درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 36

درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 36
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 36

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس گاؤں کے باشندے پہلے گاؤں والوں سے مختلف تھے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کا وعدہ کرلیا اور دوسری صبح جب ہم اپنی مہم پر روانہ ہوئے تو ان کے کئی نوجوان ہمارے ساتھ وہاں تک آئے جہاں شیر کے ملنے کا امکان تھا۔
وہاں پہنچ کر ہم نے رائفلیں لوڈ کیں اور مناسب ٹھکانوں پر بیٹھ گئے۔میرا خیال تھا یہاں ہمیں کافی دیر شیر کا انتظار کرنا پڑے گا لیکن ابھی چند ساعتیں ہی گزری تھیں کہ آسٹن چیخ اٹھا:
’’شیر!‘‘
میں نے گھبرا کر پوچھا:
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
آسٹن نے ندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 35  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’وہ دیکھو۔۔۔‘‘
آدم خور ہم سے پچاس بچپن گز کے فاصلے پر ندی کے کنارے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں غصے سے شعلے برسا رہی تھیں اور بڑی شان بے نیازی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے دم ہلارہا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
آسٹن نے فائر کرنے کے لیے جھٹ رائفل اٹھائی اور میرے منع کرتے کرتے فائر کر دیا۔
آدم خور نے ایک لمبی جست لگائی اور آسٹن پر آگرا اور اپنا بدلہ لے لیا۔
آسٹن کی ناگہانی موت پر مجھے سخت قلق ہوا۔وہ ایک خلیق اور اچھا دوست تھا۔ آدم خور جاچکا تھا۔
میں گھٹنوں میں سردیے دیر تک بیٹھا رہا۔
****
اس سانحے پر مجھے بے اختیار وہ واقعہ یاد آیگا جو ملایا کے جنگلوں میں پیش آیا تھا۔میں وہاں اپنے پرانے شکاری بزرگ سردار صاحب کے ہاں ٹھہرا تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے شیر کے شکار کی دعوت دی اور میں نے پس وپیش کیے بغیر قبول کرلی۔
دوسرے روز شام ہونے سے ذرا پہلے ہم دونوں ضروری سامان کے ساتھ جنگل کی طرف چل دیے۔
یہ سردار صاحب اپنے گاؤں کے سب سے زیادہ با اثر اور دولت مند شخص تھے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم یافتہ بھی اچھے خاصے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم جنگل میں پہنچ گئے۔ہر طرف تاریکی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔جنگل کے پر ہول ماحول میں کوئی درندہ دہاڑتا تو دہشت میں ہزاروں گنا اضافہ ہو جاتا۔
یادرہے یہ سردیوں کے دن تھے۔ میں نے اوورکوٹ پہن رکھا تھا لیکن سردار صاحب صرف تہہ بند اپنے جسم پر لپیٹے ہوئے تھے۔ میں کئی بار ان سے کہہ چکا تھا کہ آپ کوئی موٹا کپڑا لے لیں لیکن وہ بڑی شان بے نیازی سے کہتے:
’’بس بھئی مجھے یہی کافی ہے۔‘‘
خاردار جھاڑیوں میں سے ہوتے ہوئے ہم چلے جارہے تھے۔ناگاہ سردار صاحب نے مجھے ٹھہرنے کے لیے کہا۔میں نے ان کی طرف رخ کیا۔ وہ جدھر دیکھ رہے تھے، ادھر کو مشکوک شے نظر نہ آئی۔انہوں نے میرے تحیر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:
’’بھئی ہمیں مچان یہیں باندھنا چاہیے۔‘‘
میں نے بکرے کی رسی ان کے ہاتھ میں تھمائی اور ایک درخت پر چڑھ کر مچان باندھنے لگا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ایک جھاڑی سے بکرا باندھا اور پھر ہم دونوں جلدی جلدی مچان پر چڑھ گئے۔
رات اپنے پہلے مرحلے کے آخری لمحات میں تھی۔بکرا اس تاریکی اور سناٹے اور سردی میں میں میں کرکے شور مچانے لگا۔
ہم بڑی بے قراری سے آدم خور کا انتظار کررہے تھے۔پتا بھی کھڑ کا تو ہوشیار ہو جاتے۔اسی حالت میں کوئی ڈیڑھ گھنٹہ گزراہوگا کہ شیر کی ہلکی سی دہاڑ سنائی دی۔ میں مستعد ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ آچکا تھا جس کے انتظار میں ہم یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ایک خوفناک دہاڑ کے ساتھ وہ بکرے پر حملہ آور ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایسی آواز آئی جیسے کوئی چیز ذرا دیر بعد ہی بلندی سے گری ہو۔ یہ آواز سردار صاحب کی رائفل کے گرنے کی تھی۔ شایدان پر غنودگی چھا گئی تھی۔وہ آدم خور کی دہاڑ سے چونکے اور ان کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ کر زمین پر آپڑی۔
آدم خور خطرہ بھانپ کر بھاگ گیا۔ سرداراپنی غفلت پر شرمندہ تھے۔کچھ دیر بعد وہ اپنی رائفل اٹھانے کے لیے درخت پر اتر آئے۔میں نے انہیں بہت روکا، لیکن وہ نہ مانے اور اس بے تدبیری کی سزا بھگتنا پڑی۔وہ رائفل اٹھاکر پیچھے ہٹنا چاہتے تھے کہ سامنے والی جھاڑی سے آدم خور نمودار ہوا اور جست لگا کر ان پر جاگرا۔پل بھر میں ان کا قصہ تمام ہو گیا۔ میں نے کئی فائر کیے لیکن سبھی خالی گئے۔
آسٹن کی موت کا واقعہ بھی ایسا ہی اندوہناک تھا۔ بہرحال میں نے ملاح کے ساتھ مل کر اس کی قبر تیار کی اور اسے سپرد خاک کر دیا۔ گاؤں سے جو لوگ میرے ساتھ آئے تھے، ان میں سے بس ایک یہی شخص رہ گیا تھا،باقی سب فرار ہو گئے تھے۔
آسٹن کی سپرد خاک کرنے کے بعد ہم دونوں بھی گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ملاح میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ اچانک وہ چیخا اور ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی مادری زبان میں کچھ کہنے لگا۔
میں نے اس کے اشارے کی سیدھ میں دیکھا، مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔چند فٹ کے فاصلے پر ایک لاش تھی جس کا کچھ حصہ کھایا ہوا تھا۔ میں بہت محتاط ہو کر لاش کی طرف بڑھنے لگا۔ ملاح نے میری تقلید کی۔ہم چند قدم ہی چلے گئے کہ ایک خوفناک دہاڑ کے ساتھ ملاح کی چیخ ابھری۔ آدم خور ملاح پر حملہ آور ہو چکا تھا۔میں نے فوراً رائفل سنبھالی لیکن اس سے پہلے کہ گولی چلاتا،مجھے اپنے پاؤں کے اردگرد کسی نرم سی شے کی سرسراہٹ محسوس ہوئی۔نیچے نظر ڈالی تو خوف کی وجہ سے میرا برا حال ہو گیا۔(جاری ہے)

درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

آدم خور -