٹ ایک ہی پیج پرتھے۔اب تو بس سگریٹ ہمارے لیے صرف ایک خوبصورت یاد بن کررہ گئی ہے۔