ضرورت مندوں کا استحصال کرتے کاروبار
کاروبار کا ایک بنیادی مقصد دولت کی تقسیم کا عمل بھی ہے جس سے پیسہ مختلف طبقات میں حصول رزق کا ذریعہ بنتا ہے اور ہر کوئی اس میں سے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا حصہ وصول کرتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ملتا ہے لیکن دراصل یہ قدرت کا نظام ہے کہ تجارت اور کاروباری سرگرمیوں سے ایک معاشی توازن قائم رہتا ہے۔ کسی بھی حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری بھی یہی ہوتی ہے کہ کاروباری امور کی پالیسز کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لوگ ذہنی آسودگی کے ساتھ کاروبار کر سکیں جس کا براہ راست فائدہ پورے معاشرے اور ظاہر ہے کہ حکومت کو بھی پہنچتا ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے مادیت پرستی کی دوڑ اور کاروباری مشکلات نے بزنس سے وابستہ ہر شخص کو حد درجہ متاثر کیا اور کچھ ایسے کام مارکیٹ میں تیزی سے متعارف ہوئے جس سے انفرادی سرمائے میں اضافے کی طرف ہر چھوٹے بڑے سرمایہ دار کی توجہ مرکوز ہو گئی جس کا فائدہ چند لوگوں کو تو ہوا لیکن اس کے اثرات کی لپیٹ میں ہر شخص آ گیا جس میں سب سے بڑا حصہ رئیل سٹیٹ کا ہے۔ ہر کاروباری شخص جو کسی نہ کسی تجارت سے وابستہ تھا اس نے جب دیکھا کہ اس کے ذریعے لوگ راتوں رات کہاں سے کہاں پہنچ رہے ہیں تو اس کی توجہ بنیادی کاروبار، انڈسٹری سے ہٹ کر اس کام کی طرف ہو گئی اور کم وبیش ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی جمع پونجی تھی اس نے اسے رزق خاک کر دیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک طرف بے روزگاری کا طوفان آ گیا اور دوسری طرف ہر چیز لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی گئی۔لوگ کاروبار کو چھوڑ کر پلاٹوں کی فائلیں لینے کی طرف لپک پڑے اور یوں پلاٹ گھر ہر اس شخص کے لئے جس کے پاس کو ئی اس طرح کے ذرائع آمدن نہیں تھے ناممکن ہو گیا۔ اسی طرح کے اور بہت سے کام سامنے آئے جسے کوئی کاروبار تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس میں انویسٹمنٹ کرنے والوں نے خوب کمایا۔گاڑیوں پر اون کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا جس میں انویسٹرز نے اکٹھی گاڑیاں بک کروانا شروع کر دیں اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں انویسٹ کر دیا یہ بھی ایسا ہی کاروبار تھا جس میں پیسہ ایک انفرادی حیثیت میں استعمال ہوا اور ایک ہی جگہ پر جم کر رہ گیا۔ وہ پیسہ جس سے تھوڑا تھوڑا رزق کئی گھروں کے چولہے جلانے کا سبب بنتا تھا اس بزنس کی نذر ہو گیا۔ گاڑی خریدنے والے کی بکنگ کرنے کو کار کمپنیز تیار نہیں تھیں یا اسے کم و بیش ایک سال کا وقت دیا جاتا جو ظاہر کہ کسی بھی ضرورت والے کے لیے ممکن نہیں تھا اور یوں وہ اون کی شکل میں گاڑی کی اصل قیمت سے چند لاکھ زیادہ خرچ کر کے فوراً گاڑی خریدنے کیلئے مجبور کر دیا گیا۔ یہی وہ روش تھی جس نے ہمارے پورے معاشی نظام کو ہلا کر رکھ دیا اور چیزیں غیر حقیقی قیمت پر دستیاب ہونے لگیں اور ہم نے اسے اختیار بھی کیا اور قبول بھی۔ نہ کسی حکومتی ادارے نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ رائے عامہ اس کے لیے ہموار ہو سکی۔ یعنی ہر وہ چیز جو ضرورت کی تھی اس میں سرمایہ اس کے ریٹ بڑھانے کے لیے صرف ہونے لگا اور اب حالت یہ ہے کہ گاڑیوں والے کسی گاہک کی راہ دیکھ رہے ہیں کہ اب یہ چیز بھی عام آدمی کی پہنچ سے تقریباً دور ہو چکی ہے۔ اس طرح کے بیسیوں کاروبار ہیں جن کو اختیار کر کے بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا اور چیزیں اپنی حقیقی قیمت سے بھی کئی گنا بڑھ کر عام آدمی بلکہ مڈل کلاس لوگوں کے لیے بھی خریدنا ممکن نہیں رہیں بالکل اسی طرح جیسے پلاٹوں کی فائلیں اور بنے ہوئے مکان گاہکوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ عام دنوں میں جہازوں کی ٹکٹیں خرید لینا اور پھر ضرورت مندوں کو مہنگے داموں فروخت کرنا بھی اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ رمضان اور ربیع الاول کے مہینوں میں عمرہ اور نومبر دسمبر کے د نوں میں یورپ کی طرف جانے والے رش کو دیکھتے ہوئے پورے پورے جہاز بک کر لینا بھی اسی کا تسلسل ہے کہ عام مسافر کے لئے ٹکٹ خریدنا عذاب ہو گیا ہے۔ ایک ہی جہاز میں ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر الگ الگ ریٹ پر سفر کر رہے ہوتے ہیں جو ایسے ہی کاروباری انویسٹرز کے مرہون منت ہوتے ہیں۔اسی تناظر میں پچھلے دنوں ایک نئے کاروبار کا انکشاف ہوا جس کے بارے میں جان کر واقعی حیرت ہوئی کہ اس میں بظاہر انویسٹمنٹ بھی کوئی نہیں اور پیسہ بھی خوب بنایا جا رہا ہے۔آج کل ملک سے باہر جانے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو ایمبیسز کی اپوائنٹمنٹ کو بزنس بنا لیا گیا ہے۔ تھوڑا کریدنے سے علم ہوا کہ ٹریول ایجنٹس نے غیر ملکی ایمبیسز کے سالانہ کوٹے کا وقت فرضی ناموں کے ساتھ بک کرنا شروع کر دیا اور یوں جب کوئی اصل مسافر اپنی بکنگ کرواتا ہے تو اسے لمبے انتظار کا کہا جاتا ہے جس سے پریشان ہو کر وہ ویزہ فیس جمع کروا نے کے بعد بکنگ بھی خریدنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ٹریول انڈسٹری سے وابستہ افراد نے مارکیٹ میں ایک نیا کاروبار متعارف کروا دیا ہے جس میں لوگ ہزاروں بلکہ کئی جگہ تو لاکھوں خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ جانے ہم اس مادیت پرستی کی دوڑ میں کہاں جا کر دم لیں گے۔ دوسروں کی ضرورت کو خریدنے کی ہوس ہمیں کس مقام تک لے کر جائے گی؟ بغیر محنت کے پیسہ بنانے کی عادت ہمارا کب تک ذہنی و فکری استحصال کرتی رہے گی۔ ہم ایسی چیزوں پر نہ تو شرمندگی محسوس کرتے ہیں، نہ ہی ہمارا ضمیر ملامت کرتا ہے اور نہ ہی یہ استحصال ہمیں آزردہ کرتا ہے۔محنت سے کمائیں کسی کی مجبوری سے نہیں۔