ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
روزمرہ زندگی میں کسی سیاست دان، سرکاری افسر یاکلرک کی بے قاعدگی یابددیانتی کی کو ئی خبر ہمارے لئے معمول کی بات ہے چونکہ ہمارے اردگرد ایسا بہت کچھ ہے جس کی بناپر ہم بلا تحقیق اور ثبوت کے ایسی باتوں اور خبروں پر یقین کرلیںیا بغیر کسی ذاتی تجربہ کے خاموشی سے سن لیں اور تائید یاتردید نہ کریں ۔ اس صورت حال کا تسلسل کافی عرصہ سے قائم ہے اور سرکاری محکموں کے سخت قواعدوضوابط کی تشکیل میں بھی پالیسی سازوں پر اسی سوچ کے غالب ہونے کا احساس ہوتاہے لیکن تجربات اور مشاہدات یہ ہیں کہ اگرافراد احساس ذمہ داری سے عاری ہوں تو سخت قواعدوضوابط بھی کارگر ثابت نہیں ہواکرتے۔ معاشرے میں قنوطیت اورمنفی سوچ سرایت کرجا تی ہے۔
یقیناً ایسا ماحول نہ تو صحت مند رائے عامہ کو جنم دیتا ہے اور نہ ہی شہریوں میں اس درجہ کی حب الوطنی پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجزکا مقابلہ کرسکیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ۔اگرہماری سیاسی قیادت ملک اور معاشرے میں مثبت اور تعمیری سوچ کوفروغ دینے کاعزم رکھتی ہے تو یہ حقیقی تبدیلی کی نوید ہوسکتی ہے البتہ عوامی خدمت کے سرکاری اداروں سکولوں ، کالجوں،ہسپتالوں اور دفتروں میں بیٹھے اہلکاروں کارویہ ، احساس ذمہ داری اور کام شہریوں کی سوچ، رویوں اور معاشرتی ماحول پر بہت اثرانداز ہوتا ہے۔ ہمارے سرکاری محکموں کا یہ المیہ ہے کہ مجموعی طورپرلوگ ان سے خوش نہیں ہیں ۔ جائزکام کیلئے بھی سفارش، تعلق اور کئی اورپاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن کہیں کہیں امید افزائی کامعاملہ بھی بہت ہی حوصلہ افزااور دلپذیرہے اس کی ایک زندہ مثال ضلع گجرات کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرفیصل سلطان ہیں جن کی فرض شناسی اور عوام دوست رویہ قرآن کی اس سچائی پرہمارا ایمان پختہ کردیتاہے کہ مایوسی گناہ ہے ۔
دراصل پاکستانی قوم کی فکری بنیاد بہت مضبوط ہے اورکوئی ایسی سیاسی قیادت جس کا ویژن قوم کی مجموعی فکرسے مطابقت رکھتا ہوتووہ پاکستان کوحکیم الامت ڈاکٹرمحمد اقبالؒ کے خواب اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ویژن کے مطابق دنیاکاایک مثالی ملک بناسکتی ہے ۔ ایک اچھے مسلمان میں اللہ کاخوف اور آخرت کی فکراس کے قول و عمل میں توازن برقرار رکھتے ہیں ۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے اسی بناپرمسلم امہ کو ترکیب میں خاص کہاہے یعنی مسلمان کی تہذیب وتمدن ہی منفرد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ اپنے دور میں ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی پسماندگی کے باوجود ان سے قطعی مایوس نہ تھے ان کا پختہ یقین تھا کہ جب ہندوستان کے مسلمان کو اپنی پہچان ہوجائے گی تو محکومیت اورغلامی ان کامقدر نہ رہے گی۔ ابھی ہم اپنی پہچان کے مراحل سے گزررہے ہیں ۔
ڈی ایم اوفیصل سلطان جیسے افسران بہت اچھے مستقبل کاپیش خیمہ ہیں ان سے مل کر گمان ہوتاہے کہ معاشرتی بے چینی، بے یقینی اورقنوطیت سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں سرکاری افسروں کاکردار بڑا ہی اہم ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر نومبر میں محکمہ ایجوکیشن میں اساتذہ کے تبادلوں پر پابندی اٹھنے سے قبل ڈی ایم اوفیصل سلطان صاحب سے محکمہ ایجوکیشن اورمحکمہ صحت کے لوگ ہی واقف ہوں گے جن کا ان سے واسطہ پڑتا تھا۔جب اساتذہ کے تبادلوں کے عمل پر بہت سے اعتراضا ت ڈی سی صاحب کے نوٹس میں آئے توانہوں نے ڈی ایم او کو ذمہ داری سونپی کہ وہ ایجوکیشن اتھارٹیزکے تبادلوں کے عمل کی چھان بین کریں کام بہت مشکل اورذمہ داری کااس لحاظ سے تھاکہ اساتذہ کے تبادلوں سے متعلقہ مسائل بھی تھے ایجوکیشن اتھارٹیزکو بھی اس حوالے سے سفارشوں اورمختلف نوعیت کے اثرورسوخ کے چیلنجز کاسامناتھالہٰذا ڈی ایم اوصاحب کی چھان بین میں کسی آؤٹ آف میرٹ اقدام کاسامنے آنابعیدازقیاس نہ تھا لیکن انہوں نے کوئی سنسنی پیدانہیں کی بلکہ محکمہ ایجوکیشن کے مسائل کوسمجھااور ان کے حل میں محکمہ کی معاونت کی ۔ اساتذہ کے اعتراضات دور ہوئے ہرکوئی مطمئن تھا۔
