ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے واشنگٹن میں کوششیں تیز مگر کس نے کیا کردار ادا کیا؟ مبینہ تفصیلات سامنے آگئیں
نیویارک (ویب ڈیسک) امریکہ میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے واشنگٹن میں کوششیں تیز تر ہو گئی ہیں اور اس بارے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے بھی روزنامہ دنیا میں چھپنے والے اپنے کالم میں بھی روشنی ڈالی ہے ۔
انہوں نے لکھا کہ ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) کی قیادت نے گزشتہ ہفتے کیپٹل ہل واشنگٹن میں پاکستانی وفد کی کئی اہم سینیٹرز اور ممبرانِ کانگریس کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔ عالمی شہرت یافتہ وکیل کلائیو سمتھ نے گزشتہ دو برس کے دوران پاکستان اور افغانستان کے دورے کیے اور امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ کیس سے متعلقہ دستاویزات کا تحقیقی مطالعہ کیا اور صدر جوبائیڈن کے نام ایک اپیل مرتب کی‘ جسے وائٹ ہاؤس میں پیش کر دیا گیا ہے۔
رواں برس اکتوبر میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے ایک اثر انگیز خط صدر جوبائیڈن کے نام لکھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2010ء سے نیو یارک کی عدالت کی طرف سے دی جانے والی 86سالہ قید بھگت رہی ہیں، اس سزا میں پیرول کی سہولت بھی میسر نہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نے رخصت ہونے والے امریکی صدر کو اپنے خط کے آخری پیراگراف میں نہایت درد مندی سے باور کرایا کہ جب کوئی امریکی بیرونِ ملک کہیں زیر حراست ہوتا ہے تو آپ اس کی رہائی کے لیے دل و جان سے کوشش کرتے ہیں۔ ایک وزیراعظم کی حیثیت سے میرا بھی یہ مقدس فریضہ ہے کہ میں اپنے مصیبت زدہ شہری کی دگرگوں حالات سے نجات کے لیے ہر ممکن کاوش کروں‘۔
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے مزید لکھا کہ ’دس پندرہ روز سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا کلائیو سمتھ اور ماریہ قاری نے کیپٹل ہل میں کئی اہم شخصیات سے مل کر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں تیز تر کر دی ہیں، اس دوران پاکستان سے آئے ہوئے سرکاری وفد کے سینیٹر اور ڈاکٹرز بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ گزشتہ ہفتے اکنا کے صدر ڈاکٹر محسن انصاری کی قیادت میں اس تنظیم کے کئی اہم ذمہ داران بھی واشنگٹن پہنچے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر آصف جان‘ بیرسٹر اعجاز عارف اور ممتاز پاکستانی بزنس مین طاہر علی جاوید کے صاحبزادے ابراہیم جاوید بھی رہائی کی کوششوں کو مؤثر بنانے کے لیے واشنگٹن گئے تھے۔
ڈیلس سے اس وفد میں شامل ایک ممتاز پاکستانی ڈاکٹر نے کیپٹل ہل میں کی جانے والی ملاقاتوں کی تفصیلات سے اس شرط پر آگاہ کیا کہ ان کا نام نہ لیا جائے۔ واشنگٹن میں کئی امریکی سینیٹروں اور ممبرانِ کانگریس سے ملاقاتیں طے کرانے میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے اہم عہدیدار طاہر علی جاوید اور اُن کے صاحبزادے کا کلیدی کردار ہے‘ تاہم امریکہ میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جانے والے سرکاری وفد کے لیے امریکی قانون سازوں سے ملاقات کا کوئی بندوست نہیں کیا تھا‘۔
ایک معاصر انگریزی اخبار کے مطابق حیران کن بات یہ ہے کہ سفیر محترم عین انہی دنوں امریکی ارکانِ سینیٹ و کانگریس سے حکومت کے جمہوری امیج کو بہتر بنانے کے لیے ملاقاتیں کرتے رہے مگر انہوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوئی بات نہیں کی، اکنا کا وفد واشنگٹن میں سینیٹر کرس وان ہولن سے ملا جنہوں نے اکنا کی قیادت کو بتایا کہ وہ صدر کے نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں اور وزیراعظم پاکستان کے مکاتیب کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عافیہ صدیقی کیس کا بھی بنظر عمیق جائزہ لے چکے ہیں۔ اس سینیٹر نے وفد کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا اور پاکستانی وفد کی امریکی اٹارنی جنرل سے بھی نہایت مفید و مؤثر ملاقات ہوئی۔ علاوہ ازیں اکنا کے دیگر ممبران کی پاکستانی وفد کے ہمراہ سب سے اہم ملاقات ڈیمو کریٹک پارٹی کی کانگریس رکن الہان عمر سے ہوئی۔ الہان رحم کی اپیلوں پر غور و خوض کرنے والے چار رکنی سرکاری کمیشن کی رکن ہیں۔ رپورٹ کے راقم ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس سے پہلے زوم پر الہان عمر سے عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ اور ڈاکٹر فوزیہ کی بات چیت ہو چکی تھی۔ الہان نے پاکستانی وفد کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ سے بھی ایک خط وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے صدر کے نام لکھوائیں جس میں انسانی بنیادوں پر رحم کی درخواست کی جائے‘۔
کالم نویس نے مزید لکھا کہ’ کانگریس رکن الہان عمر نے وفد کو اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے اچھی خبریں بھی دیں، کانگریس مین ایلگرین نے وفد کی درخواست پر فوری طور پر ملاقات کے لیے وقت نکالا۔ وہ پہلے ہی تفصیلی طور پر ڈاکٹر عافیہ کیس کا مطالعہ کر چکے تھے۔ انہوں نے کوئی بلند بانگ وعدہ تو نہیں کیا مگر ان کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ مظلوم کا ساتھ ضرور دیتے ہیں۔
اکنا کی قیادت میں پاکستانی وفد نے کیپٹل ہل میں کانگریس مین ہینک جانسن سے بھی ملاقات کی، مسٹر جانسن نے بھی وائٹ ہاؤس سے فوری رابطہ کرنے کا وعدہ کیا۔ اکنا کے صدر ڈاکٹر محسن انصاری نے پاکستانی وفد کے لیے ایک عشائیہ کا اہتمام کیا تھا جس میں وفد کے تمام ممبران سینیٹر بشریٰ بٹ‘ سینیٹر طلحہ‘ ڈاکٹر اقبال‘ وکیل کلائیو سمتھ اور معاون وکیل ماریہ قاری اور اکنا وفد میں شامل تمام اشخاص نے شرکت کی۔ ڈنر کے موقع پر تمام شرکا کے درمیان اگلے دو تین ہفتوں میں رہائی کی کوششوں کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی طے کر لی گئی۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام شرکا مسلسل رابطے میں رہیں گے اور پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ وکیل کلائیو سمتھ اور پاکستانی وفد کے تمام ممبران نے فورٹ ورتھ جیل ٹیکساس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بھی ملاقات کی اور انہیں رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا‘۔
ان دنوں امریکہ میں کرسمس کی طویل تعطیلات ہونے والی ہیں اس لیے یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی پاکستان سے مزید سینیٹروں کے ہمراہ اور وکیل کلائیو سمتھ جنوری کے پہلے ہفتے میں واشنگٹن پہنچ جائیں گے اور رحم کی اپیل کی منظوری کے لیے وائٹ ہاؤس تک رسائی رکھنے والے امریکی قانون سازوں سے رابطوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوششیں مزید بڑھائیں گے۔
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے تجویز بھی دی اور لکھا کہ ’’ ہماری تجویز یہ ہو گی کہ اوائل جنوری میں پاکستان سے آنے والے سینیٹروں کے وفد کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے سینیٹر عرفان صدیقی‘ سینیٹر مشاہد حسین سیّد اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کو بھی شامل کیا جائے۔ ہماری یہ استدعا بھی ہو گی کہ اکنا کے ساتھ ساتھ پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ''اپنا‘‘ بھی بڑھ چڑھ کر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے اپنے روابط کو استعمال کرے، آخر میں ہماری ساری پاکستانی قوم سے درخواست ہو گی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے نہایت عاجزی و درد مندی سے اللہ کے حضور دعا کریں کہ اصل فیصلے تو آسمانوں سے صادر ہوتے ہیں‘۔