رہنما پہچانیں -بیانیہ جانیں
مسیحائی اور بڑائی کا خناس جب دل و دماغ میں سماتا ہے تو رہنما پھسل کر گمراہی کے پاتال میں گر جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہی ایسا مسیحا ہے جو عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئیے اتارا گیا ہے۔ وہ نہ رہا تو عوام رل جائے گی، ترقی رک جائے گی، ملک لٹ جائے گا۔ ایسے رہنما دہائیوں سے خود پارٹی کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں یا اپنے اہلِ خانہ کو اس مسند پہ بٹھا دیتے ہیں۔ یہ کیا سمجھتے ہیں کہ انکی پارٹی انکی رجسٹرڈ لمیٹیڈ کمپنی ہے؟ کاروبار ہے؟ اور کیا عوام بھیڑ بکریاں ہیں جنکو وہ ہی ہانک سکتے ہیں؟ کیا وجہ ہے انکی پارٹی کے باقی لیڈر سالہا سال کے تجربے کے باوجود اس قابلِ نہیں ہو پاتے کہ انہیں پارٹی کی باگ دوڑ دی جائے۔ باقیوں کو چھوڑیں، اس ذہنی بیماری کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ اندازِ سیاست میں انقلاب کا داعی ایک مقبول رہنما خود روزِ اول سے اپنی پارٹی کا چئیرمین ہے اور اسکو اپنی سیاسی جدوجہد کا نام دیتا ہے۔
یہ آمرانہ انداز صرف اقتدار میں رہنے کا ڈھکوسلہ ہے۔ ایک دفعہ مسندِ رہنمائی پہ مسلط ہو جائیں تو موت ہی دورانیہ متعین کرتی ہے۔ بلا تفریق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹّے ہیں۔ انکو ایک آنکھ میچ کر بغور دیکھیں تو تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
عموماً انکا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ رہنما اپنی قوتِ کردار پہ نہیں مخالفین کی کردار کشی پہ ہی عوام کو بد ظن کرتے ہیں۔ دوسروں کی خامیاں نکال کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اکثر عوام انکے پیچھے لگ جاتی ہے کیوں کہ یہ چرب زبانی اور چالاکی سے انکو متاثر کرتے ہیں۔ سادہ لوح عوام کو لفظوں کا رومال پھینک کر لوٹ لیتے ہیں۔ عوام کو ہوش آتی ہے تو وہ لٹ چکے ہوتے ہیں۔ الزام تراشی، جھوٹ اور مکر کو سیاست سمجھنے والے رہنما اس معاشرے کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مؤجب ہیں۔ کیوں کہ رفتہ رفتہ یہی عادات عوام بھی اپنا لیتے ہیں۔
ان رہنماؤں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنی جماعت میں اختلافِ رائے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوری نظام میں اختلافِ رائے کو سلب کرنا سیاسی بدمعاشی ہے۔ مگر صد افسوس یہاں پر ایسا آمرانہ نظام ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے ممبر یا نمائندہ کو آزادی رائے کا حق نہیں دیا جاتا۔ کوئی رتی بھر بھی اپنا خیال پیش کر دے، جو لیڈرِ اعظم کو ناگوار گزرے، تو اسکی شامت آ جاتی ہے۔ اسکو حیلوں بہانوں سے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ ساتھی بھی اسکو چھوت سمجھتے ہیں اور ملنے سے کتراتے ہیں مبادا کہیں باس ناراض نہ ہو جائیں۔ وہ اپنی نظروں میں گر جاتا ہے یا گر دیا جاتا ہے۔
رہی بات عوام کے منتخب شدہ نمائندوں کی، اسمبلی ممبران کو محض مہرے بنا دیا جاتا ہے جو پارٹی لیڈر کے اشارے ابرو پہ چلنے کے پابند ہیں۔ وہ کہے ہاں تو ہاں، ناں تو ناں۔ یہ سب اپنی سوچ و فکر ایوان اسمبلی کے صدر دروازے پہ اتار کے اندر آتے ہیں۔ اصولاً تو آزادانہ رائے پیش کرنے والے ہی وہ جرائتمند عوامی نمائندے ہیں جو محض مہرے اور پارٹی لیڈر کے غلام بننے سے انکار کر دیتے ہیں ا اور ضمیر کی آواز کو لبیک کہتے ہیں۔ یہی لوگ اصل جمہوریت کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر ایسے نمائندے کا لیڈر انکا سیاسی مستقبل تاریک کر دیتا ہے۔ ان پر ایسی گھناؤنی الزام تراشی کی جاتی ہے جیسے وہ کوئی بکاؤ ہے۔ اگر خاتون ہے تو اسکو نشانہ بنانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
یہ بھی عجب تماشا کے کہ اس غریب ملک کے تمام مرکزی رہنما امرا ہیں جو بڑے بڑے مکانات میں شان و شوکت سے رہتے ہیں اور بڑی گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں گھومتے ہیں۔ انکے رہن سہن اور طور طریقے عام آدمی سے مختلف و ممیز ہوتے ہیں۔ اوّل تو وہ عام شخص سے ہاتھ نہیں ملاتے، اگر ایسا ناپسندیدہ فعل کرنا پڑ جائے تو انگلیاں بڑھانے تک ہی اکتفا کرتے ہیں۔ بڑے بڑے جغادری ورکر و رہنما جھک کر دونوں ہاتھوں سے انگلیوں کو چھونا ہی دنیا و آخرت کا حصول سمجھتے ہیں اور اسی میں عافیت اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔۔ لاچار عوام انکی دولت و دربار سے مرعوب ہوتے ہیں۔ انکے فراٹے بھرتی گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کی اڑتی دھول میں دھمال ڈالتے ہیں اور اس کو اپنی قسمت سمجھ کر اپنی آنکھوں میں بسا لیتے ہیں۔ میاں صاحب، چوہدری صاحب، خانصاحب کارکنان و چھوٹے لیڈران کو محض بلا لیں تو انکی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اور اگر ہنس کے بلا لیں تو عید ہوتی ہے۔ وہ ہنسی خوشی خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں اور رہنما دل ہی دل میں انکی سادہ لوحی پہ ہنستے ہیں۔ اور بعض اوقات یہ امرا واقعی اپنے آپ کو فیاض اور خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ ایسا سوچنا بھی دماغ کا خلل ہے۔ اور عوام ایسے خلل زدہ دماغ کے حامل کو اپنا محسن اور ملک کا مربی سمجھتے ہیں اور ملک کی باگ دوڑ انکے میلے ہاتھوں میں دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ یہ رہنما سراپا برائی ہیں۔ ان میں بہت خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ مگر انانیت انکو انسانیت سے دور لے جاتی ہے۔ اقتدار کی ہوس انکو سنگدل بنا دیتی ہے۔ سدا طاقت کا منبع و مرکز رہنے کی خواہش و کاوش انہیں جمہہوریت دشمنی پہ مجبور کر دیتی ہے۔ یہی ضد نظام کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ یہ اقتدار اور طاقت کے لئیے پلید پینترا اور حرام حربہ بھی آزما لیتے ہیں۔ گھٹیا سودا کرنے سے اجتناب نہیں کرتے اور منافقانہ منصوبہ بلاجھجھک بنا لیتے ہیں۔
ایک نہہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی سچ جھوٹ یہ قد آور بونے بولتے ہیں اسکا ہدف انکے اپنے مداح، ووٹر اور سپورٹر ہوتے ہیں۔ یہ دھول اپنوں کے آنکھوں میں پھینکی جاتی ہے۔ اور وہ مداحین سوچے سمجھے بغیر اس پر آمنا صدقنا کہتے ہیں۔ بیانیہ دراصل اپنوں کو دھوکا دینے کا ایک مجرب تیر بہدف طریقہ ہے۔ اپنی حصولِ اقتدار یا طولِ اقتدار کی ہوس کو ملک کی بقا کی جنگ یا آزادی کی جنگ بنا کر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ اچھے بھلے انسان گدھے بن جاتے ہیں۔ ایسی لایعنی اور لغو مگر چکنی چپڑی تقریریں اور تحریریں پیش کی جاتی ہیں کہ دولے شاہ کے چوہوں کو تپتی ریت بھی سر سبز گھاس لگتی ہے۔ لق و دق صحرا بھی گلستان لگتا ہے۔
اگر با شعور عوام کو اس جال کے حصار سے نکلنا ہے تو پہلے تو ان باتوں پہ غور کیجئیے اور اسکی روشنی میں اپنے اپنے رہنما کو بغور دیکھیں اور پرکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپکی آنکھوں کی دھول چھٹ جائے گی اور انکا اصل چہرہ اور مقصد صاف نظر آنے لگے گا۔ اگر آپ نے سلوک کی یہ منزل طے کر لی تو سمجھ لیں آپ صحیح راستے پہ چل نکلے ہیں۔ یہ راستہ الٹے پاؤں طے کرنا ہو گا۔ یہ فنا فی الرہنما کے دھوکے سے با ضمیر انسان بننے کا الٹے پاؤں سفر ہے۔ آپکے ننھے منے گھٹیا مفاد آپکے قدموں سے لپٹیں گے اور عین ممکن ہے آپ لڑکھڑا بھی جائیں، آخر بندہ بشر ہیں، مگر رکنا نہیں۔ سوچنا ہے۔ ضمیر، عقل اور ایمان کی روشنی آپکو گھپ اندھیرے میں بھی راہِ راست پہ گامزن رکھے گی۔ میاں صاحب، چوہدری صاحب اور خانصاحب آپکو کمی کمین بنا کر نہیں رکھ سکیں گے۔ آپ پھر نارمل انسان بن جائیں گے۔
نارمل بنتے ہی آپ نارمل انسان کو اپنا رہنما بنانا چاہیں گے جسکا نہ عالیشان گھر ہو نہ دولت و رعونت سے اسکا تعلق ہو۔ جسکا دل عوام کے لئیے دھڑکے اور وہ انکے دکھوں کو سمجھنے اور انکا مداوا کرنے کا خلوص اور اہلیت رکھتا ہو۔ ایسا رہنما ہو جو آپ پر فدا ہو آپ اس ہر فدا ہونا چاہیں۔ ایسا شخص جو عام ہو اور اپنے آپکو عام سمجھے۔ آج ہی یہ سفر شروع کر دیں تاکہ نئے انتخابات تک آپ خلوص اور حرص میں تفریق کرنے کے اہل ہو جائیں۔ رہنما اور بیانیہ کو بخوبی جانچ سکیں۔ ملک کا مستقبل آپکے ہاتھ میں ہے۔