خان کا ”فرمان“
جناب عمران خان نے اڈیالہ جیل سے پاکستانی قوم کو حکم دیا ہے کہ وہ 24نومبر کو دیوانہ وار سڑکوں پر نکلے اور اسلام آباد کا رُخ کرے۔اُن کا کہنا ہے: ”میرے پاکستانیو،میں نے جتنا ہو سکا ملک و قوم کی خاطر ہر قربانی دی اور انشاء اللہ خون کے آخری قطرے تک آپ کی حقیقی آزادی کے لیے لڑتا رہوں گا لیکن یہ جنگ صرف عمران خان کی نہیں پوری قوم کی ہے،اگر ہم آج اِس ظلم و ستم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی،جمہور کی طاقت سے ظلم کے نظام کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے انشاء اللہ۔آج میں احتجاج کی فائنل کال دے رہا ہوں، 24نومبر کو آپ سب نے اسلام آباد پہنچنا ہے۔“ اِس ’حکم نامے‘ کا اختتام اِن الفاظ پر ہوتا ہے: ”مجھے اپنی قوم پر مکمل بھروسہ ہے اور میں یہ پیش گوئی کر رہا ہوں کہ 24نومبر کو پورا پاکستان اسلام آباد پہنچے گا، عوام کا سمندر ہر رکاوٹ اور کنٹینر کو بہا لے جائے گا۔ اِس دن یک زبان ہو کر پوری قوم کے یہی مطالبات ہوں گے،26ویں آئینی ترمیم کالعدم قرار دے کرآئین کو پرانی حالت میں بحال کیا جائے،چوری شدہ مینڈیٹ واپس ہو اور بغیر ٹرائل گرفتار سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔میرے پاکستانیو اب کی بار ہم نے اپنے مطالبات کی منظوری تک واپس نہیں لوٹتا“۔
خان صاحب کی پارٹی کے اندر اور باہر اِس ’فرمان‘ پر بحث جاری ہے۔ سب سے پہلے علیمہ خان نے اِسے قوم کے سامنے پیش کرنے کا شرف حاصل کیا،اُن کے ساتھ فواد چودھری کے برادرِ اصغر فیصل چودھری ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی تحریک انصاف کا باقاعدہ حصہ نہیں ہے۔فیصل چودھری تو کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کا جو بھی تعلق ہے،وہ خان صاحب سے ہے،وکالت کے جو فرائض انہیں سونپے گئے ہیں،وہ ادا کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں۔گویا یہ اُن کے برادرِ بزرگ فواد چودھری کا اثاثہ ہے،وہ اِس کی طرف اُلفت کی نظر سے دیکھتے چلے جا رہے ہیں لیکن اِس کی جیل سے باہر قیادت کی نظریں بدستور ٹیڑھی ہیں۔کسی دن فواد چودھری کی سیاسی فراست و مہارت بھی خان صاب کو ”ایٹریکٹ“ کر سکتی ہے اور دونوں کے درمیان پرانا تعلق بحال ہو سکتا ہے لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔اِس وقت بات یہ ہو رہی تھی کہ فیصل چودھری کی گواہی میں علیمہ خان نے اپنے برادرِ محترم کا فرمان عوام کو پہنچا دیا ہے۔ بعدازاں اُن کے ”ایکس اکاؤنٹ“ نے بھی اِس پر مہر توثیق ثبت کر دی۔خان صاحب کے دوست اور دشمن سب اِس پر بحث کر رہے ہیں۔بشریٰ بی بی نے پشاور میں پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی سے بات کرتے ہوئے انہیں ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد کا رُخ کرنے کی تلقین کی ہے، جو 10 سے پانچ ہزار افراد نہیں لائے گا وہ رکن اسمبلی ہو یا ٹکٹ ہولڈر،اُسے فارغ کر دیا جائے گا۔کہا جا رہا ہے تحریک انصاف کے کئی سینئر رہنماء اِس احتجاجی کال سے متفق نہیں ہیں،وہ اِسے تبدیل(یا منسوخ) کرانا چاہتے ہیں جبکہ بیرون ملک بیٹھے جاں نثاروں کی رائے یہ ہے کہ تاریخ ہر گز تبدیل نہیں ہونی چاہیے، حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے میدان سجانے کا وقت آ گیا ہے۔
صدرڈونلڈ ٹرمپ سے جواُمیدیں لگائی گئی تھیں،وہ مدھم تو پڑ رہی ہیں لیکن ختم نہیں ہو رہیں۔ امریکہ میں مقیم”انصافیوں“ کو یقین ہے کہ ٹرمپ اپنے دوست عمران خان کی رہائی کے لیے ضرور اقدام کریں گے۔پاکستان کے حکومتی حلقے اِس امکان کو شدت سے مسترد کر رہے ہیں۔اُن کاکہنا ہے کہ اولاً تو ٹرمپ ہمارے ریاستی امور میں مداخلت نہیں کریں گے، ثانیاً اگرانہوں نے امریکہ میں سرگرم ”عمرانی لابی“ کے دباؤ پر کوئی حرکت کر ڈالی تو بھی اسے بآسانی مسترد کر دیا جائے گا کہ خان صاحب کے خلاف مقدمات قانون کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔اگر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہوتا تو پھر اعتراض اُٹھایا جا سکتا تھا،اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنایا جا سکتا تھا لیکن سول عدالتوں میں چلنے والے مقدمات پر انگلی اُٹھانا آسان نہیں ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ کریں یا نہ کریں، عمران خان نے اپنے حامیوں کو سر پر کفن باندھ لینے کی تلقین کر دی ہے۔امین گنڈا پور مارو یا مر جاؤ کے نعرے لگا چکے ہیں، آرزو کی جا رہی ہے کہ حکومت نامی شے بھک سے اُڑ جائے،شہباز شریف نظر آئیں، نہ زرداری اور نہ ہی وہ جو سب پر بھاری ہیں۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان اور اُن کی جماعت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ایک سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا،وہ جیلمیں ہیں۔اُن کی جماعت کے کئی رہنماء اور کارکن زیر حراست ہیں لیکن اُن پر مقدمہ چل کر نہیں دے رہاوہ اگر غم و غصے میں مبتلا ہوں تو اِس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ عوام میں اُن کی پذیرائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد اُن کی دیوانی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو تحریک انصاف پہلی جماعت نہیں ہے جو انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہو۔اِس سے پہلے کئی سیاسی جماعتوں کو آزمائشوں سے گذرنا پڑا ہے۔ عمران خان پہلے سیاستدان نہیں ہیں جو قید و بند کی صعوبتیں اُٹھا رہے ہیں، متعدد سیاسی رہنما برسوں جیلوں میں رہے ہیں۔دور جانے کی ضرورت نہیں، آصف علی زرداری کو دیکھ لیجیے، انہوں نے گیارہ، بارہ سال قید کاٹی ہے۔نواز شریف نے بھی جیل کا مزہ کئی بار چکھا ہے۔بے نظیربھٹو کی شہری آزادیاں بھی سلب رہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے متعدد رہنماء خان صاحب ہی کے اقتدار میں بے سروپا مقدمات میں زندانی رہے ہیں۔اُن سب نے اپنے مقدمات عدالتوں میں لڑے ہیں یا ناخن ِ تدبیر سے گرہ کشائی کی ہے۔ کسی نے بھی سر پر کفن نہیں باندھا،لاکھوں افراد کے ساتھ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کی کوشش نہیں کی۔انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر وہ ایسی نقل و حرکت کریں گے تو اُن کے حریف محرومِ اقتدار ہو سکتے ہیں،اُن کی قسمت نہیں بدلے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی معرکہ آرائی کے نتیجے میں ایئر مارشل اصغر خان وزیراعظم نہیں بنے تھے، اقتدار جنرل ضیاء الحق کی جھولی میں آن گرا تھا، اور ایئر مارشل کو کئی سال اپنے گھر میں نظر بند رہنا پڑا تھا۔
خان صاحب کی اپیل پر لوگ کان دھر بھی لیں، لاکھوں افراد اسلام آباد پہنچ بھی جائیں، وہاں دھرنا دے بھی دیں۔(اگرچہ موسم کی شدت اور مقتدرہ کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے یہ ناممکن نظرآتا ہے لیکن اِس زاویے کو رکھیے ایک طرف، خان صاحب کے اندازے ہی کو مان لیجیے)پھر بھی حکومت کورنش بجا نہیں لائے گی، کہ ہے ”اس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد“۔خان صاحب کے جذبات، احساسات اور توقعات کے تمام تر احترام کے باوجود اُن سے یہ عرض کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ وہ ماضی ئ قریب ہی پر ایک نظر ڈال لیں۔ منتخب ایوانوں سے نکل کر سڑکوں پر انہوں نے جو بھی طاقت دکھائی ہے، اُس نے نتیجتاً انہیں کمزور کیا ہے،اگر وہ پارلیمانی سیاست کے آداب کو سامنے رکھتے تو شاید آج اقتدار کے ایوان میں براجمان نظر آتے۔جگ بیتیوں کا مطالعہ کیے بغیر خود اپنے اوپر جو کچھ بیتی ہے،اُس کا جائزہ لے لیجیے، ایک ہی سوراخ سے بار بار خود کو ڈسوانا مومن کے شایانِ شان نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)