کہیں یہ ریفرینڈم تو نہیں۔۔۔؟
تحریر : طیبہ بخاری
ناقابلِ شکست کون؟۔۔۔ضمنی انتخابات کے نتائج کیا ثابت کر رہے ہیں ۔۔۔؟
کس کی جیت ۔۔۔کس کی ہار ۔۔۔۔؟بظاہر جیت کسی کی ہو رہی ہے اور ہار بھی کہیں اور محسوس کی جا رہی ہے ۔۔۔؟
کہیں یہ ریفرینڈم تو نہیں ۔۔۔؟ کہیں یہ ”وہ “ تو نہیں ۔۔۔۔؟ہو سکتا ہے ملتی جلتی کوئی شکل ہو
ہوگی ۔۔۔ہمیں کیا ۔۔۔۔
تخمینے ، تجزئیے ، تبصرے اور سلیکشن مکمل ہونے میں دیر نہ ہو جائے ۔۔۔کہیں دیر نہ ہو جائے
ایک دوسرے کو” الوداع “کرتے کرتے کہیں کسی اور کو ”خوش آمدید “ نہ کہنا پڑ جائے
کہیں سب” سکرپپٹیڈ “ تو نہیں ۔۔۔۔ہاں یہ سب تو وہی ہو رہا ہے
ہو گا ۔۔۔۔۔ہمیں کیا ۔۔۔؟
الیکشن الیکشن کھیلا جا رہا ہے اوروہ بھی عوام کے خرچے پہ ۔۔۔
کٹھ پتلی ایک نہیں ۔۔۔کئی ہیں ،سلیکٹیڈ ایک نہیں ۔۔۔۔کئی ہیں
بات چل نکلی ہے ۔۔۔۔۔اب دیکھیں کہاں تک نکلے
انتخابی افسانے ۔۔لکھے ، سنے ، پڑھے اور دیکھے جا رہے ہیں
سب عوام کے خرچے پہ ۔۔۔۔جیب کسی کی ۔۔۔۔اور مزے کسی اور کے
اکیلا کپتان وکٹیں گراتا جا رہا ہے ۔۔۔۔بیٹنگ بھی خود کر رہا ہے اور بولنگ بھی ،کیا کپتان کا بیانیہ درست ثابت ہو رہا ہے ۔۔۔؟
”لیول پلے “ کی پالیسی درست ہے یا کپتان کی ” فیلڈ پلیسنگ “ ۔۔۔؟کیونکہ مخالف ٹیم اب تک بورڈ پر ”بڑا سکور “ نہیں دکھا پا رہی
بہر حال ضمنی انتخابات میں ایک اکیلی جماعت کی جیت خاص کر ایک ہی کھلاڑی کی قومی اسمبلی کے کئی اہم حلقوں سے جیت نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا رکھی ہے ۔ اکیلے ایک کھلاڑی نے قومی اسمبلی کے 8حلقوں میں ہونےوالے ضمنی انتخابات میں سے 6 میں کامیابی حاصل کرکے 2018 ءکے عام انتخابات میں 5 نشستیں جیتنے کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو پیپلزپارٹی کے بانی و سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ ے تھے، انہیں 4 میں فتح اور ایک پر شکست ہوئی تھی۔ لیکن ”کپتان “ نے ایک ہی بال پر کئی وکٹیں اڑا کر اب نیا ریکارڈ بنا ڈالا ہے ۔ کپتان نے 16 اکتوبر 2022 ءکو ہونیوالے ضمنی انتخابات میں نہ صرف اپنا ریکارڈ توڑا بلکہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا اور ایسا نیا ریکارڈ بنا ڈالا جو شائد ہی انتخابی میدان میں کوئی توڑ سکے۔اور شاید ہی کوئی کھلاڑی ایسا رسک بھی لے ۔۔۔کیونکہ داﺅ پر کسی اور کا تو کچھ نہیں جاتا البتہ ہار نے والا کا سب کچھ چلا جاتا ہے،مستقبل سمیت۔۔۔۔
بالی ووڈ فلم ”شعلے “ کا وہ ڈائیلاگ شاید ہی کوئی بھول پائے ”کتنے آدمی تھے “۔۔۔۔۔لیکن ہمارے ہاں انتخابی میدان میں کوئی کچھ کہتا رہے ، کھلاڑی یا کپتان کا ذکر ضرور کیا جائے گا ۔۔۔لفظوں کا انتخاب بھلے اچھا ہو یا نہ ہو لیکن” مثال“ تو قائم ہو گئی ۔۔۔
گھوڑے نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف دوڑ میں حصہ لینے کے ہی نہیں بلکہ جیتنے کے بھی قابل ہے ۔۔۔’کھیل “ کا پانسہ پلٹنے کے بعد بھی ۔۔۔”ایک ہی پیج “پر نہ ہونے کے بعد بھی ۔۔۔۔
