نانا کی حویلی اس قدر بڑی تھی کہ رات کو ڈر لگتا تھا،2 منزلہ حویلی کے صحن کے گرد 20 کمرے تو ہونگے،سیڑھیاں چڑھتےمحسوس ہوتا کوئی پیچھے آ رہا ہے

 نانا کی حویلی اس قدر بڑی تھی کہ رات کو ڈر لگتا تھا،2 منزلہ حویلی کے صحن کے گرد ...
 نانا کی حویلی اس قدر بڑی تھی کہ رات کو ڈر لگتا تھا،2 منزلہ حویلی کے صحن کے گرد 20 کمرے تو ہونگے،سیڑھیاں چڑھتےمحسوس ہوتا کوئی پیچھے آ رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:51
 نانا کی حویلی اس قدر بڑی تھی کہ رات کو ڈر لگتا تھا۔جب یہاں آئے تو کئی روز تک اس ڈر کی وجہ سے نیند بھی شاید ڈر گئی تھی۔2 منزلہ حویلی تھی جس کے بڑے سے صحن کے گرد 20 کمرے تو ہوں گے۔ رات کو سڑھیوں سے اوپری منزل کو جانا ہوتا تو کئی بار محسوس ہوا کہ کوئی پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔دراصل وہ وہم ہی ہوتا تھا اور نیچے اترتے تو آخری چھ سات سیڑھیوں سے دوڑ کر ہی اترتا کہ کہیں یہ وہم ہی پکڑ نہ لے۔اس  زمانے میں فلش سیسٹم کا رواج نہ تھا۔ طہارت خانے گھروں کی چھتوں پر ہوتے تھے۔صبح سویرے باری باری رفع حاجت کے لئے جاتے اور پھر 10 بجے کے قریب خاکروب آ تا، پاخانہ اکٹھا کرتا، بیل گاڑی میں ڈالتا اور کہیں دور اسے ہانکتے تلف کر نے کے لئے لے جاتا تھا۔ اس بیل گاڑی کے ساتھ کم از کم 3 خاکروب تو ضرور ہوتے تھے۔ محلے کے سبھی گھروں میں ایسا ہی بندوبست تھا۔ نکاسیٔ آب کے لئے نالیوں کو خاکروب صبح شام صاف کرتے اور گار نکال کر باہر پھینک دیتے جو بیل گاڑی والا اٹھا لے جاتا تھا۔نالیوں پر ڈی ٹی پاؤڈر چھڑکا بھی کیا جاتا۔وہ فرض شناسی کا زمانہ تھا اور ہر سطح کا اہل کار آج کی نسبت کہیں زیادہ احساس ذمہ داری میں ڈوبا اپنا فرض نبھاتا تھا۔
  اس حولی کا وہ دروازہ جو عطا محمد سکول والی سڑک پر کھلتا تھا وہاں 2 دوکانیں بھی تھیں جو کرائے پر دے رکھی تھیں۔ان دوکانوں سے ملحقہ مسجد تھی جو نانا نے ہی تعمیر کروائی تھی اور جس کے امام مولوی لال صاحب بہت دین دار انسان تھے۔ میں ان سے قرآن پڑھتا تھا اور جمعہ کے دن مسجد میں جھاڑو بھی لگاتا اور صفیں بھی بچھاتا تھا۔ مولوی صاحب بہت علم والے اور سیانے تھے۔ان کی دینی تعلیمات نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔ انہوں نے مجھ میں رحم دلی، خدا ترسی، ضرورت مند کے کام آنا اور غریب پروری کے ایسے جال میں جکڑا کہ عمر بھر میں اس سے نکل نہ سکا۔  
  پانی ٹھنڈا کر نے کے لئے اس دور میں برف استعمال کی جاتی تھی اور اکثر کھلے منہ کی دیگچی میں پانی ٹھنڈا کیا جاتا گو میرے  نانا کے گھر میں فریج موجود تھی۔ ہم بچوں کے لئے شروع کے چند دن یہ عجوبہ ہی تھا۔یہ عجوبہ اس زمانے میں گنتی کے گھروں میں ہی تھا۔ میرے نانا کے گھر کا فریج ”69 ماڈل اسرائیل کا بنا تھا۔“ پچپن سال ہوئے یہ بنا رکے سروس دے رہا ہے۔ اس فریج جیسی کولنگ میں نے آج تک کسی اور فریج میں نہیں دیکھی۔یہ فریج آج بھی میرے چھوٹے بھائی کے گھر برف جما رہا ہے۔
اس دور کی کھوئے والی قلفی کا ذائقہ بھی زبان و دماغ سے نہیں اترا۔ ایک آنے دو آ نے اور چار آنے کی قلفی واقع ہی کھوئے سے بنی ہو تی تھی۔ برف کے گولوں کا رواج بھی تھا اور پھر انہیں رنگ رنگ کے شربتوں کی قوس قزاح سے سجانے بھی لگے تھے۔ گرمی کے موسم کی یہ دونوں ہی سوغات تھیں۔
گوجرانوالہ کی ایک اور بات جو یاد رہ گئی میری پسندیدہ ”بیسن“ کی برفی تھی۔ ابا جی کو بھی یہ بہت پسند تھی۔ میں اسے ہمیشہ”پیلی برفی“کہہ کر دوکاندار سے طلب کر تا تھا۔ لاہور آ کر میرے والد، چچا اور مجھے لالی (لالی میرے چھوٹے بھائی شاہد کا کلاس فیلو تھا۔ پڑھائی کے بعد اس نے دودھ دہی کی بی بلاک ماڈل ٹاؤن میں دوکان کر لی۔ وہاں بر فی بھی بہت لذیز تیار ہو تی تھی۔) کی برفی بھی بہت پسند تھی۔ آج بھی کبھی ماڈل ٹاؤن جانا ہو تو میں برفی ضرور چکھتا ہوں اور کبھی کبھار پیلی برفی سے بھی منہ کا ذائقہ میٹھا کر لیتا ہوں۔
ہم بہن بھائیوں کو دودھ کی بلائی بہت پسند تھی۔ بلائی کے چکر میں کئی بار نوبت لڑائی تک پہنچ جاتی تھی۔ جس کا داؤ لگتا وہ پوری بلائی چٹ کر جاتا تھا۔اس دھنگا مشتی سے پچنے کے لئے میرے والد نے باری مقرر کر دی کہ ہر بچہ ایک دن بلائی کھائے گا۔ اب ہر بچے کی پانچویں دن باری آ تی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -