پاکستان کا پہلا انٹرنیشنل ہاکی فیسٹول
میرے اس مضمون یا میری آپ بیتی کے پس منظر کووہ لاہوری صاحبان زیادہ پسند کریں گے جو اپنی عمر کی کم ازکم 65 بہاریں دیکھ چکے ہوں ۔ نوجوان نسل کے لئے یہ مضمون بھی دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ اُنہیں معلوم ہو گا کہ 1980ءتک ہم ہا کی کے سٹار تھے۔ ورلڈ کپ ہاکی کی شروعات 1971ءمیں پہلی مرتبہ بارسلونا( سپین) میں منعقد ہوئی تھیں۔ 60ءاور80ءکی دھائی تک ہاکی کے کھیل کی دنیا میں، پاکستان کا نام سورج کی طرح روشن تھا۔ پاکستان 1960ء، 70ءاور 80ءکی دھائی میں پانچ ورلڈ کپ جیت چکا تھا۔1960ءاٹلی کے شہر روم اولمپکس میں پہلا کپ ہمارے ملک نے جیتا پھر 1969ءمیں لاس اینجلس (امریکہ)کی اولمپکس میں،ہاکی کو بطور ایک الگ سپورٹس کے 1969ءمیں ہی انٹرنیشنل کھیل کی شناخت مل گئی تھی۔ جس طرح FIFA فٹ بال کے لئے ہے اِسی طر ح ہاکی کے کھیل کو بین الاقوامی حیثیت FIHکے نام سے مل گئی، اس کا ورلڈ کپ ٹوررنامنٹ 1971ءمیں پہلی مرتبہ ہونا تھا۔
1969ءمیں پاکستان ہاکی کا چیمپئن تھا۔ ائیر مارشل نور خان پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کامیاب صدر اور مغربی پاکستان کے گورنر بھی تھے۔ جنرل یحییٰ کا مارشل لا لگ چکا تھا۔ ائیر مارشل نور خان نے 1971ءورلڈ کپ کی تیاری کے لئے لاہور میں انٹرنیشنل ٹورنامنٹ فیسٹول منعقد کرنے کا پروگرام بنایا ۔ اس فیسٹول میںدنیا کی 10 چیمپئن ٹیموںکو مدعو کیا گیا۔ اُن کے آنے جانے کا ہوائی ٹکٹ، ہوٹل میں رہائش، کھانا ، ٹرانسپورٹ PHFنے مہیا کرنی تھیں۔ حبیب بینک کے اُس وقت کے MD رشید ڈی حبیب نے ہاکی فیسٹول کے تمام اخراجات ، Under write کرنے کی پیشکش کی جس کا مطلب تھا کہ فیسٹول مکمل طمطراق سے ہوگا۔ تمام اخراجات اور فیسٹول سے جو آمدنی ہو گی وہ سیٹھ رشید حبیب کی ہوگی۔ مختصراً نور خان صاحب کوہاکی فیسٹول کے اخراجات کی گارنٹی مل گئی۔ رشید حبیب صاحب نے حبیب بینک لاہور کے جی ایم جن کا نام مہر علی برلاس تھا، تمام انتظامات کرنے کا حکم دیا۔ مَیں حبیب بینک میں اُس وقت کنٹرولر آف برانچزکے عہدے پر فائز تھا۔ 1967ءمیں سوِل سروس (بطور A.C. Sialkot)سے سبکدوش ہو کر حبیب بینک کی ملازمت میں آگیا تھا۔بینک کے جی ایم اور میں نے ائیر مارشل نور خان سے گورنر ہاﺅس میں ملاقات کی اور اُن سے جو ہدایات ملیں اُنہیں نوٹ کیا۔ برلاس صاحب نے اس فیسٹول کے دوران مجھے Point man مقرر کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ برلاس صاحب نے ہی مجھے بینک ملازمت کی ترغیب دی تھی اور اُنہوں نے ہی مجھے رشید سیٹھ کے سامنے پیش کیا تھا۔ ظاہر ہے برلاس صاحب نے غائبانہ طور پرمیری©”گٹھاس“بنائی ہو گی تب ہی تو مجھے بہت زیادہ Perks اور تنخواہ کی و جہ سے سوِل ملازمت چھوڑنی پڑی۔ برلاس صاحب اور میَں نور خان صاحب سے ملنے گئے تو کرنل دار ا ، بریگیڈئیر عاطف من©ظور، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لاہور بھی اس میٹنگ میں شامل تھے جب ہم اُٹھنے لگے تو نورخان صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے۔ Were you in Air Force میَں نے ہاں میں جواب دیا۔اُنہوں نے فوراً دوسرا اور تیسرا سوال پوچھا کہ تم 1958ءمیں سی ایس ایس کے اِمتحان کے سلسلے میں اپنا داخلہ فارم مجھ (نور خان)سے دستخط کروانے لائے تھے، پھر تم میرے پاس PIA میں بھی آئے تھے۔ شائد 1959ءیا 1960ءمیں نور خان صاحب کی اتنی باریک یادداشت پر مجھے حیرانی ہوئی اور خوشی اس بات پر ہوئی کہ اُنہوں نے میرے جی ایم برلاس صاحب کے سامنے میری اچھی خاصی تعریف کر دی۔ نورخان صاحب کو میَں نے مختصراً بتایا کہ میرا سی ایس ایس کا رزلٹ بہت تاخیر سے آیا تھا۔ ائیر فورس سے سبکدوشی کے بعد بیکار تھا۔ میَں نے PIA میں بطور فلائیٹ سٹورڈ ملازمت آپ کے ہی توسّل سے حاصل کی تھی۔1960ءمیں میرا تقررنامہ برائے ٹریننگ موصول ہو گیا۔ میَںنے PIA کی ملازمت 10 ماہ بعد چھوڑ دی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ائیر مارشل نور خان اور برلاس صاحب کی وجہ سے 1969ءکے ہاکی فیسٹول کا میں اہم انتظامی رکن بن گیا کیونکہ نورخان صاحب کے منہ سے میرے بارے میں اچھے کلمات کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے بھی سُنے۔ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے شیخ ابرارالحق اے آئی جی پولیس اور فضل محمود ڈی آئی جی پولیس جو پاکستان کے مایہ ناز خوش شکل کرکٹ کے کپتان رہ چکے تھے، وہ بھی میٹنگ میں موجود تھے۔فیسٹول کے اخراجات بھی میرے ذریعے ہی ہونے تھے، اس لئے میری زیادہ اہمیت ہو گئی۔ہوٹل انتظامیہ کے لئے بھی اور پی ایچ اے کے عہدےداروں کے لئے بھی۔
ورلڈ کپ ہاکی ٹرافی کی سوچ ائر مارشل نور خان صاحب کی تھی۔ پہلے تو ٹرافی کے ڈیزائن کا مرحلہ آیا۔ اس ٹرافی کو پاکستان کے نامور مصور بشیر موجد صاحب (مرحوم)نے ڈیزائن کیا تھا۔ چونکہ اس میچ کو Under write حبیب بینک کے چیف ایگزیکٹو نے کیا تھا، اس لئے میں نے اور برلاس صاحب نے پروگرام بنایا کہ ہاکی سٹیڈیم میں اشتہارات کا ٹھیکہ بینک کے پاس ہو گا چونکہ گورنر نور خان ہماری بات کو اہمیت دیتے تھے اُنہوںنے بطور چیرمین پاکستان ہاکی فیدریشن ہمیں اشتہارات Displayکرنے کی اجازت دے دی۔ فیسٹول شروع ہونے میں صرف50 دن رہ گئے تھے۔ دراصل اس فیسٹول کی میزبانی کا فیصلہ تو 1968 میں ہی ہو گیا تھا۔ 50 دِنوں میں ہم نے ہاکی کے Souvenirs بنوانے تھے، بروشرز چھپوانے تھے، کرسیوں کا اِنتظام کرنا تھا۔ سٹیڈیم کے اندر جو ٹکٹ گھر بنے ہوئے تھے وہاں ہم نے حبیب بینک کے دیانت دار اور دھیمے مزاج والے اُفسروں کو تعینات کرنا تھا۔ بھٹو صاحب کی پارٹی کے نوجوان Followers سے خدشہ تھا کہ وہ سٹیڈیم میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے، پولیس کے قابو نہیں آئیں گے اور دنگا فساد ہونے کا ڈر تھا۔ برلاس صاحب مجھ پر زیادہ ہی بھروسہ کر بیٹھے تھے اور اِدھر مجھے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے دن رات کام کرنا پڑا۔ میَں نے ڈی آئی جی فضل محمود اور اے آئی جی شیخ ابرارالحق کو بڑی لحاظ داری کے ساتھ، بروشر چھپوانے کا کام ، بروشرز کے لئے اُن کے اپنے ذرائع اور اثر و رسوخ سے اِشتہارات حاصل کرنے کا کام اور سٹیڈیم میں لاءاینڈ آرڈر کاکام سونپ دیا بلکہ کرسیوں اور وی آئی پی انکلوژر کا اِنتظام بھی اُن کو ہی دے دیا۔ اِشتہارات کی پیشگی ادائیگی لینی ہو گی اور وہ حبیب بینک میں خصوصی طور پر کھولے گئے اکاﺅنٹ میں جمع ہوگی۔ میَں نے پولیس والوں کے ہاتھ یہ کہ کر باندھ دیئے کہ بروشر کی چھپوائی کے اخراجات اُس وقت دیئے جائیں گے جب میراا ٓدمی (بینک ملازم) اشتہارات کی پیشگی وصولی کی تصدیق کر دے۔ فیسٹول کے لئے ٹکٹ چھپوائے گئے جن پر حبیب بینک اور پی ایچ اے کا لوگو بنایا گیا۔ مجھ سے کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، آئی جی پولیس اور ہاکی فیڈریشن کے عہددےداروں کی طرف سے 5000 اعزازی پاس دینے کی فرمائش کی گئی۔ میَں اِن لوگوںکی نظر میںایک عام سا بینک کا افسر تھا۔ پہلے پہل اُنہیں شائد توقع تھی کہ اُن کی ہر بات میں مان جاﺅں گا یا اُن کے دفاتر میں خود سے جا کر مشاورت کروں گا۔ میَں نے ایسا نہیں کیا۔ گورنر اور ہاکی فیڈریشن کے صدر ائیر مارشل نور خان کی پشت پناہی مجھے حاصل تھی۔ میں نے اعزازی پاسوں کی تعداد کم کر کے 3000 کروا دی اور کمشنر صاحب سے درخواست کی کہ وہ اعزازی پاس اپنی نگرانی میں تقسیم کروائیں۔ اس طرح میَں بڑی جھک جھک سے بچ گیا۔
ہوٹل کے تمام کمروں کی بکنگ 15 روز کے لئے پہلے ہی حبیب بینک اِنٹرکان برانچ مینجر نے کروالی تھی۔ ہوٹل کے تمام بِلز کی ادائیگی روزانہ بینک برانچ کرتی تھی لیکن پہلے مجھ سے اپروول لے کر۔ اُس زمانے میں میری رہائش گلبرگ میں تھی۔ فیسٹول سے دو روز پہلے تک تمام اِنتظامات ہو چکے تھے۔ سٹیڈیم کے تمام Entry gates پر میَں نے اپنے ہی بینک کے سمارٹ ، خوش اِخلاق اور ٹھنڈے مزاج کے افسروں کو تعینات کیا کونکہ مجھے متواتر خوف تھا کہ بھٹو صاحب کی شوشلسٹ فلاسفی سے سرشار نوجوان کا مریڈز Gate crash نہ کرد یں یا پولیس سے لڑائی مول لے کر فیسٹول کو بلوہ گردی میں نہ تبدیل کر دیں۔ اس کے لئے پہلے تو میں نے یہ کام کیا کہ سٹیدیم کے تمام انٹری گیٹ سے پولیس کو ہٹوا کر دور کھڑا کر دیاکیونکہ اُن دِنوں پولیس اور پیپلز پارٹی کے جیالوں میں کسی وجہ سے بھی لڑائی ہو جاتی تھی۔ میَں نے اپنے لڑکوں کی ٹکٹ ونڈوز پر بھی ڈیوٹی لگائی اور Gates پر بھی اور اُنہیں ہدائت کی کہ وہ نوجوا ن شا ئقین کے ساتھ بڑے احترام لیکن Bussiness like طریقے سے پیش آئیں۔اگر وہ جئے بھٹو کا نعرہ لگائیں تم بھی زیادہ شور سے نعرہ لگاﺅ۔
