آدھی چھٹی کے وقت تختی پر”پوچا“ پھیرنے کا مقابلہ ہوتا، تختی گاچنی سے دھوئی جاتی، املا ء میں غلطی نہ کرنیوالے طالبعلم کو استاد صاحب ”ص“ دیتے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:52
اک دونی دونی دو دونی چار؛
گوجرانوالہ آئے تو میں نے گورنمنٹ ایم سی پرائری سکول نمبر 5کی چہارم جماعت میں داخلہ لیا جو گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ اس دور میں پہاڑے یاد کرنے کا بھی کمال طریقہ تھا۔چھٹی سے دس منٹ پہلے استاد صاحب مولا بخش لے کر کلاس کے درمیان میں کرسی پربیٹھ کر طلباء کو 2 گروپس میں تقسیم کر تے۔ یہ گا گا کر پہاڑے یاد کرنے کا پیریڈ شروع ہو تا۔ جھوم جھوم کر ایک گروپ پہاڑا شروع کرتا تو دوسرا اس کا اگلا حصہ گاتا۔ گا گا کر پہاڑے یاد کرنے کا یہ مقابلہ دس منٹ تک جاری رہتا۔ بہتر اوردرست گانے والے کو شاباش ملتی اور جو بار بار غلطی کرتا مولا بخش اسے ایسا درست کرتا کہ پھر بھولنا ممکن نہ ہو تا تھا۔ پہاڑے کچھ یوں یاد کئے جاتے تھے؛
اک دونی دونی دو دونی چار
تن دونی چھ چار دونی اٹھ
یوں پہاڑا آخر تک دھرایا جاتا تھا۔ 2 سے لے کر 10 تک پہاڑے آنا اور یاد رکھنا ہر طالب علم کے لئے لازمی تھا۔ یہ پہاڑے آج بھی مجھے ازبر ہیں۔اس دور میں گنتی کے چند طالب علم ہی ہوں گے جنہیں یہ پاڑے یاد نہ ہوں۔ انگریزی ہجے(spallings) بھی اسی انداز میں یاد کرائے جاتے تھے۔ مثلاً آر اے ٹی (rat)سی اے ٹی(cat)کیٹ بی اے ڈبل ایل(ball)بال وغیرہ۔ یاد آ یا آپ کو۔
قلم گاچنی اور تختی؛
یہ وہ زمانہ تھا جب بستے کپڑے کے بنے ہوتے جو عموماً گھر میں ہی تیار کئے جاتے تھے۔ کتابیں، قلم، گاچنی اور سیاہی کی دوات بستے میں ہوتی تھی اور اکثر بستوں پر سیاسی کے نشان نمایاں ہوتے۔ہاتھ میں تختی ہوتی۔ پن سے لکھنے کی اجازت ہر گز نہ تھی۔ تختیاں بھی مختلف سائز کی تھیں۔ خوشخطی کے لئے پہلے استاد اس پر کچی پنسل سے لکھتے اور بچے اس پر قلم دوات سے لکھتے تھے۔ پانچویں جماعت تک ہر بچے کے لئے تختی بطور ہوم ورک گھر سے لکھ کر لانی لازمی تھی۔ تختی لکھنے کے لئے کالی چراغ روشنائی ہی استعمال ہوتی تھی۔ سرکنڈے کے چھوٹے بڑے قلم ہو تے۔ سرکنڈے سے تراشا ہو ئے قلم کی نب کی موٹائی لکھنے وا لا اپنی مرضی سے رکھتا تھا۔ اس قلم کو تراشنا آسان نہ ہو ہوتا تھا۔ مجھے یہ قلم ابا جی ہی تراش کر دیتے تھے۔ ان کے اس شکار کے لئے استعمال ہونے والا ایک بڑا خم دار چاقو تھا جو انہیں انکل مظہر نے وزیر آباد سے بنوا کر دیا تھا۔ وہی چاقو قلم تراشنے کے کام بھی آ تا تھا۔قلم بناتے ان کا انہماک دیدنی ہو تا۔ چاقو کی دھار تیز رکھنے کا ابا جی کو خاص لگاؤ تھا۔ چاقوکی دھار انگلی سے چھو کر پرکھتے تھے۔ آدھی چھٹی کے وقت ہم جماعتوں میں تختی پر”پوچا“ پھیرنے کا مقابلہ ہوتا۔ تختی گاچنی سے دھوئی جاتی، سُکھائی جاتی اور جیسے یہ بریک ختم ہوتی اردو املاء کا پریڈ شروع ہوتا۔ املا میں غلطی نہ کرنے والے طالب علم کو استاد صاحب ”ص“ دیتے۔ یہ سب سے اونچانمبر ہوتا تھا۔تختی پر پنسل سے چار پانچ لائنز کھنچی جاتی تھیں اورخوش خطی کا مقابلہ بھی ہوتا جس کا فاتح اکثر میں ہی ہوتا تھا۔خوشخطی میں لفظوں کی گولائیاں اور نقطے کیسے لگائے گئے تھے مقابلے کے بنیادی اصول تھے۔ کبھی کبھار تختی پر پہاڑے بھی لکھوائے جاتے تھے۔ گھر کے لئے کوئی کام ملے نہ ملے تختی لکھنا لازمی تھا۔ اپنی اردو کی کتاب سے طالب علم کوئی بھی عبارت لکھ کر لا سکتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