این اے 22 مردان، این اے 24 چارسدہ، این اے 31 پشاور، این اے 108 فیصل آباد، این اے 118 ننکانہ صاحب اور این اے 239 کراچی میں اب کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ ”کتنے آدمی تھے “‘بلکہ کہا جائے گا کہ ”ایک بھی بہت ہے “۔۔۔۔
’بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے اور حاضر بھی“
6 سیٹیں جیتنے کے بعد ایک پوسٹ تو بنتی ہے بھائی۔۔۔
اگر لانگ مارچ سے مارشل لا ءلگ گیا تو؟ صحافی کا سوال
دلچسپ جواب بھی آیا” مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کے وقت تو ماشل لاءنہیں لگا تھا“
صحافی کا بار بار سوال کہ” اسمبلی جائیں گے؟“
جواب سے گریز ۔۔۔
گریز بنتا ہے بھائی ۔۔۔۔
لوگوں نے موروثیت کو قبول نہیں کیا۔۔۔ملتان میں شکست پر صحافی کا سوال
جواب نہ دیا۔۔۔ بات پلٹ دی۔۔۔۔کیوں ۔۔۔؟
کیونکہ پاکستان بدل گیا ہے، جو سیاسی شعور لوگوں میں اب آیا ہے، وہ پہلے نہیں تھا، ملک کے تیزی سے بدلنے میں سوشل میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ سوشل میڈیا نئی قسم کی ڈیموکریسی ہے، جس کے پاس فون ہے اس کی آواز ہے،کچھ کھلاڑی پرانے زمانے کے ہیں، ان کا ٹائم ختم ہوگیا۔ جو بھی ہوگا ذمہ دار” چور“ ہوں گے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 8 میں سے 6 نشستیں جیتنا عالمی ریکارڈ ہے ،نااہل حکمران اپنے لئے رسوائی، ہمیں مزید پذیرائی دے رہے ہیں۔
شدید مخالفت کے باوجودایک بار پھر کپتان کا بیانیہ جیت گیا، اللہ نے کرپشن اور جھوٹے بیانئے کو شکست دی ،لوگوں نے جھوٹے بیانیے کو مسترد کردیا ، ہمیں یقین تھا حق جیت جائے گا اور باطل مٹ جائے گا، مناسب حکمت عملی کیلئے بہتر وقت کا انتظار کیا۔ضمنی الیکشن چورٹولے کیخلاف عوامی ریفرنڈم ثابت ہوا ۔
یہ تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں کہ ”اپنی 2نشستیں ہار کر مخالفین کو تقویت دی گئی، 6 حلقوں سے جیت گئے لیکن دوسری طرف کے 2 ووٹ مزید بڑھ گئے ۔بے شک کپتان کی مقبولیت پر ایک بار پھر مہر ثبت ہو گئی لیکن سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہر ضمنی الیکشن میں ایک ایک دو دو سیٹیں کم ہوتی جائیں گی اور جنرل الیکشن مزید دور۔“
سیاسی جگادریوں کا ماننا ہے کہ ”ملتان والوں نے سیاسی خانہ بدوش سے حساب برابر کردیا ،ملتان اور ملیر کے عوام کا شکریہ ،جیالے قابل فخر ہیں۔ تیر کا نشان فتح کا نشان، شاباش جیالو شاباش۔جیت جیالوں کے نام ہے ان کا کوئی مقابلہ نہیں ،قومی اسمبلی میں دو جیالوں کا اضافہ باعث اطمینان ہے۔کراچی اور ملتان سے الوداع ۔۔۔“
سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ” عزت داروں کو عزت چاہیے، اقتدار نہیں“
اگلے اتوار کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کون کس کو الوداع کہے گا ، کس کو عزت ملے گی، کس کو اقتدار ؟ یہ بھی واضح ہو جائے گا
دوسری جانب کپتان کی ٹیم خوش ہے ووٹرز کا شکریہ ا دا کر رہی ہے کہ انہوں نے” گٹھ جوڑ“ کے خلاف ساتھ دیا، دلیری سے مقابلہ کیا ، اپنے ووٹ کے ذریعے سب کو پیغام دے دیا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔اگلا ہدف بھی بتا دیا