کیا وہ دِن تھے ۔ پاکستان ہاکی کے giants حیات تھے، خالد محمود، ملک اَسد ، اصلاح الدین، منیر ڈار، ذکاءاللہ ، تنویر ڈار، رشید جونیئر، چوہدری غلام رسول، (اختر رسول کے والد)سمیع اللہ، حمیدی، نصیر نبدہ، سلیم شیروانی، شہناز شیخ، حبیب کڈی، (1969ءکے کپتان ) اب معلوم نہیں اِن میں سے کون کون حیات ہے اور کس حال میں ہیں۔مجھے یاد ہے شہناز شیخ، تنویر ڈار، اسد ملک اور سلیم شیروانی تو اس فیسٹول میں پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے۔ یہ سب ہمارے ہیروز تھے۔ اُس وقت کئی کھلاڑی تو ہاکی سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ لیکن فیسٹول کے دِنوں میں لاہور آئے ہوئے تھے۔ اُن کے دو پہر کے کھانے کے ہوٹل بل بینک نے ادا کئے ۔
اس یادگار فیسٹول کے دوران مجھے پاکستانیوں کے نددیدے پن اور مفت خوری کی جبلت سے بھی شناسائی ہوئی۔ ہوٹل کا بل روزانہ کی بنیاد پر ادا کیا جاتا تھا، میرا برانچ منیجر تمام بلز ہر کمرہ نمبر کے مطابق لاتا تھا اور مجھ سے اپروول لے کر رقم ہوٹل کے اکاﺅنٹ میں کریڈٹ کر دیا کرتا تھا۔ فیسٹول کا شائد دوسرا یا تیسرا دن تھا کہ میَں نے بل کے ساتھ جو کھانے پینے کے اخراجات اور روم سروس کے اخراجات کی دستخط شدہ Slips ہوتی ہیں، اُن پر میری نظر پڑی ۔ ایک ایک کمرے کی Room service سلپس دیکھنے سے معلوم پڑا کہ جو کمرے پاکستانی کھلاڑیوں ، منیجروں اورPHF کے عہدے داروں کے لئے مخصوص تھے ، اُن کمروں میں Beer اور بلیک لیبل شراب اور ہوانا کے قیمتی سگار بھی منگوائے گئے۔ ایک ایک کمرے میں دو افراد کی جگہ 8/10 کھانے مزید منگوائے گئے۔ میَں یہ بتاتا چلوں کہ میَں نے تحریری آرڈر ہوٹل اِنتظامیہ کو دیا ہوا تھا کہ حبیب بینک شراب اور سموکنگ کے اخراجات نہیں دے گا۔ لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ ہر کمرے کے لئے کھانا صرف دو افراد کے لئے بذریعہ روم سروس جائے گا۔ پاکستانی دو ٹیموں کے اور PHF کے عہدے داروں کے لئے 30کمرے مختص کئے گئے تھے جبکہ باہر کی ٹیموں کے لڑکوں اور اُن کے منیجروں کو ایک ایک کمرہ الاٹ کیا گیا تھا۔ باہر کی ٹیموں کے کمروں سے شراب یا سگارکا کوئی بل نہیں آیا تھا۔
فیسٹول کے اختتام پر حبیب بینک نے الوداعی دعوت پر تمام ٹیموں ،لاہور ، اِنتظامیہ کو گورنر ائیر مارشل نور خان اور لاہور کے مارشل لاءسیکٹر کمانڈر کو اور لاہور کے کور کمانڈر ، ڈویژنل کمانڈر کو مدعو کیا تھا۔ وہاں ٹرافی اور میڈل دیئے گئے۔ یہ 1969ءوالی پاکستان کی بنائی ہوئی ٹرافی اب ورلڈ کپ کی ٹرافی بن چکی ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو نہیں معلوم کہ کسی زمانے میں پاکستان کھیلوں کا بادشاہ تھا۔ ہمارے ملک کو نظر ہی لگ گئی۔ ہر شعبہ انحطاط پذیر ہے۔