دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ انتیسویں قسط
نظام الدولہ
کلب واپس آتے ہی سب سے پہلے جو کام کیا وہ پیٹ پوجاتھی۔میں رات سے بھوکا تھا اور مجھے کھانے کی شدید طلب تھی۔جس کسی کو معلوم ہوتا کہ میں رات بھر سے بھوک ہڑتال پر تھا ،وہ حیران ہوتا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ بہرحال میرے لئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں تھا کہ میں ایک رات کے لئے گاندھی والا بن گیا اور گاندھی جی کے پیروکاروں کے ساتھ شب بسری کی تھی۔مجھے اس پر ناز رہا ہے۔
گھر والے بہت خوش تھے کہ ان کا بیٹا ہوشیار ہوگیا ہے ،میرا دل چاہتا تھا کہ میں بھی اپنے والد کی طرح پھلوں کا کامیاب تاجر بن جاؤں ۔خاندانی کاروبار کو آگے بڑھاؤں ۔لیکن سرور خان کے بیٹے کو کچھ اور بننا تھا ،پھلوں کا تاجر نہیں۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ اٹھائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وقت تیزی سے گزررہا تھا ۔جنگ کے حالات بدتر ہوتے چلے گئے ،کلب پر بھی ان حالات کا اثر ہوا اور ٹھیکیدار تاج محمد کی جگہ ایک اور ٹھیکدار نامزد کردیا گیا،اسکی منظوری کنٹونمنٹ کی ایگزیکٹو کمیٹی نے دی تھی۔تاج محمد نے مجھے مشورہ دیا کہ تمہیں بھی اس نوکری کو چھوڑ دینا چاہئے۔اس وقت تک میں کرنسی نوٹو ں کا ایک بنڈل جمع کرچکا تھا ۔میں نے ان کی گنتی کی تو یہ پانچ ہزار روپے تھے جو اس دور میں کافی بڑی رقم تصور ہوتی تھی۔
رمضان المبارک کا مہینہ قریب آرہا تھا۔دوستوں کے علاوہ مجھے مسجد کے مولوی صاحب نے بھی بتایا تھا کہ ماہ رمضان بس آنے والا ہے۔میں نے سوچا کہ یہی منسب وقت ہے کہ مجھے واپس بمبئی چلے جانا چاہئے اور کوئی ایسی ملازمت کرنی چاہئے جو آغا جی کو بھی قابل قبول ہو۔یا پھر ایسا بھی ہوسکتاتھا کہ میں انکے پھلوں کے کاروبار میں انکی مدد کرتا۔اب میں کافی تبدیل ہوگیا اورمجھ میں شعور اور پختگی در آئی تھی۔معاملات کو سمجھنا اور ہینڈل کرنا سیکھ گیا تھااور غصہ پر بھی قابو پانا آگیا تھا۔خدشہ تھا کہ واپس جانے پر آغا جی اتنی جلدی میری خطا معاف نہیں کریں گے لیکن اماں جی کی محبت پر یقین تھا کہ وہ آغا جی کو بلاآخر سمجھا لیں گی۔اماں جی میں دوسروں کو قائل کرنے کی بہت خوبی تھی اور وہ بڑی نرمی اور محبت سے اپنا یہ ہنر استعمال کرتی تھیں۔ویسے بھی میں گھر سے نہ بھاگتا تو اگلے دن تک آغا جی کا غصہ کافور ہوچکا ہوتااور معاملات معمول پر آجانے تھے۔لیکن تقدیر کو یہی منظور تھا۔
عید سے چند روز پہلے میں بمبئی میں گھر واپس لوٹ آیا۔میری آمد کا ایوب صاحب اور بہنوں کو معلوم تھا اور ان سب کو کہہ دیا تھا کہ وہ میری آمد کے سرپرائز کو رازمیں رکھیں۔میں اماں جی سے اچانک جا کر ملنا چاہتا تھا کیونکہ پہلے علم ہوجاتا تو وہ شدت جذبات سے روزانہ انتظار کرتیں اور ان کا وقت نہ گزرتا۔چھوٹی بہن تو ان دنوں چھوٹی بچی تھی اور اسکو یہ معلوم نہیں تھا کہ گھر میں کیا ہوا ہے ،سوائے رونے کے اور دودھ مانگنے کے اسے کوئی اور کام نہیں تھا ۔جب میں اپنے گھر کی گلی میں پہنچا تو جو دیکھتا حیران ہوتا ۔گھر کی ڈیوڑھی پر دھڑکتے دل کے ساتھ قدم رکھے تو چھوٹی بہن دوڑتی ہوئی اندر گئی اور میری آمد کا شور مچا دیا۔
اماں کے کانوں میں آواز پڑھی تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکے دیوانہ وار باہر نکلیں اور مجھ پر نظر پڑی تو دروازے پر ہی ساکت و جامد ہوگئیں ۔جذبات سے میں بھی مغلوب ہوگیا۔میرے قدم ڈگمگانے لگے اماں کو دیکھ کر ۔۔۔ یہ بالکل فلمی منظر تھا ۔میں دوڑتا ہوا اماں جی کے پاس گیا اور ان سے لپٹ کر رونے لگا ۔اماں جی بھی کلیجے میں بھینچ بھینچ کر رورہی تھیں۔ہماری حالت پر سب ہنسے بھی اور پھر سب مجھ سے لپٹ گئے۔اماں بھی رونے کی بجائے ہنسنے لگیں۔اس لمحہ مجھے عقب سے بھاری قدموں کی آواز آئی تو میرے دل نے دھک دھک کیا۔یہ آغا جی ہوسکتے تھے لیکن پلٹ کردیکھا تو عمر چاچا تھے جو میری آمد کے شور کی آواز سن کر تصدیق کرنے آئے تھے کہ آیا یہ خبر درست ہے یا غلط ؟۔
اماں نے فوراً مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہارا روزہ ہے؟ میں نے بتایا کہ کلب میں روزہ رکھنے کے انتظامات نہیں ہوتے تھے۔کچھ ہی دیر بعد ہم سب اماں جی کے کمرے میں براجماں تھے۔میں کچھ دیر کے لئے بے یقینی کا شکار ہوا کہ کیا میں واقعی اماں کے پاس ہوں۔انکے صاف ستھرے بستر پر بیٹھ کر میری روح سرشار ہوگئی۔اماں کا چہرہ زرد ہوگیا تھا اور انہوں نے کنگھی کئے ہوئے بالوں کو اسی لیس دار دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا جو میں انکے لئے انگریزوں کے بازار سے خرید کرلایا تھا۔میری جدائی میں اماں اس دوپٹے سے بہت پیار کرتی ہوں گے۔کئی مہینوں کی جدائی اماں کے چہرے پر کندہ تھی اور میں اس کا احساس کرسکتا تھا میری اماں پر یہ وقت کیسا گزرا ہوگا۔
اماں کو میری پھوپھیوں اور بہنوں کی طرح دیدہ زیب لباس پہنے کی عادت نہیں تھی ۔وہ مجھ سے فر مائش کرکے بازار سے خوش رنگ ڈیزائن اور لیسیں،کپڑے اور ریشم منگواتیں اور کہتیں کہ انہیں میری چوائس زیادہ پسند ہے لیکن اسکے باوجود وہ اس بات پر شکوہ کرتیں کہ میں اپنی اماں کے لئے زیادہ بہتر چیز لاتا ہوں۔حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔میں اماں کے لئے ایسا کپڑا یا لیس لاتا تھا جو ان کی رنگت پر جچتا اور کپڑوں کی شوخی کو ترجیح نہیں دیتاتھا۔
اب مجھے انتظار تھا کہ اماں ہو ں اور بس میں اور انہیں وہ رقم پپیش کروں جو میں کما کر لایا تھا۔میں نے بے قراری سے بیگ کھولا اور اس میں سے نوٹوں والا لفافہ نکالا ،اماں حیرت سے دیکھ رہی تھیں اور میں بھی اماں کی آنکھوں میں بڑھتی حیرانی کو بھانپ رہا تھا ۔لفافہ کھولے بغیراماں کو پیش کیا ۔انہوں نے پہلے مجھے پھر لفافہ کو دیکھا اور اس میں جھانک کر دیکھا توا ناکے چہرے پر غیر یقینی سی صورتحال پیدا ہوئی۔
’’یہ سب کیا ہے؟ کہاں سے لائے ہو اتنے سارے روپے؟‘‘
اماں نے دھمیے لہجے میں استفسار کیا تو انکے انداز میں بے چینی تھی۔
’’ خود اپنی محنت سے کمائے ہیں اماں ‘‘ میں نے کہا مگر اماں کو یقین نہ آیا اور وہ اٹھ کر الماری کی جانب گئی اور قرآن مجید پر پیسے رکھ دئے اور مجھے کہا’’ قسم کھاؤ ۔یہ تمہارے ہی ہیں اور حلال کی کمائی ہے؟‘‘
میں اٹھااور قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کے انہیں یقین دلایا کہ میں نے پوری دیانت داری سے محنت کرکے یہ جمع پونجی اکٹھی کی ہے۔شُکر ہے کہ اماں کو اس بات پر یقین آگیا اور وہ میرا ماتھا چوم کر مطمئین ہوگئیں کہ ان کا خون کبھی کوئی غلط کام نہیں کرسکتا ۔
مجھے آغا جی کا انتظار تھا۔ بے قراری تھی،وہ شام کے وقت گھر آئے اور افطاری اپنے اہل خانہ کے ساتھ کررہے تھے۔اس دوران میں نے غسل کرکے سفید پینٹ شرٹ پہن لی اور میں بھی ان سب کے ساتھ ہی دسترخوان پر بیٹھنے والا تھا کہ آغا جی اور اماں کی باتیں کانوں میں پڑیں ۔اماں انہیں میری آمد سے مطلع کررہی تھیں جبکہ آغا جی نے کوئی حیرانی اور بے قراری ظاہر نہیں کی اور اور کہا کہ ہاں میں جانتا تھا کہ وہ واپس آئے گا۔آغا جی کبھی جذبات سے مغلوب نہیں ہوتے تھے ۔ البتہ ایک بار جب اماں کو دمہ کا شدید دورہ پڑا تو اس اونچے لانبے پٹھان کے چہرے پر شدید بے بسی دیکھی تھی۔انہوں نے اس روز چلاّ کر کہا تھا کہ کوئی ہے جوجائے اور گلی کی نکڑ میں موجود ڈاکٹر کو بلا کر لائے۔آغا جی کے بازو اپنی نازک بیوی کو اپنے بازووں میں اٹھانے کے لئے بے قرار تھے۔انکی بے بسی دیکھ کر مجھے انکی اماں سے محبت کا احساس تھا۔یہ منظر میرے ذہن پرہمیشہ نقش رہا،حتیٰ کہ 1984 میں جب یش چوپڑا نے فلم مشال بنائی تو اس میں ایک سین ایسا بھی تھا جس میں مجھے بحیثیت کردار اپنی بیمار بیوی کو فوری ہسپتال پہنچانا تھا اور کوئی گاڑی والا مجھے لفٹ نہ دے رہا تھا ۔میں نے آغا جی کے اس کرب ناک احساس کو ذہن میں تازہ کیااور اس کو اپنے اوپر طاری کرکے وہ کردار ادا کیا تھا۔(جاری ہے)