لاہور ئیے سے سموگیئے کا سفر
ایک زمانہ تھا کہ لاہوریا ہونا بڑے اعزاز اور فخر کا باعث تھا۔یہاں رہنے والوں کی پہچان اور شناخت ”لاہوریئے“ کے طور پر ہوتی تھی جس میں لاہور والے اسے فخر سے استعمال کرتے آئے ہیں کہ ہم اوریجنل ”لاہورئیے“ ہیں لیکن اب یہ پہچان دنیا بھر میں ”سموگیئے“ کے طور پر ہونے لگی ہے کہ اس شہر کے حسن اور سرسبز و شاداب فضاء کو ہماری کج فہمیوں نے زہریلے دھوئیں کی نذر کر دیا ہے کہ اب یہاں سانس لینا بھی زہر اُگلنے کی طرح ہو گیا ہے۔ یہ پھولوں باغوں اور خوشبوؤں کا شہر ہماری مس پلاننگ اور بے توجہی کے سبب ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا مسکن بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے ہماری طویل لاپرواہی، کج فہمی اور مسائل سے قبل از وقت آگاہ ہونے بلکہ مسائل سے دوچار ہوجانے کے بعد بھی اس سے نبرد آزما ہونے کی عدم صلاحیت ہمارا مذاق اُڑا رہی ہے۔پہلے کی طرح اب بھی اس سے نپٹنے کیلئے تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں کو روک دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے،بلکہ ایک خبر کے مطابق اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں شادیوں پر بھی پابندی اور شادی ہال بند کر دینے کی خبر بھی گردش کر رہی ہے۔ اس اہم مسئلے کے حل کے لئے سب سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جو اس بدترین آلودگی کا سبب ماضی میں بھی بنے اور اب بھی ان کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ سب سے اہم معاملہ شہر کی آبادی کا حد سے بہت زیادہ تجاوز ہے، جس کے لئے سرے سے نہ کوئی پلاننگ ماضی میں کی گئی اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لئے اب کوئی خاطرخواہ پیش رفت کی جار ہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے مراکز شہر ہمیشہ لوگوں کی توجہ کھینچتے ہیں جس کے سبب بیشتر آبادی کا رخ ان کی طرف ہو جاتا ہے، یہی کچھ لاہور کے ساتھ بھی ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے صوبے بھر سے ہی نہیں بلکہ ملک بھر سے لوگ یہاں جمع ہو گئے۔ اس وقت اگر سروے کر کے دیکھا جائے تو حیرت انگیز انکشافات سامنے آئیں گے کہ شاید ہی ملک کا کوئی شہر، قصبہ، گاؤں ایسا ہو جس کے رہنے والے یہاں آ کر نہ بس گئے ہوں۔ آبادی کا یہ بے ہنگم اور بے جا ہجوم وہ بنیادی اور پہلی وجہ ہے جس کیساتھ دراصل دیگر تمام مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ان سب لوگوں کے لئے روزگار کی فراہمی، رہائش کا انتظام اور ذرائع آمد و رفت مل کر بہت سے مسائل کو عرصہ دراز سے جنم دیتے چلے آ رہے ہیں۔ دنیا میں شہروں کی آبادی کو ایک خاص حدسے زیادہ بڑھنے نہیں دیا جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ وسائل اور ترقیاتی کاموں میں امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا، جس کے سبب ہر بنیادی سہولت ہر ٹاؤن میں مہیا کر دی جاتی ہے جس کے سبب آبادی کی نقل و حرکت انتہائی ضرورت کے تحت ہی ہوتی ہے۔ بڑے تعلیمی اداروں کا لاہور میں ہونا بھی دور دراز کے طلبا کو اس شہر میں ہجرت پر مجبور کر تا ہے۔اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طلباو طالبات بھی اس شہر میں اپنی تعلیمی ضرورتوں کے لئے آتے ہیں جو دراصل انہیں ان کے قریب ہی میسر آنی چاہئے۔بے انتہا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کیمپسز جن میں داخلے کے لئے محض پیسے ہونا ہی کافی ہے یہاں ہجوم کے اندر ایک اور ہجوم کو شامل کرتے چلے جا رہے ہیں۔اسی طرح گھروں اور کرائے کی بلڈنگوں میں کھلے ہوئے سکول جن کے پاس نہ تو سکو ل کے تقاضوں کو پورا کرنے والی عمارتیں ہیں نہ بچوں کے دینے کے لئے ٹرانسپورٹ ہے اور یوں صبح دوپہر گاڑیوں کی لگی لمبی قطاریں اور ان سے نکلتا دھواں فضا کو آلودہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ لاہور کے اردگرد اور اندرون شہر پھیلے ہوئے سبزے اور درختوں کو جس طرح رہائشی سوسائٹیوں میں تبدیل کیا گیا ہے اس نے فضاء میں موجود رہی سہی آکسیجن کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ سبزے اور زرعی زمینوں پر بننے والی یہ رہائشی کالونیاں ہماری کم عقلی کا ماتم کر رہی ہیں۔ دنیا میں شہروں کے اندر گاڑیوں کی تعداد کو بھی ایک خاص حد تک رکھا جاتا ہے، لیکن یہاں کوئی حد تجاوز ہے ہی نہیں اور ہم دھڑا دھڑ سڑکوں کو ان سے بھرتے چلے جا رہے ہیں۔اس پر موٹر سائیکلوں، رکشوں اور غیر رجسٹرڈ ٹرانسپورٹ کا ایک بے ہنگم شور ہے جو دراصل لاہور کی اس حالت کا سبب بن رہا ہے۔اسی طرح ترقیاتی کامو ں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو الگ سے ماحول کو گرد آلود کئے رکھتا ہے۔ لاہور معاشی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے اور باہر سے آنے والوں کے لئے شہر سے باہر گاڑیوں کی پارکنگ اور وہاں سے اہم تجارتی مراکز کی طرف شٹل سروس شروع کرنے سے ٹریفک کا آدھا بہاؤ تھم سکتا ہے۔ دوسرے علاقو ں سے یہاں آباد ہونے والوں کے لئے ایک نیا شہر قرب وجوار میں ہی آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کو طلبا کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے سے قبل لائسنس نہ دیاجائے۔ نئی کالونیوں اور خصوصا زرعی زمینوں پر تعمیرات پر پابندی عائد کر دی جائے۔ہر طرح کی غیر رجسٹرڈ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں رکشوں کو بند کر کے ان کے لئے کسی مناسب کاروبار کا انتظام کر دیا جائے اور وہ کسی تعمیری،عملی اور ہنر وری کے کام میں حصہ لے سکیں اور سب سے بڑھ کر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں کے قافلوں کو کم کیا جائے جو شہر میں ایک طرف ٹریفک کے بہاؤ کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور دوسری طرف سموگ پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ لاہورئیے سے سموگیئے بننے تک کا سفر بڑے عہدوں پر براجمان چھوٹے لوگوں کی کند ذہنی، کج فہمی کی طویل ہوشربا داستان اور اس پھولوں، خوشبوؤں، تتلیوں اور باغوں سے بھرے شہر کا نوحہ ہے۔
٭٭٭٭٭