چھان بین کے دوران ڈی ایم اوصاحب کے پاس بھی سفارشیں آناشروع ہوگئیں لیکن ان سے جو بھی ملا اس تاثر کے ساتھ واپس گیاکہ ان سے ناجائز اورآؤٹ آف میرٹ کام کہنے یاکروانے کی تو کوئی گنجائش بالکل نہیں البتہ جائز کام کیلئے کسی سفارش کی بھی ضرورت نہیں۔ درحقیقت قوت کردارسے طاقت ور منفی رویوں کو مغلوب ومرعوب کیاجاسکتاہے ۔ڈی ایم اوفیصل سلطان صاحب کاکردار، معاملہ فہمی اور خلوص نیت ان کی بہت بڑی ڈھال ہیں ان کے طرزعمل میں کارکردگی کادکھاوا، خوش آمدیا مفادپرستی کاکوئی عندیہ نہیں ملتا۔ اگرچہ میڈیاپر ان کے نام اور کام کو پیش کرنا ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ ان کی منشاہو سکتی ہے لیکن بطور صحافی راقم کی نظر میں یہ بھی درست نہیں کہ ان جیسے غیرمعمولی فکروعمل کے افسران کی مثال کو نمونہ کے طور پر پیش نہ کیاجائے ۔
2013ء میں پنجاب پراونشل مینجمنٹ سروسز میں شمولیت کے بعد انہوں نے مختلف اضلاع میں مختلف حیثیتوں میں خدمات سر انجام دیں۔
جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے کے مصداق نومبر2016ء سے مارچ 2018ء تک فیصل آباد میں بطور سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ مدتوں سے تاخیر کاشکار 1900سے زائد مقدمات نمٹائے جب انہوں نے چارج سنبھالا تو1400مقدمات سماعت کیلئے پڑے تھے جب وہ ڈیڑھ سال بعد ٹرانسفر ہوئے تو تین سو سے کچھ زائد مقدمات کی سماعت باقی تھی۔فیصل آباد میں بطور واسا مجسٹریٹ سینکڑوں مقدمات نمٹائے اور ریکوری جو سالانہ تیس پینتیس لاکھ روپے تھی اسے سوا دوکروڑ تک لے گئے۔یہ غیرمعمولی کارکردگی تھی۔ ان کا آبائی ضلع حافظ آباد ہے لیکن ان کی انسانیت اور پاکستانیت انہیں کہیں بھی اجنبیت کااحساس نہیں ہونے دیتی۔
پی پی ایم ایس میں آنے سے قبل لائف کالج حافظ آباد میں بطور لیکچرر ادارہ کے چیئرمین محمد عمران حبیب کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی کے ان پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے اس کا فیصل سلطان صاحب بہت اعتراف کرتے ہیں ۔ انہوں نے بطور ماہرتعلیم (SS) گورنمنٹ ہا ئر سیکنڈری سکول گوجرانوالہ میں بھی بہت دل لگاکرکام کیااوروہ تجربہ آج بطور ڈی ایم ا ومحکمہ ایجوکیشن کی مانیٹرنگ میں ان کیلئے بڑا مددگار ثابت ہورہاہے۔ حالیہ میٹرک کے سالانہ امتحانات 2019ء میں انہوں نے 250 سے زائد امتحانی مراکزکادورہ کیاہے اور ضلع گجرات میں بوٹی مافیاپرمکمل قابوحاصل کرلیاہے ۔
ڈی ایم او فیصل سلطان صاحب ایجوکیشن، سیاست اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں ان کی سوچ ا ور بلندتخیل و تصور سے عندیہ ملتا ہے کہ تینوں ماسٹرز کیلئے انہوں نے خوب پڑھائی کی ہوئی ہے محض امتحان پاس نہیں کئے ۔محکمہ ایجوکیشن کی مانیٹرنگ ان کی ایجوکیشن مینجمنٹ پرگرفت کاواضح ثبوت ہے۔ سیاسیات میں سیاسی نظریات اورسرکردہ ممالک کے دساتیر کا مطالعہ انسان کو قومی اور بین الاقوامی امور کوصحیح تناظر میں سمجھنے میں مدد دیتاہے اسی طرح انگریزی ادب کامطالعہ بھی انسان اورانسانی زندگی سے متعلق ایک جامع تصور کو جنم دیتاہے۔
فیصل سلطان صاحب کی سوچ اور رویے میں توازن اور معاملہ فہمی ان کے تعلیمی پس منظر کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ اس وقت ٖفیصل سلطان صاحب ضلع گجرات میں تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں جس میں 1398سرکاری تعلیمی ادارے اور ضلع بھر کے ہرسطح کے سرکاری ہسپتال شامل ہیں ان کی شفاف رپورٹس اداروں کی کارکردگی،اعلیٰ سطح پر پالیسی سازی اور ترقیاتی منصوبہ بندی کیلئے یقینی طور پر بڑی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ان کی دیگر ذمہ داریوں میں وہ جناح پبلک سکول گجرات کی اہم کمیٹیز Procurement, CurriculumاورHuman Resource کے ممبر ہیں گورنمنٹ کالج آف کامرس گجرات کی کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ فیصل سلطان صاحب جس بھی ادارے سے جس حیثیت میں منسلک ہیں اس کو ان کافائدہ ضرور ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