فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر429

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر429
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر429

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ذاکر حسین صاحب نے پر وفیسر سرورکو مولانا عبید اللہ سندھی کے پاس بھیج دیا جہاں وہ مکہ معظمہ میں مولانا سندھی کے ساتھ رہے۔وہاں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی اور شاہ ولی اللہ کے افکار اور فلسفے کی ترویج کے سلسلے میں بیت الحکمت کے نام سے ایک درس گاہ قائم کی توسرور صاحب کو اس کا نگراں مقرر کیا گیا۔پروفیسر سرور ۱۹۴۲ء میں پنجاب آ گئے ۔جہاں وہ کوئی ٹھوس سیاسی کام کرنے کے خواہش مند تھے۔یہاں انہیں روزنامہ’’احسان‘‘ کا مدیر مقرر کیا گیامگر اخبار کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنے کے باعث ایک سال بعد ہی اس سے سبک دوش ہو گئے۔اس کے بعد انہوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کرلیا تاکہ مولانا عبید اللہ سندھی اور شاہ ولی اللہ کے بارے میں تصنیف و تالیف کا کام کیاجائے۔انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھی کے بارے میں ایک جامع کتاب بھی لکھی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر428 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لاہور میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کا اجراہوا تو مولاناچراغ حسن حسرت اور فیض احمد فیض کے ساتھ پروفیسر سرور بھی اس کی مجلس ادارت میں شامل تھے لیکن یہ میاں افتخار الدین کا اخبار تھاجو اشتراکی نظریات کے حامی تھے۔پروفیسر سرور اختلاف رائے کے باعث مستعفی ہو کر چلے آئے اور ایک ہفت روزہ’’آفاق‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ لاہور میں ادارہ ثقافت اسلامیہ میں وہ اس کے جریدے ’’المعارف‘‘کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور تین سال تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔یہاں انہوں نے ’’ارمغان شاہ ولی اللہ‘‘ جیسی کتاب تحریر کی جسے اس موضوع پربہترین تصنیف قرار دیا جاتاہے۔علمی و ادبی خدمات پر حکومت نے انہیں’’ تمغائے امتیاز‘‘سے بھی نوازا تھا۔انہوں نے اصولوں او ر ضمیر کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کیا۔نہ ہی کبھی مصلحت کو ضرورت پر حاوی آنے دیا۔وہ اپنے صاحبزادے سلمان سرور سے ملاقات کیلئے ابوظبہی گئے تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ان کی وفات 20 دسمبر1983 ء کو ہوئی تھی۔اس طرح انہیں دیارِ غیرمیں موت کاذائقہ چکھنا پڑالیکن تدفین پاکستان ہی میں ہوئی۔
پروفیسر سرور ایک عظیم انسان،مفکر،معلم،مصنف اور تحقیقی شخصیت تھے۔مگر ہماری کوئی نالائقی دیکھیے کہ جب تک ہم نے ان کے ساتھ کام کیا ان کی مصروفیات سے لا علم رہے اور کوئی فیض نہ اٹھا سکے۔وہ بھی غضب کے سادہ اورمنکسر المزاج انسان تھے۔کیا مجال جوکسی پر اپنی علمیت،بزرگی اور فضیلت کاراز کھولا ہو۔
’’آفاق‘‘ کے ایک سالہ دور میں ہم نے انہیں جتنا دیکھا یہی محسوس کیا کہ وہ اپنے موجودہ کام سے خوش اور مطمئن نہیں ہیں۔وہ اپنے کام دیانتداری سے سر انجام دیتے تھے۔مگر سرمایہ کاروں کی مصلحتوں سے سمجھوتا کرنا ان کے لئے ممکن نہ تھا۔
