سائنسدان معدوم نوع کے جانور کو دوبارہ زندہ کرنے کے قریب پہنچ گئے، کیا ڈِی ایکسٹنکشن کا دور شروع ہونے والا ہے؟

سائنسدان معدوم نوع کے جانور کو دوبارہ زندہ کرنے کے قریب پہنچ گئے، کیا ڈِی ...
سائنسدان معدوم نوع کے جانور کو دوبارہ زندہ کرنے کے قریب پہنچ گئے، کیا ڈِی ایکسٹنکشن کا دور شروع ہونے والا ہے؟
سورس: Picryl

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) محققین کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک معدوم ہونے والے جاندار کو دوبارہ زندہ کرنے کے قریب ہیں، جس سے "ڈِی ایکسٹنکشن" کا دور قریب آ سکتا ہے۔ جینیاتی انجینئرنگ اور مصنوعی حیاتیات میں ہونے والی پیش رفتوں کی بدولت ماضی میں غائب ہو جانے والی جانوروں کی اقسام کو دوبارہ زندہ کرنا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اس میدان میں سرگرم تنظیمیں اور کمپنیاں بہت جلد  کامیابی کا دعویٰ کر رہی ہیں۔

سی این این کے مطابق  کولوسل بایوسائنسز ایک  بایوٹیک کمپنی  ہے جو وولی میمتھ، ڈوڈو اور تسمانین ٹائیگر کو زندہ کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ کمپنی  نے  اعلان کیا کہ اس نے مزید 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے جس سے اس کی کل فنڈنگ 435 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ 

کمپنی کے سائنسدانوں کا مقصد یہ ہے کہ آنے والے 10 سالوں میں وہ جانور دنیا میں دوبارہ نظر آئیں جو صرف بلیک اینڈ وائٹ تصاویر، قدرتی تاریخ کے عجائب گھروں میں رکھی ہوئی کھالوں اور فوسلوں میں ہی معروف تھے۔

سائنسدان تین اہم طریقوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ غائب ہونے والی اور نایاب انواع  کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔ ان میں  کلوننگ، جینیاتی انجینئرنگ اور روایتی بیک بریڈنگ شامل ہے۔ کولوسل بائیوسائنسز کے سائنسدان ان جانوروں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ان کی قریب ترین موجودہ انواع  کے جینیاتی کوڈ میں تبدیلیاں کر کے ایسا جانور تخلیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو معدوم انواع سے ملتا جلتا ہو۔ 

کولوسل بائیوسائنسز نے حال ہی میں ایشیائی ہاتھی کے لیے پہلی بار سٹیم سیلز   تخلیق کیے  ہیں۔ یہ خلیے تجربہ گاہ میں مختلف نوعیت کے ہاتھی کے خلیات میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں جس سے وہ وولی میمتھ کی خصوصیات حاصل کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ تسمانین ٹائیگر  پر بھی سائنسدانوں کی پیش رفت متوقع سے زیادہ تیز رہی ہے  اور کولوسل نے دُنارت (جو کہ تسمانین ٹائیگر کی قریب ترین موجودہ نوع ہے) کے جینیاتی کوڈ میں 300 تبدیلیاں کی ہیں۔

کولوسل کے چیف سائنس آفیسر بیتھ شیپرو نے کہا کہ "ڈِی ایکسٹنکشن" کسی معدوم نوع کو مکمل طور پر اس کی اصل حالت میں واپس لانے کا حل نہیں ہے۔ تاہم وہ یقین رکھتی ہیں کہ اس عمل میں استعمال ہونے والے بائیوٹیکنالوجی کے طریقے دیگر موجودہ انواع اور ماحولیاتی نظاموں کے تحفظ کے لیے مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ کولوسل کے منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ وولی میمتھ کی انواع کو واپس لا کر آرکٹک میں  دوبارہ بسایا جائے تاکہ وہ برف کی تہہ کو کمپریس کرکے اس کے پگھلنے کی رفتار کو سست کر سکیں۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -