مسجد نبویؐ شریف میں پاکستانی اساتذۂ کرام(1)
مسجد نبوی شریف کے قیام کے ساتھ ہی جناب رسول اللہؐ نے مسجد میں تعلیم الاسلام اور فہم القرآن کا بھی بندوبست فرمایا۔اس مقصد کے لئے ایک چبوترہ بنایا گیا جو اصحاب صفہ کا چبوترہ کہلاتا ہے۔اس چبوترے پر صحابہء کرامؓ کی تعلیم و تدریس کا کام جناب نبی آخر الزمانؐ خود فرماتے۔گواب مدینہ منورہ میں سینکڑوں ادارے تعلیم القرآن کا فریضہ ادا کر رہے ہیں، مگر مسجد نبویؐ میں یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔(انشاء اللہ) بڑے استاد وہاں تعلیم دے رہے ہیں۔مسجد نبویؐ میں باب عمرؓ پر چند پاکستانی قراء حضرات سالہا سال سے قرآن حکیم کی تعلیم و خدمت میں مصروف ہیں۔ان حضرات کے پاس زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے عربی حضرات قرآن حکیم پڑھنے سیکھنے یا اصلاح کی غرض سے مغرب اور عشاء کے درمیان حاضر ہو کر اس عظیم مقصد کو حاصل کرتے ہیں۔اللہ کریم کلام اللہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کو جزاء عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)
ان قراء حضرات میں سب سے پہلے مَیں محترم قاری بشیر احمد مدظلہ کا تعارف کراتا ہوں۔ آپ مسجد نبویؐ میں 50سال سے استاد کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔میرا کرایا ہوا تعارف ان اساتذہ کرام کے شایان شان تو ممکن نہیں، مگر ہر پڑھنے والا ان کی شخصیت سے متاثر ضرور ہوگا۔مئی جون 2014ء میں جناب قاری صاحب لاہور اور اسلام آباد تشریف لائے۔ قاری صاحب محترم کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے۔لاہور میں 1948ء میں پرانی انار کلی میں دارالعلوم الاسلامیہ قائم ہوا۔اس ادارے سے پڑھنے اور پڑھانے والوں نے دنیا میں بڑا نام پیدا کیا۔قاری صاحب محترم اسی مدرسے سے 1962ء میں فارغ ہوئے۔مدینہ منورہ گئے ہوئے بھی 50سال ہو چکے ہیں، جہاں قرآن مجید کے حوالے سے ان کی بڑی خدمات ہیں، جن کی حکومت بھی معترف ہے۔دیگر قراء حضرات بھی تقریبا اتنی ہی مدت سے تدریس کا کام انجام دے رہے ہیں، مگر قاری بشیر احمد صاحب مختلف حیثیت کے حامل ہیں۔اول یہ کہ وہ مسجد نبویؐ میں استاد کے فرائض انجام دے رہے ہیں جو دوسرے یہ کہ پاکستانی اساتذہ کرام میں واحد استاد ہیں جو سعودی عرب کی شہریت رکھتے ہیں۔تیسری اہم بات یہ کہ مسجد نبوی کے سینئر امام محترم جناب الشیخ محسن القاسم جناب قاری بشیر احمد صاحب مدظلہ کے شاگرد ہیں۔اس عظیم منصب پر فائز شخصیت کا استاد ہونا بھی بڑے اعزاز اور قومی عظمت کی بات ہے۔
باتیں تو قابل ذکر بہت ہیں ،مگر میری محدود دانست کے مطابق قاری محترم کے مراکش کے شاہ حسن کے ساتھ بڑے اچھے مراسم تھے۔ان کی حیات میں جناب قاری صاحب مراکش آتے جاتے رہتے تھے۔جولائی 1999ء میں ناچیز ان معزز قراء حضرات کے ساتھ مسجد نبوی میں موجود تھا۔ قاری صاحب محترم فرمانے لگے: دوتین ماہ تک میں لاہور آ رہا ہوں۔پاکستان سے مراکش جاؤں گا۔آپ بھی میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار رہنا۔بندہ کے لئے یہ بڑی خوشی کی بات تھی، مگر میرے پاکستان واپس آنے کے چند ماہ بعد شاہ حسن کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا(اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے، آمین)۔ اس طرح قاری صاحب محترم پاکستان آنے کی بجائے مراکش تشریف لے گئے اور بندہ کی ملاقات کا پروگرام نہ بن سکا۔ پانچ سال قبل قاری صاحب محترم پاکستان تشریف لائے۔ لاہور میں ریواز گارڈن کی مسجد بیت المکرم میں بندہ نے نماز جمعہ پڑھانے کی استدعا کی۔ فرمانے لگے ،جمعہ مَیں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد میں پڑھاؤں گا۔البتہ میری درخواست پر اپنے صاحبزادے محسن المدنی کو تاکید فرمائی کہ میرے ساتھ جا کر مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ پڑھائیں۔الحمد،للہ ایسا ہی ہوا۔پھر ہم نے اگلے روز دوپہر کا کھانا قاری بشیر صاحب کے ساتھ اکٹھے کھایا۔اس جمعہ کو 28جولائی 2006ء اور رجب کی یکم تاریخ تھی۔
اب مَیں دوسرے قاری جناب قاری محمد ایم علوی صاحب مدظلہ کا ذکر کروں گا۔ جناب کا تعلق حافظ آباد سے ہے۔وہ بھی لاہور کے دارالعلوم الاسلامیہ سے فارغ ہوئے اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مختلف جگہ تدریس کا کام کرتے رہے۔پھر شاہ فہد قرآن کمپلیکس میں پروف ریڈنگ کے کام پرمامور ہوئے۔صدر ضیاء الحق مدینہ منورہ گئے تو ان کو قرآن کمپلیکس دکھایا گیا، جہاں ترجمانی کے فرائض جناب قاری محمد ابراہیم صاحب نے انجام دیئے۔صدر ضیاء الحق حیران تھے کہ کیسے کیسے اہم شعبہ جات میں پاکستانی حضرات خدمات انجام دے رہے ہیں۔دوسال قبل آپ کواللہ کریم نے مدینہ منورہ حاضری کی سعادت عطا فرماتا تو آپ کی ملاقات قاری صاحب محترم سے درس و تدریس کے حلقہ میں ہو جاتی۔قاری صاحب محترم جب لائل پور تشریف لاتے تھے تو اکثر میری ان کے ساتھ نشست رہتی۔ جناب قاری صاحب محترم نے بھی ریواز گارڈن کی مسجد بیت الکرم میں نماز جمعہ کی امامت فرمائی اور پھر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ جہاں قاری صاحب محترم مسجد نبویؐ میں استاد کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ان کی زوجہ محترمہ مسجد نبویؐ میں خواتین کو اب بھی درس دیتی ہیں۔اللہ اکبر، اللہ کریم نے زوجین کو کتنا نوازا ہے۔
مسجد نبویؐ میں ایک اور استاد محترم جناب قاری رمضان صاحب بھی تدریس کا کام کررہے تھے۔جولائی 1999ء میں انہوں نے دیگر قراء حضرات کے ساتھ بندہ کو عشائیہ پر مدعو فرمایا۔مسجد نبویؐ سے نماز عشاء سے فارغ ہو کر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور قاری رمضان صاحب کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے۔قاری صاحب محترم انتقال فرما گئے ہیں۔جنت البقیع میں آرام فرما رہے ہیں۔اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے(آمین)۔ قرآن کی بڑی خدمت کر گئے۔قاری صاحب نے عشائیہ کی دعوت دی جب ہم عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر چلے تو ہمیں ایک چائینز ریسٹورنٹ میں لے گئے۔میرے لئے مدینہ منورہ میں چائینز ریسٹورنٹ بڑی حیرانی کی بات تھی۔ قراء حضرات نے بتایا کہ یہ ریسٹورنٹ حدود مدینہ منورہ سے باہر ہے۔تسلی میری پھر بھی نہ ہوئی،جب ویٹر آیا تو مَیں نے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو۔کہنے لگا تھائی لینڈ کا ۔ تمہارا مذہب کیا ہے، کہنے لگا کرسچن۔ان باتوں سے دعوت کا مزہ متاثر ہوا۔بہرحال اچھے کھانوں سے تواضح فرمائی۔ قاری رمضان صاحب کی وفات کے بعد ان کے بچے مسجد نبوی میں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔یہ مرحوم کا فیض ہے۔(جاری ہے)