اصول ہر فرد پر نہیں کیے جا سکتے،یہ دنیا ”کاش، اگر، مگر، چاہیے“ سے بھری پڑی ہے جنہیں ہم بغیر سوچے سمجھے معمولات زندگی میں استعمال کرتے ہیں 

 اصول ہر فرد پر نہیں کیے جا سکتے،یہ دنیا ”کاش، اگر، مگر، چاہیے“ سے بھری پڑی ...
 اصول ہر فرد پر نہیں کیے جا سکتے،یہ دنیا ”کاش، اگر، مگر، چاہیے“ سے بھری پڑی ہے جنہیں ہم بغیر سوچے سمجھے معمولات زندگی میں استعمال کرتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:113
 روایات سے آزادی
”کسی بھی قسم کے اصول وقوانین ہر ایک فرد پر لاگو اور نافذ نہیں کیے جا سکتے اور ان میں یہ قانون اور اصول بھی شامل ہے۔“
یہ دنیا ”کاش، اگر، مگر، چاہیے“ سے بھری پڑی ہے جنہیں ہم بغیر سوچے سمجھے اپنے روزمرہ معمولات زندگی میں استعمال کرتے ہیں اورجب ”کاش، اگر، مگر، چاہیے“ کو اکثر اور بہت زیادہ مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے تو پھر انسانی کردار و شخصیت میں بیشمار خامیاں اور کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس معاشرے میں آپ کو بیشمار روایتی قسم کے اصول و ضوابط اختیار کرنے پڑتے ہیں جو آپ کے لیے مفید نہیں ہوتے لیکن پھر بھی آپ ان سے نجات حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان سے آزاد ہو سکتے ہیں اور آپ میں وہ قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے جس کے ذریعے آپ ان اصول و قوانین کی اچھائی یا برائی کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اس دنیا میں کوئی ایسا مکمل اور بے عیب اصول یا قانون موجود نہیں جس کے ذریعے روزمرہ معمولات زندگی کے ہر موقعے پر خوشی، مسرت اور اطمینان حاصل کیا جا سکے۔ لچک، نرم خوئی اور صلح جوئی ایک بہت ہی عظیم خوبی ہے لیکن پھر آپ اسے اپنے لیے بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سمجھتے ہیں جس کے ذریعے ایک غیرمفید اور بیکار روایت کو توڑا جا سکے اور یا پھر کسی فضول اور بیہودہ اصول و قانون کی خلاف ورزی کی جا سکے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے اگرچہ معاشرتی روایات و اقدار کی پاسداری مفید ہو سکتی ہے لیکن اسے اپنے لیے اشد ضروری قرار دے دینا، ذہنی اذیت کے سوا کچھ نہیں، خاص طور پر اس وقت جب آپ کے دکھ، افسردگیاں اورپریشانیاں آپ کے ”کاش، اگر، مگر اور چاہیے“ کا نتیجہ ہوں۔
اگر آپ فضول، بیکار اور بیہودہ معاشرتی روایات واقدار سے بغاوت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کو ان روایات و اقدا رکی توہین قرار دیا جاتا ہے یا پھر آپ ان بیہودہ، بیکار اور فضول معاشرتی روایات اور اقدار کی خلاف ورزی اس وقت کرتے ہیں جب آپ کو اس میں اپنا فائدہ نظر آتا ہے۔ اصول وقوانین بہت ضروری ہیں اور ایک مہذب معاشرتی زندگی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان معاشرتی روایات و اقدار کی اندھادھند پیروی ایک بالکل ہی علیٰحدہ چیز ہے، درحقیت یہ پیروی ایک ایسی چیز ہے جو ان روایات واقدار کی خلاف ورزی سے بھی کہیں زیادہ مہلک ہے۔ اکثر اور عام طور پر یہ روایات و اقدار، احمقانہ اور فضول ہوتی ہیں۔ جب اس قسم کی صورتحال ہوتی ہے اور آپ ان بیکار اور غیرمفید اصول و قوانین کے باعث اپنی صلاحیتوں کا مناسب اظہار نہیں کر پاتے تو پھر یہی وقت ہوتا ہے کہ آپ ان اصول و قوانین اور روایات و اقدار اور اپنے رویے و طرزعمل کا دوبارہ جائزہ لیں۔
ایک دفعہ ابراہم لنکن نے کہا تھا: ”میرے پاس ایسی کوئی حکمت عملی موجود نہیں جسے میں ہر وقت اور ہر قسم کے حالات میں اپنا سکوں۔ میں نے حالات کے مطابق بہترین فہم و فراست کے مطابق بہترین کوشش انجام دی ہے۔“ ابراہم لنکن کسی واحد حکمت عملی کا غلام نہیں تھا کہ وہ ہر قسم کے حالات میں، اگر تحریری شکل میں بھی یہ حکمت عملی موجود ہوتی، یہی حکمت عملی استعمال کرتا۔
”کاش، اگر، مگر اور چاہیے“ پر مبنی رویہ اورطرزعمل صرف اس وقت بیکار اور غیرتعمیری ثابت ہوتا ہے جب یہ تعمیری، مثبت اور صحت مند روئیے اورطرزعمل کی راہ کی رکاوٹ ثابت ہو۔ اگر آپ ”کاش، اگر، مگر اور چاہیے“ پر مبنی روئیے کے نتیجے میں منفی اور سرگرمیاں انجام دیتے ہیں تو پھر آپ خود کو بیرونی عناصر اور عوامل کے حوالے کر کے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کام کرنے کی آزادی سلب کر لیتے ہیں۔ آپ کی زندگی کو آلودہ کرنے والی خامیوں اور کمزوریوں کا مسلسل جائزہ لینے سے پیشتر آپ کے لیے یہ امر اہم ہو گا کہ آپ اپنی ذات کے اندرونی اور بیرونی حصاروں کا گہری نظر سے جائزہ لیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -