دخانی انجن عجائب گھروں میں رکھ دئیے گئے، سٹیم انجن کی خوبصورت سیٹیاں بھی خاموش ہو گئیں اب ہر طرف ڈیزل انجن چیختے چنگھاڑتے پھرتے تھے
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:12
آخر کار 1830 ء کی دہائی میں سنجیدگی سے کچھ اکتساہی اقدامات اٹھائے گئے۔ پھر1837ء میں انجن کو وزنی بیٹریوں پر چلا کر دیکھا گیا لیکن کوشش کے باوجود اس کی رفتار دو تین کلومیٹر فی گھنٹے سے زیادہ نہ بڑھ سکی، جو ایک پیدل چلتے ہوئے انسان جتنی بھی نہیں تھی۔بہرحال اس پر کام ہوتا رہا۔1841ء میں اسی ٹیکنالوجی کی اساس پر ایک بڑا انجن بنایا گیا جس کی رفتار کچھ بہتر تھی تاہم مکمل طور پر ریل گاڑی اب بھی بجلی پر منتقل نہ ہو سکی۔
جرمنی کی مشہور کمپنی ”سیمین“ نے بھی 1879ء میں برلن شہر کے اندر بجلی سے ریل گاڑی کو چلانے کے کچھ کامیاب تجربات کیے، شروع میں ٹرام نما اس گاڑی کی پٹریوں کو ڈی سی کرنٹ کے ذریعے بجلی پہنچائی جاتی تھی جو دو پٹریوں کے بیچ میں ایک اضافی پٹری کو دی جاتی جہاں سے انجن ایک کنڈے کے ذریعے بجلی حاصل کرکے انجن میں نصب موٹریں چلاتا تھا اور یوں یہ گاڑی ہلکی رفتار میں اپنے مقررہ روٹ پر چلتی رہتی تھی۔ بعد ازاں اس کی حد رفتار 13 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو گئی تھی جو شہر کے اندرآمدورفت کے لیے مناسب تھی۔ تاہم تیز رفتار بجلی کی گاڑی کا ارتقاء ابھی سائنس دانوں کا ایک ادھورا خواب تھا جس پرکام ہوتا رہا۔
بہر کیف یہ مسئلہ مئی 1881ء میں جا کر حل ہوا، جب بجلی کے بلب اور سینماکے موجد امریکہ کے تھامس ایڈیسن نے2 ڈبوں پر مشتمل چھوٹی سی گاڑی کو برقی انجن سے دوڑایا۔ اس کے لیے برقی رو کی مسلسل فراہمی کی خاطر خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، اس کی یہ جہدِ مسلسل بالآخر برقی انجن سے چلنے والی ایک شا ندار گاڑی کے آغاز پر مکمل ہوئی۔
اسی دوران یار لوگوں نے ریلوے انجن کو لوکوموٹیو(Locomotive) کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے بھاپ کے انجنوں کو اسٹیم لوکوموٹیو، اور برقی انجنوں کو الیکٹرک لوکوموٹیو کہا جانے لگا۔(ہم لوگوں کے مْنہ پر چونکہ انجن کا لفظ ہی چڑھا ہوا ہے اس لیے ہم اس کو محض انجن ہی کہیں گے۔ البتہ جہاں کہیں مناسب لگا تو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اس کو لوکوموٹیو کے نام سے بھی پْکار لیں گے۔)
اب 2 اقسام کے انجن گاڑیوں کو اپنے پیچھے لگا کر چل رہے تھے، ایک تو وہی روایتی بھاپ والے انجن اور دوسرے نئے نئے آنے والے بجلی سے چلنے والے الیکٹرک لوکوموٹیو۔لیکن اس کیساتھ ساتھ اندر ہی اندر ایک تیسری قسم کے انجن پر بھی 1912ء سے سنجیدہ نوعیت کا کام ہو رہا تھا، یہ ڈیزل انجن تھا۔ ایسے انجن کا تصور سب سے پہلے ایک جرمن انجینئر اور موجد روڈلف ڈیزل نے 1893ء میں پیش کیا تھا، بعد ازاں اسی کے نام کی مناسبت سے اس کا نام ڈیزل انجن رکھاگیا۔ اس میں استعمال ہونے والے ایندھن کی اس قسم کا نام بھی اْسی کے نام پر ڈیزل رکھ دیا گیا جو آج بھی مستعمل ہے۔
مسلسل تجربات کے بعد 1930ء کی دہائی میں یہ طے پایا کہ ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کرکے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ ایک تو یہ لاگت میں پیٹرول کی نسبت بہت سستا پڑتاتھا۔ دوسرا اس سے چلنے والا لوکوموٹیوبہت طاقت ور اور طویل مسافت کے لیے بے حد موزوں تھا۔
مختلف تجربات کے بعد اس تجویز کو قابل عمل پا کر امریکنوں نے سب سے پہلے اسے اپنانے کا فیصلہ کیا اور حکام کی جانب سے رفتہ رفتہ تمام روایتی اسٹیم انجنوں کو ڈیزل لوکوموٹیو سے تبدیل کرنے کا منصوبہ منظورہوگیا۔یہ سلسلہ 1935ء سے شروع ہوا اور 1960ء تک دْخانی انجن رفتہ رفتہ امریکہ سے ناپید ہو گئے اور ان کی جگہ ڈیزل انجنوں نے لے لی۔ اس طرح ایک صدی سے زیادہ ساتھ نبھانے والے دخانی انجن متروک قرار پائے اوراب وہ محض عجائب گھروں میں سجا بناکر رکھ دئیے گئے یا پھرسیاحوں کی سیر و تفریح کے لیے ہی مخصوص ہو کر رہ گئے تھے۔صدیوں پْرانے اسٹیم انجن کی خوبصورت سیٹیاں بھی خاموش ہو گئیں اور اب تو ہر طرف ڈیزل انجن ہی چیختے چنگھاڑتے پھرتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