شکوہ…… اللہ سے ہے مجھ کو
یا اللہ اگر میری واپسی اتنی جلدی مطلوب تھی تو مجھے دنیا میں بھیجا ہی کیوں تھا؟ یہ ان بچوں کی آوازیں ہیں جو ساہیوال (پاکستان) کے ایک ٹیچنگ ہسپتال میں آگ لگنے سے شہید ہو گئے۔میں ان معصوموں کی موت کو جل کر مرنا نہیں کہوں گا، شہید ہوئے ہیں یہ بچے۔ حکومت اور اس بے حس ہسپتال انتظامیہ کے ہاتھوں پر ان بچوں کے خون کے داغ ہیں جو انہیں کبھی سکون کی نیند نہیں سونے دیں گے۔ جو چند دنوں پہلے کِھلنے والے جنت کے ان پھولوں کو بچا نہ سکے، انہوں نے ان بچوں کو ایک اچھا مستقبل کہاں سے دینا تھا؟ 13 معصوم بچوں کی زندگی چھینے جانے کا یہ واقعہ 8 جون کو ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے بچہ وارڈ کی نرسری میں پیش آیا جہاں ایک اطلاع کے مطابق 75 بچے موجود تھے۔ ابتداء میں اس واقعہ پر پردہ ڈالنے، چھپانے اور معمولی سا واقعہ ظاہر کرنے کی بے تحاشا کوشش کی گئی۔ پہلے کہا گیا کوئی نقصان نہیں ہوا، پھر کہا گیا دو بچے ”چلے گئے“ لیکن اب صرف گنتی کے چند دنوں میں مرنے والوں کی تعداد 13 ہوچکی ہے، جبکہ 16مزید معصوم پھول زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ دو بچوں کو انکی زندگیاں بچانے کے لئے لاہور منتقل کیا گیا ہے۔
ہم سب کو بخوبی علم ہے کہ پنجاب میں اگر کہیں کوئی صحت کی تھوڑی بہت سہولیات ہیں تو وہ شہر لاہور میں ہیں۔ تو کہاں گئی وہ ہماری ائرایمبولنس؟ کیا ان بچوں کو لاہور منتقل کر کے بہتر علاج معالجہ کی سہولیات نہیں دینا چاہئیں تھی؟ بہرحال یہ تو ترجیحات کی بات ہے اور یہ بچے شاید ہماری ترجیحات کا حصہ ہی نہیں تھے۔ ظلم کی انتہا ہے معصوم پھولوں کی موت کا سلسلہ جاری ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اسی ہسپتال کے اسی بچہ وارڈ کی اسی نرسری میں 2019ء میں ائرکنڈیشنڈ بند ہونے سے چھ بچے شہید ہوئے تھے، اس وقت کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اسی دن وہاں پہنچے اور انکوائری کا حکم دیا جس کی رپورٹ پانچ سال میں بھی نہیں آئی یا شاید ”سامنے“ آنے نہیں دی گئی۔ سندھ میں مٹھی کے ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے معصوم بچوں کی موت کی خبریں آ رہی تھیں۔وہاں بچوں کی نرسری میں جو سہولیات تھیں وہ دیکھ کے شرم آئی کہ ہم 21 ویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ جہاں نرس ہی نہ ہو وہاں پر کیا دیکھ بھال ہوگی وہ بھی بچوں کی نرسری میں؟ مٹھی کے بچوں کا سب سے بڑا المیہ ان کی پیدائش کے بعد انہیں مناسب غذا نہ ملنا تھا اور ہے۔ پھر وسیع و عریض صحرا میں بکھرے والدین جب اپنے لاغر، کمزور اور بیمار بچوں کو مٹھی لیکر آتے تھے تو ہسپتال انتظامیہ کو یہ کہنے کا جواز فراہم کردیتے تھے کہ بچہ جس حال میں آیا ان کے لئے اس کو بچانا بے حد مشکل تھا۔ ڈاکٹر مسیحا کہلاتے ہیں، مسیحائی پیغمبرانہ صفت ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے کہ وہ مردوں کو زندگی کر دینے کا معجزہ دکھا سکتے تھے، یعنی ہم جن ڈاکٹروں کو انکے انسانوں کی جان بچانے کی وجہ سے پیغمبر سے تشبیہ دیتے ہیں اگر وہی مریضوں اور بچوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو انہیں مسیحا کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ساہیوال حادثے کے فوراً بعد ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اختر محبوب کا موقف تھا کہ جو بچے مرے ہیں وہ پیدائشی کمزور تھے یعنی بیمار تھے، یعنی ہماری غفلت سے نہیں، مرنے والے بچے ہی اپنی موت کے ذمہ دار تھے، ”سو مر گئے“۔ ایم ایس کا یہ موقف تھا کہ ہم نے پوری کوشش کی اور کافی بچوں کو بچانے میں کامیاب رہے، انکی یہ کامیابی آج ایک ہفتے میں سامنے آئی ہے کہ 13 بچے دنیا چھوڑ کر جاچکے ہیں اور 16 مزید زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ بہرحال ہماری وزیراعلیٰ اللہ انہیں ہمت دے وہ وہاں پہنچ گئیں، پانچ دن بعد سہی مگر پہنچیں، ہوسکتا ہے انہوں نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا ہو، وہ انکوائری کمیٹی جس کے سربراہ خود ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اختر محبوب تھے۔ اب پتہ چلا ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا اور انہوں نے ایک نئی رپورٹ بنوائی۔ ہسپتال انتظامیہ سے نہیں بلکہ ساہیوال ڈویژن کی انتظامیہ سے، یعنی کمشنر کی نگرانی میں رپورٹ بنائی گئی، جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے ساہیوال کا ”فوری دورہ“ کیا اور اس ٹیچنگ ہسپتال کے پرنسپل ڈاکٹر عمران حسن خان، ایم ایس ڈاکٹر اختر محبوب اور دو ڈاکٹروں عثمان اور عمر فاروق سمیت 10 افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا لیکن ہائے حکمرانی کی مجبوریاں …… اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتا کہ کچھ کہوں گا تو ناگوار گزرے گی، پھر بات دور تک جائے گی، لہٰذا صرف چند گھنٹوں میں چاروں ڈاکٹروں کو رہا کرنا پڑگیا کیونکہ ”ڈاکٹر میدان میں آگئے“ تھے اور انہوں نے پورے پنجاب کے ہسپتالوں کی ایمرجنسی بند کرنے کی دھمکی دیدی تھی۔ سرکاری ملازم اپنی تنخواہ کے لئے احتجاج کریں تو ٹھیک، سہولیات کی کمی کو پورا کرنے کے لئے احتجاج کریں تو بھی ٹھیک، حکومت کی زیادتی کے خلاف احتجاج کریں پھر بھی ٹھیک، لیکن اپنی نگرانی میں مرنے والے بچوں کی موت پر ہونیوالی انکوائری اور اپنی غفلت کی نشاندہی پر احتجاج کریں اور دھمکی دیں کہ ہم ہسپتال بند کررہے ہیں، اب جتنے مریں گے وہ بھی تم سنبھال لینا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ بہرحال یہ حکومتی کمزوریاں ہیں۔ بتایا یہ جا رہا ہے کہ اس وارڈ میں جو آگ بجھانے والے آلات ”فائر ایکسٹینگوشز“ لگائے گئے تھے وہ اپنی مدت پوری کرچکے تھے، یعنی بے کار تھے۔ یاد رہے کہ ان فائر ایکسٹینگوشز کو مدت پوری ہوتے ہی کمپنی کو بھیج کر دوبارہ ”ری فل“ کروایا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑا ایک معاملہ جو سامنے آیا ہے اور جو پورے پاکستان کا معاملہ ہے وہ کسی کو آگ بجھانے کی ابتدائی تربیت نہ دینا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کا شکریہ کہ انہوں نے 1122 جیسا ادارہ قائم کیا، لیکن 1122 کو موقع پر پہنچنے میں کچھ وقت لگتا ہے، چند منٹ سے لیکر آدھا گھنٹہ تک، اس دوران اس جگہ پر موجود لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگ بجھانے کا کام خود کریں۔ اصولی طور پر ہسپتال کے ایم ایس کو یہ ذمہ داری نبھانا چاہئے تھی انہیں اپنے تمام ڈاکٹروں، تمام عملے بشمول نرسوں کو 1122 سے یہ تربیت دلوانی چاہئے تھی کہ یہ ”فائر ایکسٹینگوشز“ کیسے استعمال کرنے ہیں، اس کا طریقہ کیا ہے، اگر کمرے کے اندر دھواں بھر رہا ہے تو فوری طور پر کھڑکیاں کھول کر اس دھوئیں کو باہر کیسے نکالنا ہے، اگر کھڑکیاں نہیں کھلتیں یعنی فکس ہیں تو شیشے کیسے توڑنے ہیں، باہر سے اندر کی طرف نہیں اندر سے باہر کی طرف تاکہ شیشے باہر گریں، دروازے کھول دینے ہیں تاکہ دھواں نکل جائے باہر چلا جائے، لیکن وہاں یہ سب نہیں ہوا، اگر یہ تربیت پاکستان بھر کے تمام سرکاری، غیرسرکاری اداروں میں حکومت دلوا دے تو یقینی طور پہ نہ صرف قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں،بلکہ کروڑوں کا قیمتی سرکاری سامان جو جل کے ضائع ہوتا ہے، بچ جائے گا، پھر کسی ایل ڈی اے پلازہ کی تین چار منزلیں آگ کی لپیٹ میں نہیں آئیں گی، پھر کوئی کچہری اور کوئی بورڈ آف ریونیو آفس نہیں جل سکے گا۔ بہرحال یہ تو ایک لمبی بحث ہے، حکومت کو یہ کام کرنا چاہئیں۔ یہ کام کرنے ہیں، اگر یہ کام نہ کئے تو ایسے منحوس واقعات رونما ہوتے رہیں گے، اسی طرح معصوم بچوں کی جانیں جاتی رہیں گی اور ہم کہتے رہیں گے ”جو حکم میرے اللہ کا“۔