مختلف ملکوں کی کئی کمپنیوں نے بھی ریلوے کے سب سے پہلے آغاز کے دعوے کیے،لیکن عمومی تاریخ اسے جارج اسٹیفنسن کا کارنامہ ہی سمجھتی ہے

  مختلف ملکوں کی کئی کمپنیوں نے بھی ریلوے کے سب سے پہلے آغاز کے دعوے کیے،لیکن ...
  مختلف ملکوں کی کئی کمپنیوں نے بھی ریلوے کے سب سے پہلے آغاز کے دعوے کیے،لیکن عمومی تاریخ اسے جارج اسٹیفنسن کا کارنامہ ہی سمجھتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:11
اْنھی دنوں مختلف ملکوں کی کئی اور کمپنیوں نے بھی اپنی طرف ریلوے کے سب سے پہلے آغاز کے دعوے کیے،لیکن عمومی تاریخ بہرحال اسے جارج اسٹیفنسن کا کارنامہ ہی سمجھتی ہے اور اسے بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑی کا موجداور باپ قرار دیتی ہے۔
اگلے 100 برس تک انجنوں کی بنیادی تکنیک میں کوئی فرق نہ آیا۔ ہاں زمانے کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے بہت مؤثر، طاقتور اور تیز رفتار انجن بنائے جانے لگے تھے جن کی رفتار 125 میل (200 کلومیٹر) فی گھنٹہ سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ انجنوں کی رفتار اور طاقت کے حوالے سے ان کے بڑے خوبصورت نام رکھے جانے لگے تھے۔ اسی مناسبت سے ان کی روایتی سیاہ رنگت کو بھی بدل دیا گیا اور اب جا بجا سبز، سرخ، زَرد اور ملگجی سیاہ رنگ کے انجن نظر آنے لگے۔ مثلاً برطانیہ کی ریلوے کا خوبصورت نام والا فلائنگ سکاٹس مین انجن سبز اور سنہری رنگ کا ہوتا تھا۔
ابتدا ء میں مسافر گاڑیوں کے ساتھ ہی سامان لے جانے والے کچھ ڈبے بھی لگا دئیے جاتے تھے لیکن بعد ازاں جب صنعتی انقلاب کی باتیں ہونے لگیں اور ملوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں نے بے تحاشا دھواں اگلنا شروع کیا تو بہت بھاری تعداد میں روزمرہ ضروریات کا سامان بنایا جانے لگا جس کی نہ صرف اندرون ملک تیز رفتاری سے ترسیل کی ضرورت پڑی بلکہ سامان کو دوسرے ملکوں میں روانہ کرنے کے لیے اسے بذریعہ ریل بندر گاہوں تک سرعت سے پہنچانا بھی اولین ترجیح ٹھہری۔سامان کی بڑھتی ہوئی باربرداری  کے لیے ضروری تھا کہ محض مال لے جانے والے چند ڈبے مسافر گاڑیوں کے ساتھ لگانے کے بجائے، علیٰحدہ سے مکمل مال گاڑیاں چلائی جائیں جو صرف سامان ڈھونے کے ہی کام آئیں۔
صنعت کا پہیہ اب پوری رفتار سے گھوم رہا تھا اور جگہ جگہ فیکٹریاں اور کارخانے زور و شور اور معمول سے بڑھ کر پیداوار دے رہے تھے لیکن یہاں بھی مشینوں کو چلانے کے لیے ابھی تک بھاپ کے انجن ہی استعمال ہو رہے تھے۔ہر چند کہ بعد میں بجلی کی سہولت دستیاب ہو گئی تھی، پھربھی اسے ابھی تک ریل گاڑی کے انجن میں استعمال کرنے کے لیے نہیں سوچا گیا تھا۔ اس دوران حسب سابق دْخانی انجن ریل گاڑیوں کو لے کر شہر شہر بھاگ دوڑ میں مصروف رہے۔
تب ہی یہ بھی محسوس کیا گیا کہ دْخانی انجن جو عموماً کوئلے سے چلتے تھے بہت شور مچاتے اور ایسا بدبودار دھواں چھوڑتے تھے جس میں کوئلے کے باریک ذرات کی آمیزش ہوتی تھی، جو صحت کے لیے انتہائی مْضر رساں سمجھے جاتے تھے- اسی وجہ سے ریلوے لائن کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو صحت کے معاملے میں بہت غیر محفوظ تصور کرنے لگے تھے۔
لہٰذا اس بات پر سنجیدگی سے غور شروع ہو گیا کہ کیوں نہ ریل گاڑی کے انجن کو بھاپ سے چلانے کے بجائے اسے کسی متبادل توانائی کے ذریعے حرکت میں لایا جائے۔ تب ہی کسی سائنس دان نے سر کھجایا اور یکدم اْس کا دھیان ریل گاڑی کو بجلی سے چلانے کی طرف چلا گیا۔ اس نے فوراً ہی اس منصوبے پر کام شروع کر دیا، انتہائی راز داری میں رکھنے کے باوجود یہ معلومات باہر نکل گئیں اور جب یہ خبر دوسرے ملکوں میں مقیم رقیبوں تک پہنچی تو وہ بھی دیکھا دیکھی اپنی تحقیق کی گٹھڑیاں کھول کر بیٹھ گئے اور جلد ہی عملی کام کا آغاز کرنے میں مصروف ہو گئے۔ غرض اس ساری چھان بین کے دوران خوب تجربات ہوئے اور مختلف سائنس دانوں نے کامیابیوں کے بڑے لمبے چوڑے دعوے بھی کیے، جو محض دعوے ہی رہے، کوئی عملی مظاہرہ سامنے نہ آیا-
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -