سر سید کی شمع علم کو شہید حکیم محمد سعید نے مزید روشن کیا،عبدالحسیب خان
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق سینیٹر عبدالحسیب خان نے کہا ہے کہ شہید حکیم محمد سعیدنے اللہ، پاکستان، انسانیت اور اپنے نصب العین ’’خدمت خلق‘‘ سے محبت کی اور اس میں وہ بہت کامیاب رہے۔ وہ گزشتہ روز ’’شہید پاکستان حکیم محمد سعید، ایثار، ہمدردی اور محبت کا پیکر‘‘ کے موضوع پر جسٹس (ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت شوریٰ ہمدرد کراچی کے اجلاس سے ایک مقامی کلب میں خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد بھی موجود تھیں۔ عبدالحسیب خان نے مزید کہا کہ حکیم صاحب کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا عام آدمی سے لے کر خاص آدمی تک ان کی خدمات سے مستفیض ہوئے۔ اللہ نے انہیں بہت کچھ دیا تھا وہ چاہتے تو عیش کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے انسانوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا، اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ڈیفنس ریذیڈینٹس سوسائٹی کے صدر ظفر اقبال نے کہا کہ شہید حکیم محمد سعید ملک کی واحد شخصیت تھے جنہوں نے نونہالوں (بچوں) کے لیے بہت کام کیا۔ وہ بچوں کوپیارے بچوں کے بجائے ’’قابل احترام بچوں‘‘ لکھا کرتے تھے، اسی لیے 11 ۔ مارچ1991 کو چیف جسٹس (ر) قدیر الدین احمد کی زیر صدار کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں انہیں ’’قائدنونہال‘‘ کا خطاب پیش کیا گیا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا۔ پروفیسر محمد رفیع نے کہا کہ شہید حکیم محمد سعید نے ایک رول ماڈل کی زندگی گزاری۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک رول ماڈل میں ہونی چاہئیں جن سے عام لوگ خصوصاً نوجوان تحریک حاصل کرتے ہیں مثلاً وطن سے وفاداری،علم پروری، اپنی بات اور دھن کے پکے، جہد مسلسل اور انتھک محنت جو ہر مقصد کے حصول کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکیم صاحب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ ملک و قوم کی تعمیر نو کی جاسکے جس کی آج بہت ضرورت ہے۔ جسٹس (ر) ضیا پرویز نے کہا کہ سر سید کی شمع علم کو شہید حکیم محمد سعید نے آگے بڑھایا اور مزید روشن کیا۔ حکیم صاحب نے جہالت کے خلاف جہاد کیا اور تعلیم کو پھیلانے کی بھرپور سعی کی، ان کا جہاد جاری رہنا چاہیے۔ کموڈور (ر) سدید انور ملک نے کہا کہ حکیم صاحب ایک بڑے آدمی کی طرح عام آدمی کی بات بڑے دھیان سے سنتے تھے اوران میں ایک بڑے آدمی کے تمام اوصاف موجود تھے۔ حکیم صاحب نے میرٹ پر صحت و تعلیم کے بہت سے ادارے بنائے یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے بعد بھی بڑے زوروشور سے چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ ہمدرد حکیم صاحب پر ریسرچ کر کے ان کی ایک جامع سوانح حیات تیار کرے جو آئیندہ نسلوں کی رہنمائی کا کام انجام دے۔ جسٹس (ر) حاذق الخیری نے کہا کہ شہید حکیم محمد سعید، قائداعظم محمد علی جناح کی 11 ۔اگست 1947 کی تقریر سے کمیٹڈ تھے اور اپنی اس بات پر قائم بھی رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث نے کہا کہ شہید حکیم محمد سعید ایک اہل بصیرت شخصیت تھے، ان کے کام بولتے ہیں، ان کے اثرات آج تک موجود ہیں، انہیں تعلیم سے عشق تھا اور تعلیم کے ذریعے وہ پاکستانی معاشرے کو ترقی کی جانب لے جانا چاہتے تھے،وہ اہل نظر تھے جوآج کو بھی دیکھ سکتے تھے اور آنے والے کل کو بھی محسوس کر سکتے تھے ان کے کام اور مشن کو سعدیہ راشد موثر انداز سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ معروف سیاستداں دوست محمد فیضی نے کہا کہ شہید حکیم محمد سعید ایک مقناطیسی شخصیت تھے جو ان سے ملتا ان سے چپک کر رہ جاتا تھا، وہ اپنے نام ’’سعید‘‘ کی مناسبت سے اسم بامسمیٰ تھے، یعنی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت۔ حکیم صاحب قرآن حکیم کی اس آیت پر عمل پیرا تھے جس کا ترجمہ ہے : ’’اے مسلمانوں تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو تم نہیں کر سکتے‘‘۔ حکیم صاحب نے جو بات کہی اسے کر کے بھی دکھایا، وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح قوم کی غیرمتنازع شخصیت ہیں۔