یہ واقعہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ایک بار انہوں نے ہمیں اپنے کمرے میں بلایا اور چند مہمانوں کی موجودگی میں کاپی میں اغلاط پر بہت ڈانٹا۔ہم کو یہ بات بہت بری لگی۔ایک تو انہوں نے ہمیں صفائی کا موقع نہ دیا کیونکہ اس غلطی کی ذمے دارنہ تھے۔دوسرے یہ انہوں نے کئی مہمانوں کے سامنے ہمیں ڈانٹا۔ہم نے ملازمت نئی نئی شروع کی تھی۔ایسی ڈانٹ ڈپٹ کے عادی نہ تھے۔اس واقعے سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ نیوز ایڈیٹر ظہور عالم شہید صاحب ان کے پاس پہنچے اور انہیں استعفیٰ پیش کر دیا۔وہ حیران ہوئے۔ہم نے انہیں وجہ بتائی اورکہا کہ ہم کسی قیمت پربھی اب ’’آفاق‘‘ میں کام نہیں کریں گے۔یہ کہہ کر ہم نے اپنے کاغذات سمیٹنے شروع کردیے۔دل سخت اداس تھا اور ہم پر جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔اس واقعے کو ہم نے اپنی توہین جانا تھایہ دنیاوی معاملات کے نشیب و فراز سے ہمارا پہلا واسطہ تھا۔نو عمر بھی تھے۔جذباتی اور حساس بھی تھے۔اس لئے شاید بہت زیادہ اثر قبول کر لیا۔ 
ہم اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھے تھے کہ دونوں شانوں پر بوجھ محسوس ہوا ۔ سراٹھا کر دیکھا تو کرسی کے پیچھے سرور صاحب کھڑے تھے ۔ کہنے لگے ’’اتنی سی بات پر ناراض ہوگئے ۔ کیا میں تمہارا استاد اور باپ کی جگہ نہیں ہوں۔ تمہیں ڈانٹنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے ؟‘‘
ان کی اس شفقت بھری گفتگو پر ہمارا دل بھر آیا اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ وہ گھبرا گئے ۔ پاس والی کرسی پر بیٹح کر تسلی دیتے رہے اور کہا ’’مجھ سے غلطی ہوئی ۔ مجھے پہلے صورت حال معلوم کرلینی چاہیے تھی ۔ چلو۔ اب تو جو ہونا تھا ہوچکا ۔ معاف کردو۔ ‘‘
ہم اور زیادہ رونے لگے ۔ انہوں نے ٹھنڈا پانی پلایا۔ کچھ دیر تسلی دی ۔ جب ہمارا دل ذرا ٹھکانے پر آیا تو کہنے لگے ’’تم اتنی سی بات پر اتنے زیادہ ناراض ہوگئے۔ تمہیں کیا پتا کہ میں کہاں سے کیا کیا باتیں سن کر آتا تھا۔‘‘
ان کا یہ فقرہ زندگی بھر ہمیں یاد رہے گا اور ان کا مشفقانہ اور اعلیٰ ظرفی کا کردار بھی ۔ انہوں نے اس ایک فقرے سے ہمیں یہ سمجھادیا تھا کہ زندگی میں انسان کو ہر طرح کی صعوبتیں سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کسی کی زیادتی یہ سوچ کر برداشت کر لینی چاہیے۔ کہ ممکن ہے اسے اس سے بھی زیادہ زیادتی اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا ہو ۔ دوسروں کو بھی مار جن اور سہولت دینی چاہیے۔ 
سرور صاحب سے آفاق چھوڑنے کے بعد ایک دوبار ہی سرسری طور پر ملاقات ہوئی ۔ ہمیشہ محبت سے پیش آئے۔ ہماری فلمی کامیابیوں کا انہیں صرف سرسری علم تھا کیونکہ فلم سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی مگر ہماری کامیابی پر وہ بہت خو ش تھے۔ ان کی عظمت اور اہمیت کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب کہ ہمارا ان سے ساتھ چھوٹ چکا تھا اور پھر بعض واقعات اور خوبیوں کی وجہ سے ہمیشہ ہمیں یاد رہیں گے ۔ ان جیسی ہستی کے ساتھ کام کرنا ہمارے لیے واقعی بہت بڑے اعزاز اور افتخار کی بات ہے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے ۔ (جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر430 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں