ضرورتِ رشتہ کے اِشتہار
آج سے 80-70 سال قبل شادی بیاہ اخباروں کے ذریعے نہیں ہوتے تھے۔ برصغیر میں 1947ء میں 5 لاکھ آبادی والے بڑے شہر صرف 29تھے۔ اِن شہروں میں رہنے والے لوگوں کا بھی زیادہ پس منظر دیہاتی ہوتا تھا۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانا پردیس سمجھا جاتا تھا۔ سڑکیں بھی اِتنی تعداد میں نہیں بنی تھیں۔ بیل گاڑیوں کے کچے راستے ہوتے تھے۔دیہاتی آبادی میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے رشتوں کی فکر ماں باپ سے زیادہ ”پنڈ“کے نائی کو ہوتی تھی یا روائتی ”مائی“ کو جو ”وچولن“ کہلاتی تھیں۔ اِن لوگوں کو دور دور تک کے دیہاتوں میں رہنے والوں کی سماجی حیثیت، اُن کی ذات پات، اُنکی آپس کی رشتے داریوں اور یہاں تک کے دشمنیوں کا بھی خوب پتہ ہوتا تھا۔ ایسی معلومات رکھنا اُن کی پیشہ وارنہ ضرورت تھی۔ اُن دِنوں لڑکی، لڑکے کی ڈائریکٹ محبت کم کم ہوتی تھی، رسم و رواج بھی سخت تھے۔ ”وچولن“ اور نائی اپنے زیر اثر گاؤں کے لوگوں کی سیاسی وابستگیوں کو بھی جانتے تھے۔ رشتہ کروانے کے لئے ہر قسم کی صحیح معلومات رکھتے تھے تاکہ اپنے "Clients" کو صحیح معلومات فراہم کر سکیں کیونکہ کلائنٹ نے بھی اور ”وچولئے“نے بھی اُسی گاؤں میں رہنا ہوتا تھا۔ ایسی شادیاں عموماً 100 فیصد کامیاب رہتی تھیں۔”ضرورت رشتہ“ کے کمرشل اشتہارات کی شروعات1959ء میں کراچی کے اخباروں (انجام، نئی روشنی، جنگ، جسارت) سے ہوئی۔ کراچی والوں کا کلچر پہلے دِن سے ہی شہری بن گیا تھا۔ مہاجر آبادی ہندوستان کے مختلف علاقوں اور کلچر سے اُٹھ کر کراچی میں آباد ہو گئی تھی۔ خاندان کے خاندان ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔ بچوں کی شادیوں کے لیے اخباری اشتہاروں کا سہارا لینا پڑا۔ شہری معاشرے میں ”نائی اور وچولن“ کا صدیوں پرانا خدماتی اِدارہ بھی میّسر نہیں تھا۔ ”وچولن“ کے کام کو ”ضرورت ِ رشتہ“ کے کمرشل اشتہارات نے پورا کرنا شروع کر دیا۔ جوں جوں پنجاب اور سندھ میں Urbanizations شروع ہوتی گئی رشتے کروانے کا کام اِشتہارات کے ذریعے ہونے لگا۔ ہمارے دیہاتوں کے ”وچولئے“ سادہ لوگ ہوتے تھے، صحیح صحیح معلومات دیتے تھے،البتہ چرب زبان ضرور ہوتے تھے۔ اُن کا معاوضہ عموماً نیا کپڑوں کا جوڑا ہوتا تھا۔ ایک آدھ گندم یا چاول کی بوری اور نئے جوتے خریدنے کے لیے نقدر قم دے دی جاتی تھی۔ پھر بھی اِن وچولیوں کو سال بھر کچھ نہ کچھ شادی والے گھروں سے ملتا رہتا تھا۔ یہ ایک قسم کے وارثتی وچولئے ہوتے تھے۔
اخباری ضرورتِ رشتہ کے اِشتہارات میں کمرشلزم کی تمام خصوصیات آ گئیں۔ اپنے ”پراڈکٹ“(لڑکی یا لڑکا) کی مارکیٹنگ کے لیے یہ اخباری اشتہار بڑے کانٹے دار ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، جھوٹ اور مبالغے سے کام لیتے ہیں۔ بعض اشتہار ”فی سبیل اللہ“ ہوتے ہیں حالانکہ ایسے اسلامی اشتہارات دینے والے تگڑی رقم رجسٹریشن کے نام پر پہلے نکلوا لیتے ہیں۔ زیادہ اشتہار ”باجی نسیم،آپا صغرا اور مسز علی“ قسم کی خواتین کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اُمیدوار دوسری شادی کا متمنی ہو یا بیوہ کو رشتہ درکار ہو، لڑکی/ خاتون انگلینڈ میں اپنا گھر اور کاروبار رکھتی ہو اور اُسے ایسے جیون ساتھی کی ضرورت ہے جو اُس کا کاروبار بھی سنبھال سکے۔لڑکوں کے اشتہار بھی لڑکی والے کی رال ٹپکانے والے ہوتے ہیں۔ لڑکا انجینئر CSP اورڈاکٹر وغیرہ ہوتا ہے۔ خوبصورت ہوتا ہے، ذات پات کی کوئی قید نہیں ہوتی وغیرہ۔ دراصل اخباری اشتہار دینے والوں کی دلچسپی رجسٹریشن فیس میں ہوتی ہے جو 5000 سے 20,000 تک ہوتی ہے۔ اگر رشتہ ہو جائے تو اُس کی فیس الگ ہوتی ہے۔
جتنا ”مچرب“اشتہار ہو گا اُسی حساب سے رجسٹریشن فیس بھی ہو گی۔ ضرورتِ رشتہ والے اشتہار میں دیئے ہوئے فون نمبر پر جوں ہی آپ کال کریں گے، آپ کو نہائت ریشمی سی آواز سے مخاطب کیا جائے گا۔یہ لوگ ہمارے معاشرے کی سماجی ضروریات یعنی شادی کی نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں۔ آپ سے چند سوال کریں گے اور آپ کے جوابات سے ہی اِندازہ کر لیں گے کہ اِن تِلوں میں میں کتنا تیل ہے۔ اگر آپ لڑکی والے ہیں تو پوچھیں گے کہ آپ کی رہائش لاہور کے کس علاقے میں ہے۔ آپ کا بیٹی سے کیا رشتہ ہے، بچی کتنی تعلیم یافتہ ہے، ملازمت کرتی ہے یا گھریلو ہے۔ رشتہ کرانے والے شاطر لوگ اس قسم کے چار، پانچ سوالوں سے ہی لڑکی والوں کا مالی بیک گراؤنڈ معلوم کر لیتے ہیں اور باتوں باتوں میں یہ اُندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ لڑکی والے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے کتنے فِکر مند ہیں۔ اُسی سے یہ اَندازہ بھی لگا لیتے ہیں کہ اِن سے کتنی رقم اینٹھی جا سکتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر لڑکی والے کا گھر تاجپورہ، لالہ زار یا اسلام پورے میں واقع ہے اور لڑکی جاب بھی کرتی ہے، باپ کسی محکمہ سے ریٹائرڈ ملازم ہے، پانچ چھ بچوں کا باپ ہے، اِتنی معلومات سے تو عام ذہن کا آدمی بھی ایسے گھرانے کے مالی حالات جان سکتا ہے۔فون پر ہی لڑکی والوں سے یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا گھر ذاتی ہے یا کرایہ پر ہے۔
آج کل اَخباری اِشتہارات کے ساتھ ساتھ’’رشتہ آن لائن“قسم کے اشتہارات کی ڈھیروں ویب سائٹس مل جائیں گیں۔ آن لائن والے اِشتہار ذرا نفاست اور قاعدے قانون کی شکل لیے ہوتے ہیں۔ فارم بھرنا پڑتا ہے۔ کوائف زیادہ پوچھے جاتے ہیں، مزید معلومات کے لئے آپ 1000/2000روپے اِنٹروڈکشن کے نام پر فوراً ہی آن لائن جمع کرواتے ہیں۔ تب آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ آپ کو لڑکے یا لڑکی کی تصویر Online دِکھا دیں۔ آپ نے اگر دلچسپی دکھائی تو رجسٹریشن کا مرحلہ آ جائے گا۔ وہ بھی ہزاروں میں ہو گا۔ یعنی ابھی رشتے کی بات بھی نہیں چلی آپ سے چند ہزار روپے پہلے ہی جھاڑ لیے جائیں گے۔
میں نے پچھلے سال تجرباتی طور پر ایک شادی والے دفتر کو فون کیا۔ یہ کوئی ”باجی“ قسم کی خاتون تھی۔ اُس نے مجھ سے ٹیلی فون پر ہی مخصوص سوالات پوچھے۔ میں نے اپنے اور ”لڑکی“ کے کوائف مبالغے کی حد تک دلکش بیان کیے مثلاًپوش علاقے میں ذاتی گھر، میں اپنی کینڈین شہری پوتی کے رشتے کا متلاشی ہوں، پاکستان میں وہ اپنے مرحوم باپ کی جائیداد کی تنہا مالک ہے۔ عمر 19 سال ہے وغیرہ وغیرہ۔ لوجی!!!10 منٹ بعد ہی ”باجی“ کا ٹیلی فون آگیا کہ اِتفاق سے اُن کے پاس میری پوتی کے لئے بہت مناسب رشتہ ہے۔ لڑکے کا تھوڑا Superlatives میں تعارف کروا کر باجی لڑکے کی ماں کو لے کر میرے گھر آنا چاہتی تھی۔ ہاں میں بھول گیا۔ باتوں باتوں میں میں نے ”باجی“ سے مناسب انعام دینے کا وعدہ بھی کیا، ظاہر ہے ”باجی“ میں کرنٹ سا آگیا تھا۔ میں نے ”باجی“کو اور لڑکے کی ماں کو بعد نماز عصر بلا لیا۔ ماڈل ٹاؤن میں گھر کا پتہ معلوم ہو تو ڈھونڈنا آسان ہوتا ہے۔ 5 بجے کے بعد ”باجی“ اور دو خواتین اور ایک بھونڈا سا مرد اِن سب کو ایک پرانی سی کار میں لے کر آگیا۔ پتہ نہیں وہ ڈرائیور تھا یا گروہ کا حصہ تھا۔ میرے گھر کا ڈرائیووے، وسیع لان اور گھر میں کھڑی دو کاریں دیکھ کر اُن کی روائتی تیزی مزید بڑھ گئی۔ اِن لوگوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ اپنی بیگم اور گھر کے ملازموں کو میں نے پہلے ہی اعتماد میں لے لیا تھا۔ یہ گینگ بڑا چالاک اور موقع کی مناسبت سے کہانی کو موڑ دینے کا ماہر تھا۔ ”باجی“نے اپنا تعارف کروایا اور فورا ً ہی کہانی بنا دی کہ لڑکے کے تمام گھر والے اپنے بیدیاں روڈ کے 8 کنال کے فارم پر گئے ہوئے ہیں اس لئے لڑکے کی والدہ تو نہیں آئی صرف ہم آئے ہیں آپ سے ابتدائی ملاقات کے لیے”باجی“ نے ہمارے گھر کے حدود اربعہ سے متاثر ہو کر اورگھر کا ماحول دیکھ کر فوراً پینترا بدلا کہ لڑکے کی ماں کیوں نہیں آسکی۔
چونکہ میرے لئے یہ سب ڈرامہ تھا اور میرا تجسُس بھی تھا کہ میں شادی دفتر والوں کا بیک گراؤنڈ جان سکوں، اس لیے میں نے اِن کو چائے پلائی تاکہ گروہ سے زیادہ متعارف ہوسکوں۔ عموماً یہ لوگ رجسٹریشن کے 5000 لیتے ہیں اور رشتہ پکا ہوجانے کے بعد 25000 سے 50000 تک انعام کے طور پر لیتے ہیں۔ ”باجی“ کے اپنے دو لڑکوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔ ”باجی“ اور اُس کا گروہ کچھ اس طرح گھبرا سا گیا تھا کہ نہ اُنہوں نے میری ”پوتی“دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی رجسٹریشن کے لیے کہا۔ چائے پی کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں وچولن اور نائی کا ابھی بھی کردار ہے۔ اِن کے کروائے ہوئے رشتے سکہ بند ہوتے ہیں۔ اصل میں اس عمر میں بھی مجھے مشاہدے اور تجربے کرنے کا شوق ہے۔ اگر میں بینکر نہ بنتا تو شاید میں ایک صحافی ہوتا۔ ہمارے چاروں طرف دلچسپ واقعات ہر وقت ہوتے رہتے ہیں جو ہمارے کالموں یا مضامین کا موضوع بن سکتے ہیں۔ضروری تو نہیں کہ ہر کالم سیاسی یا حالات ِ حاضرہ سے متعلق ہو۔