ہوٹل بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع تھا آس پاس قدیم  سمندری چٹانیں دلکش منظر پیش کر رہی تھیں، اناطولیہ سیاحوں کیلیے بہت  پسندیدہ مقام ہے

 ہوٹل بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع تھا آس پاس قدیم  سمندری چٹانیں دلکش منظر پیش ...
 ہوٹل بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع تھا آس پاس قدیم  سمندری چٹانیں دلکش منظر پیش کر رہی تھیں، اناطولیہ سیاحوں کیلیے بہت  پسندیدہ مقام ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:196
ہم 4 نومبر 2009ء کو استنبول ایئرپورٹ پر اترے اور وہیں سے اناطولیہ کی پرواز پر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ خوش قسمتی سے یہ کانفرنس اسی ہوٹل میں منعقد ہو رہی تھی جہاں ہم ٹھہرنے والے تھے۔ یہ ہوٹل بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع تھا جہاں آس پاس قدیم  سمندری چٹانیں بڑا دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔ اناطولیہ سیاحوں کے لیے بہت ہی ایک پسندیدہ مقام ہے جہاں وہ لوگ معتدل موسم،  سمندری سیر و تفریح، اور مختلف تاریخی تہذیب و تمدن کے تسلسل کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے آتے ہیں۔ اسی دوران ڈاکٹر انیس الرحمٰن بھی آن پہنچے تھے اور ان کا قیام بھی اسی ہوٹل میں تھا۔ یہاں ہم ایک بار پھر اس تنظیم کے روح رواں مسٹر سومپولوس اور دوسرے ممبروں سے ملے اور کچھ پرانی یادیں تازہ کیں۔ کانفرنس شروع ہوئی تو اس بیچ کانفرنس کے اور کھانے کے وقفوں میں بھی یہ ملاقاتیں جاری رہیں۔یہاں کے تکنیکی اجلاس میں بحث و مباحثے کے لیے پیش کئے جانے والے موضوعات بہت دلچسپ اور معلومات سے بھر پور تھے، چونکہ، اس کتاب میں اس کی تفصیل دینا مناسب نہیں، اس لیے ان کی علیٰحدہ کتاب میں وضاحت کروں گا۔
وہاں کے گورنر نے کانفرنس کے شرکاء کو ایک استقبالیے میں مدعو کیا جہاں اہم سرکاری افسروں اور معززین شہر سے ہمارا تعارف کروایا گیا۔ دوسری طرف وہ ہمیں ساحل سمندر پر قائم ایک قدیم بستی دکھانے بھی لے گئے۔ یہ ایک دلچسپ دورہ تھا اور یہ بات قابل ستائش تھی کہ کس طرح ایک پرانی آبادی کو نہ صرف محفوظ کیا گیا تھا بلکہ ان میں سے چند  ایک عمارتوں کو استعمال میں بھی لایا جا رہا تھا۔
کانفرنس کے اختتام پر ہم قونیہ کی طرف نکل گئے۔ یہ شہر مرکزی انا طولیہ کے وسط میں واقع ہے۔ ماضی میں مختلف حکومتوں کا دارالخلافہ رہا ہے۔ قونیہ شہر آج بھی صوبائی دارلحکومت ہے۔
 بِشنونو از نے چہ حکایت می کُندوَز جدا ئیہا شکایت می کُند    
قونیہ کی وجہ شہرت مولانا رومؒ کا مرقدِ منور ہے۔مولانا روم خراسان میں 1207میں پیدا ہوئے – ان کا انتقال 1273میں ہوا۔ دنیا ئے تصوف میں ان کی لکھی ہوئی شہرۂ آفاق فارسی تصنیف”مثنوء معنوی“معروف بہ۔”مثنوی مولانا روم“ اہل تصوف و طریقت کے ساتھ ساتھ دنیائے علم و ادب اور جہانِ دانش میں بھی بہت مقبول ہے۔دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ہست قرآن در زبان پہلوی، مثنوی مولوی معنوء۔حضرت خواجہ فرید الدین عطارؒ کا یہ منظوم تبصرہ اس مثنوی کا تعارف کراتا ہے اور اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مولانا رومؒ  خود حضرت شمس تبریزؒ کے مریدِ با صفا تھے۔ مثنوی میں انھوں نے اپنے مرشد کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے:
ہیچ چیزے خود بخود پیدا نہ شد ہیچ آہن خودبخود تیغانہ شد
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے رومؒ تاغلام شمس تبریزیؒ نہ شد
(کوئی چیز خودبخود پیدا نہیں ہوتی، کوئی لوہا خود بخود تلوار نہیں بنتا، مولوی کو مولائے روم بننے کے لیے شمس تبریزیؒ جیسے عارف اور مرد باکمال کو مرشد ماننا پڑتا ہے)
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -