آسودہ زمانے کی ماسیاں اور آج کی Maids
آج سے 75 سال قبل برصغیر کی کل آبادی 40 کروڑ تھی۔ اِدھر والے پاکستان کی آبادی تو صرف ساڑھے3کروڑ تھی۔ تمام برِصغیر میں 5 لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ آبادی والے شہر قریباً 17 تھے۔ دوبارہ کہتا ہوں 1947ء میں تمام ہندوستان میں 5 لاکھ آبادی والے شہروں کی تعداد 17 کے قریب تھی۔ پاکستان کے اس خطے میں صرف لاہور بڑا شہر تھا۔ اِن بڑے شہروں کی آبادی دیہاتوں سے ہی اُٹھ کر آئی تھی۔ ڈاکٹر، انجینئر، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ، سرکاری اہل کار، اُبھرتی ہوئی صنعتوں کے ملازمین، بینکار، اِن تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی قریبی رشتہ داریاں زراعتی پس منظر رکھتی تھیں۔ شہری زندگی میں گھریلو ملازم کی ضرورت پڑنی شروع ہوئی توغریب کسان فیملی کا کوئی نہ کوئی فرد پیچھے سے میسر آجاتا تھا۔ کچھ نقد اور روٹی، رہائش اور کپڑوں کا جوڑا مفت ہوتا تھا۔ گھریلو ملازم کی یہ اِبتدائی شکل تھی۔ یہ میں 70-60 سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ یہ ملازم جان پہچان والے ہوتے تھے اس لئے اِنہیں گھر کے چھوٹے بڑے ادب اور پیار سے بلاتے تھے۔ اگر بڑی عمر کا مرد ملازم ہوتا تھا تو چھوٹے بچے اُسے چاچا کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور بڑی عمر کی خادمہ ہوتی تو اُسے ماسی یا خالہ کہہ کر بلاتے تھے۔ چھوٹی عمر کے ملازم کو نام لے کر یا کاکا/ کاکی کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ 1970ء تک گھریلو ملازموں کی سپلائی دیہاتوں سے ہوتی رہی۔ صنعتی اور معاشی ترقی سے شہر پھیلے، بڑے بڑے گھر بنے،پرائیویٹ کاریں آگئیں، اِنگلش میڈیم سکول آگئے۔ اَب ڈرائیور کی بھی ضرورت پڑ گئی، بیگم صاحبہ کا ہاتھ بٹانے کے لئے خانساماں بھی ضروری ہو گیا۔
شہری زندگی میں مزید خوشحالی آئی تو واشنگ مشین سے کپڑوں کی دھلائی اور اِستری کرنے کے لئے بھی ملازم یا ملازمہ کی ضرورت پڑی پنجاب کے اکثر دیہاتوں میں بجلی آ گئی، تعلیم کا رجحان بڑھا اور ویسے بھی زرعی خوشحالی کے آنے سے گھریلو ملازموں کی درآمد بہت کم ہو گئی تھی۔ 1970ء کے بعد پاکستان کے غریب علاقوں سے گھریلو ملازم آنے شروع ہو گئے۔ ایک وقت تھا کہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور چترال سے کافی بڑی تعداد میں بڑے شہروں میں ملازمت کے لئے لوگ آتے تھے۔ 1999ء میں سیا چین کے پہاڑوں پر ہندوستانی فوج سے جھڑپوں نے گلگتی نوجوانوں کے لئے مقامی طور پر روزگار کا بہترین اِنتظام کر دیا۔لاہور جہاں کبھی گلگتی اور بلتی باورچیوں اور ڈرائیوروں کا بڑاجھمگھٹا ہوا کرتا تھا، آہستہ آہستہ اِن کی تعداد کم ہوتی گئی۔ میرے اپنے اور قریبی رشتے داروں کے گھروں میں 35-30 سال سے گھریلو ملازم اور ڈرائیور گلگت کے خپلو دیہات سے آتے تھے۔ میرا گھر نئے آنے والے گلگتی نوجوانوں کا Base camp ہوا کرتا تھا، کیونکہ میرے گھر میں خپلو کا رہنے والا لاہورشہر میں شائد پہلا فرد تھاجو 1964ء میں میرے ہاں ڈرائیور کے طور پر آیا تھا۔ 1981ء میں مجھے Foreign بینک کی ملازمت کے سلسلے میں پاکستان چھوڑنا پڑا۔ 2004ء تک محمد علی اپنی بیوی اور اپنے آنے جانے والے خپلو کے مہمانوں کے ساتھ ہمارے گھر کی حفاظت کرتا رہا۔ جب ہم پاکستان واپس آئے توہمارے وفادار ملازم نے اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میَں نے اور میرے بیٹوں نے جو محمد علی کے ہاتھوں میں ہی پلے بڑھے تھے اور اَب بڑے ہو کر باہر سے ہی تعلیم حاصل کر کے وہیں سکونت حاصل کر لی تھی، ہم سب نے محمد علی کو مناسب مالی امداد دے کر رخصت کیا۔ 2 سال بعد اُس کا 65 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اُس نے 39 سال تک ہمارا ساتھ دیا۔ کافی جذباتی منظر تھا جب وہ ہمارے ہا ں سے اپنے گاؤں کے لئے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوا۔
1973ء کے بعد سے پاکستانیوں کو مڈل ایسٹ میں چھوٹی بڑی ملازمتیں ملنی شروع ہو گئیں۔ جو پاکستانی بڑے رُتبے والی ملازمت پر عرب ممالک میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے تو اُن کو وہاں گھریلو ملازم کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ جب میں 1981ء میں سعودی عربیہ گیا تھا تو اُس وقت تو بڑی پابندیاں تھیں گھریلو ملازم کے لئے ویزہ حاصل کرنے میں۔ یہ پابندی 1987 تک تو قائم تھی جب میں نے سعودی عربیہ چھوڑ کر دبئی کے ایک بینک میں ملازمت اِختیار کی تھی۔ یہاں دبئی میں Expatriates کو مقامی طور پر فلپائنی، سری لنکن یا ہندوستانی خاتون ملازمہ کا آزاد ویزا اپنی ذاتی ذمے داری پر ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی خواتین دبئی وغیرہ میں بہت کم گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ یہ میَں بات کر رہا ہوں 1988ء سے 2000ء تک کی۔ گھریلو ملازمہ کے لئے Maid کی اِصطلاح یہاں دبئی میں ہی پہلی مرتبہ سُنی۔ مغربی ممالک میں اوّل تو فُل ٹائم گھریلو ملازم رکھنا کوئی امیر آدمی ہی Afford کر سکتا ہے۔ برطانیہ میں گھر کے ملازم کو بٹلر کہتے ہیں۔ امریکہ میں Domestic helper کہتے ہیں جو جُز وقتی ہوتے ہیں اور اپنی اُجرت گھنٹوں کے حساب سے لیتے ہیں۔ پاکستان میں Maid کی اِصطلاح دبئی سے درآمد ہوئی ہے۔ پاکستان کے خوشحال خاندانوں میں 2 یا زیادہ Maids ملازم رکھنا Status کی علامت بن گیا ہے۔ بڑے شہروں میں پکی عمر کی گھریلوں ملازماؤں کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ Maid عموماً غیر شادی شدہ ہوتی ہیں، اُ س کی مالکن بھی زیادہ عمر کی نہیں ہوگی وہ چھوٹے بچوں کی ماں بھی ہوگی۔ ایک بچہ۔ ”بابا لوگ“ہو گا جس کے لئے یہ خادمہ Nanny کا بھی کام کرے گی۔ صاحب اور بیگم صاحبہ جب بچوں کے ساتھ کہیں پارٹی پر جائیں گے تو Maid بھی چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کے لئے ساتھ جائے گی۔ Maid صاف ستھرے سادہ سے کپڑوں میں ملبو س ہوگی۔
خوشحال ماحول میں رہنے کی وجہ سے TV ڈراموں کا بھی اُس کو شوق ہو جائے گا، خوشبوؤں کی بھی شوقین ہو جائے گی۔ چونکہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے اُن کے ساتھ زیادہ وقت گذاررہی ہو گی اس لئے وہ ائیرکنڈیشنگ کی بھی عادی ہو چکی ہوگی۔ مطلب یہ کہ چھوٹی سی عمر میں اُسے شہری زندگی کا مکمل چسکا لگ چکا ہو گا۔ Maidsکو بیگم صاحبہ عام موبائل فون بھی لے دیتی ہیں رابطے کے لئے۔یہ Maidsجب چھٹی پر اپنے ماں باپ سے ملنے گاؤں جاتی ہیں تو وہ اپنے ہی ماحول سے بیگانہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اُنہیں اپنے گھر میں گائے بھینسوں کی بدبو بُری لگتی ہے، اُنہیں پینے کا پانی کڑوا لگتا ہے۔ وہ چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی واپس شہر بھاگتی ہیں۔ میَں کم از کم 3 گھروں کی Maids کے بارے میں لکھ سکتا ہوں کہ کس طرح وہ اپنے اوریجنل ماحول سے کٹ کر بے آسرا ہو گئیں۔ ایک Maidکی 5 سال کی نوکری کے بعد اپنے ہی گاؤں میں کسی دیہاتی قسم کے لڑکے سے شادی ہو گئی۔ دونوں کے رہن سہن کے فرق نے شادی کو 3 ماہ بھی نہ چلنے دیا۔ لڑکی طلاق لے کر ماں باپ کے گھر آ گئی۔ ماں باپ نے اپنی لڑکی کو اپنے گھر کے ماحول کا دوبارہ عادی بنانے کے لئے ملازمت پر نہیں بھیجا۔بے چاری بیمار رہنے لگی اور یوں ہی نفسیاتی صدمے سے بیمار ہو کر6 ماہ میں ہی فوت ہو گئی۔ دوسری میڈ کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا لیکن وہ سخت جان نکلی۔ خاوند سے طعن وتشنیع اور ماریں کھا کر 3 سال میں 2 بچوں کی ماں بھی بن گئی اور ایک دم بوڑھی نظر آنے لگی۔ تیسری ذرا چالاک نکلی۔ اُس نے ماں باپ کے گھر سے بھاگ کر اُس لڑکے سے ہی شادی کر لی جو 3 سال پہلے صاحب کے گھر میں ڈرائیور تھا اور نکال دیا گیا تھا۔
دبئی سے درآمد شدہ Maid کا تصوّر ہمارے پس ماندہ گھروں کی غریب لڑکیوں کے لئے حسن بن صباح کی جنت کی طرح ہوتا ہے۔ یہ بچیاں خوشبودار ماحول میں دن رات رہ کر وہ اپنے آبائی گھر کے ماحول سے اُچاٹ ہو جاتی ہیں جبکہ شہر کی جنت میں وہ ہمیشہ کے لئے رہ نہیں سکتیں۔ یہ معصوم بچیاں جب اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں تو نفسیاتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہوتی ہیں۔ Maid کی صنف نے ہمارے غریب دیہاتی گھروں کے لئے سماجی مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ ہمارے گھروں میں وہ ہی پکی عمر کی ماسیاں اور خالائیں چل سکتی تھیں جن کے ہم عرصے سے عادی تھے۔