ایک طرف عوام کا” شکریہ“ ادا کیا جا رہا ہے۔۔۔۔ تو دوسری جانب مخالف سمت سے” برہمی“کی خبریں آ رہی ہیں، ایک بار پھرٹھنڈے ملک کے” مقیم “ پارٹی قیادت کی کارکردگی سے نالاں ہیں، وزراءاور عہدیداروں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے اور اعلیٰ قیادت سے انتخابات میں شکست کی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے ،شکست کے اسباب جاننے کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی،کمیٹی 2 روز میں شکست کی وجوہات کی رپورٹ بھجوائے گی۔۔ بعدازاں قیادت کی جانب سے پارٹی قائد کو شکست کی ابتدائی رپورٹ بھجوا دی گئی ،ذرائع کاکہناہے کہ مہنگائی میں اضافہ، بجلی کے بل اورقیادت کی عدم دلچسپی شکست کی وجوہات بنیں۔ ایک اتحادی پارٹی سرخرو ہوئی اورپنجاب میں واپسی ہوئی۔
ایک اہم وزیر نے تو تجویز دے ڈالی کہ ”ضمنی انتخابات میں کامیابی پر کپتان کو ووٹ کو عزت دینی چاہئے“
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ۔۔۔۔مسئلہ یہ ہے کہ ووٹر تو عزت دے رہا ہے لیکن ووٹ لینے والے ایک دوسرے کو عزت نہیں دے رہے ۔
فی الحال ووٹ کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں ۔۔۔ اصل مسئلہ قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے کا ہے ۔۔۔۔ اگر کپتان نے 6وکٹیں حاصل کرنے کے بعد یعنی قومی اسمبلی کے 6حلقوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی حلف نہ اٹھایا تو کیا ہوگا؟
چونکہ کپتان کی ٹیم قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرچکی ہے اس لیے یہ سوال اٹھے گا۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق کپتان کی جیتی گئی6 نشستیں 30 دن تک خالی رہیں گی، اس کے بعد نوٹس کے ذریعے حلقے کے انتخاب کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔ اگر کپتان نے کسی بھی نشست سے حلف نہ اٹھایا تو آئندہ کی صورتحال کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے غور شروع کردیا ہے۔
اب بھی اپنی غلطی سمجھیں۔۔۔۔۔
کپتان کی ٹیم کی جانب سے صدائیں آ رہی ہیں کہ ضمنی الیکشن ریفرنڈم تھا ،امید ہے یہ لوگ عوام کو اس مشکل میں ڈالے بغیر فیصلہ کرلیں گے۔کپتان ضمنی الیکشن میں جیتنے کے بعد اسمبلی جائیں گے نہ ہی حلف اٹھائیں گے، لانگ مارچ کی تیاری ساتھ ساتھ جاری ہے۔
جو 6 مہینے میں قوم کے ساتھ ہوا، اس کا غصہ آج عوام نے نکالا،تین چوتھائی اکثریت سے جیتے ہیں، کیا فیصلے کرنے والوں کی دماغ میں کوئی ابہام ہے؟نتائج نے ثابت کر دیا کپتان مقبول ترین لیڈر ہیں۔۔۔کپتان کی کیپٹن اننگز، 13 جماعتی اتحاد کو کلین بولڈ کر دیا،ضمنی الیکشن کے نتائج نوشتہ دیوار ہیں۔
دوسری جانب جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ کرنیوالوں کے حوالے سے ”ایک اعلامیہ “ بھی جاری ہو ا ہے جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ” کسی جتھے کو طاقت کی بنیاد پر فیصلہ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ۔۔۔الیکشن جلد کروانے کا مطالبہ مسترد ۔۔۔۔۔ ملک میں انتخابات کب ہونے ہیں، اس کا فیصلہ اتحادی کریں گے۔ فارن فنڈڈ فتنے کی دھونس، دھمکی اور ڈکٹیشن پر تعیناتی نہیں ہوگی۔ اقتدار سے محروم شخص قومی اداروں کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کے تحت نشانہ بنارہا ہے۔ غنڈہ گردی اور دھونس کی بنیاد پر آئین، جمہوریت اور نظام کوغلام نہیں بننے دیا جائے گا۔ معیشت اور سیلاب متاثرین کی بحالی اس وقت اولین قومی ترجیح ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔16 اکتوبر2022 کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 174 سے بڑھ کر 176 ہوگئی ہے جبکہ فتنے کے تکبر کی وجہ سے قومی اسمبلی میں 8 نشستیں کم ہوگئی ہیں۔“
اس سارے بحث مباحثے میں ضمنی انتخابات کے ”ٹرن آﺅٹ “ پر کسی نے دھیان ہی نہیں دیا ۔ غیر سرکاری تنظیم فری ایند فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ کے مطابق الیکشن مجموعی طور پر پر امن رہے لیکن ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا اور 35 فیصد رہا۔ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 57 سے کم ہو کر 39 فیصد رہ گیا۔ خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 45 فیصد سے کم ہو کر 29 فیصد رہ گیا۔ ووٹر ٹرن آؤٹ خانیوال میں سب سے زیادہ 53 فیصد رہا۔ جبکہ کورنگی کراچی کے حلقے میں سب سے کم 14 فیصد رہا۔پشاور این اے 31 میں خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ سب سے کم 10اعشاریہ 4 فیصد رہا۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔4 حلقوں میں خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ 20 فیصد سے بھی کم رہا۔ ایک حلقے میں تو مرد ووٹرز کا ٹرن آو¿ٹ 20 فیصد سے کم رہا۔ کراچی کے2 حلقوں میں مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 17 فیصد رہا۔ کے پی کی نشستوں پر 27، پنجاب کے6 حلقوں میں 44 فیصد سے زیادہ رہا۔ 118 امیدواروں میں صرف 3 خواتین امیدوار میدان میں تھیں جو باعث تشویش ہے۔ غیر متعلقہ افراد کی پولنگ اسٹیشن میں موجودگی اور اسٹیشنز کے باہر بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ رجسٹرڈ ووٹرز میں 17 فیصد اضافے کے باوجود خواتین کے ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی سامنے آئی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ الیکشن میں ریاست کا 130 کروڑ روپیہ ایک شخص کی ضد اور انا پر ضائع ہوگیا، ایک پارٹی کا لیڈر 5 ہزار اور پارٹی ٹکٹ ہولڈر 45 ہزار ووٹ لے رہا ہے تو کیا فائدہ ہوا؟
ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں ،عوام بھی یہی کہہ رہے ہیں ، آپ بھی یہی کہہ رہے ہیں ، سب یہی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ تو سمجھے گا کون ۔۔۔۔؟
اپنی اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر ملک کا سوچے گا کون ۔۔۔؟
ووٹ کی بجائے ووٹر کی فکر کرے گا کون۔۔۔۔ ؟
ریاست کا وقت اورروپیہ بچائے گا کون ۔۔۔؟
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں