SCO میں پاکستان کی کامیابی
شنگھائی تعاون تنظیم (The Shanghai cooperation organisation) کے 23ویں سربراہانِ مملکت و حکومت اجلاس منعقدہ اسلام آباد کے مشترکہ اعلامیہ میں یورپ اور ایشیاء کے مابین بہتر اقتصادی اشتراک‘ گرین ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل اکانومی، تجارت، سرمایہ کاری، غیر امتیازی اور شفاف تجارتی نظام کے قیام اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں رکن ممالک کی استعداد کار بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں رکن ممالک میں جاری سرمایہ کاری منصوبوں کے لیے ڈیٹا بینک بنانے کی تجویز سامنے لائی گئی اور ون ارتھ ون فیملی اور ون فیوچر (One Earth, One Family, One Future) ویژن پیش کیا گیا۔ ای کامرس، فنانس و بینکنگ، اعلیٰ ٹیکنالوجی، غربت کا خاتمہ، صحت کی دیکھ بھال، روایتی ادویات، زراعت، صنعت، ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس کنیکٹیوٹی، توانائی بشمول قابل تجدید توانائی، مواصلات، سائنس و ٹیکنالوجی، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تعاون بڑھانے کی ضرورت کو بھی اعلامیہ کا حصہ بنایا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق ایس سی او کانفرنس میں رکن ممالک کی جانب سے نئے اقتصادی ڈائیلاگ پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایس سی او اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پائیدار ترقی کے لیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے معاشی ترقی‘ استحکام اور خوش حالی کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان خطے میں استحکام چاہتا ہے اور یہ کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہو گا۔
یہ اعلامیہ ایک بھرپور اور ہمہ گیر اعلامیہ ہے جو ایس سی او کے خطے کو ایک نئے معاشی انقلاب سے ہمکنار کر سکتا ہے،ایس سی او ممالک کے قائدین نے اپنے اپنے خطاب میں جو تجاویز پیش کی ہیں وہ اس امر کی نشان دہی کرتی ہیں کہ سبھی ممالک انفرادی کے ساتھ ساتھ مشترکہ ترقی کے بھی خواہاں ہیں تاکہ پورا ایس سی او خطہ ابھر کر سامنے آئے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایس سی او تنظیم کے ماضی‘ حال اور مستقبل پر ایک نظر۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا ابتدائی نام شنگھائی فائیو (Shanghai Five) تھا۔ شنگھائی فائیو تنظیم 1996ء میں قائم کی گئی تھی اور چین و روس کے علاوہ قازقستان‘ کرغستان اور تاجکستان اس کے رکن تھے۔ شنگھائی فائیو کے قیام کا مقصد سرحدی علاقوں میں ملٹری ٹرسٹ کو بڑھانا تھا۔ 24 اپریل 1997ء کو ہونے والے شنگھائی فائیو کے اجلاس میں سرحدی علاقوں میں ملٹری فورسز کی تعداد کم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اسی سال 20 مئی کو روسی صدر بورس یلسن) (Boris Nikolayevich Yeltsin) اور چینی صدر جیانگ زیمن (Jiang Zemin) نے ملٹی پولر ورلڈ (Multipolar World) کے ڈیکلریشن پر دستخط کیے تھے۔ شنگھائی فائیو کے اگلے سالانہ اجلاس الماتے‘ قازغستان میں 1998ء میں‘ بشکیک‘ کرغستان میں 1999ء میں‘ اور دوشنبے‘ تاجکستان میں 2000ء میں منقعد ہوئے۔ جون 2001ء میں ہونے والے شنگھائی فائیو کے اجلاس میں معاملات نے ایک نئی کروٹ لی۔ اس اجلاس میں پانچ رکن ممالک کے علاوہ ازبکستان کی قیادت نے بھی شرکت کی تھی۔ اسی اجلاس میں شنگھائی فائیو کا نام تبدیل کر کے شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا اور اس کے کردار اور Stance میں وسعت لانے کے لیے فیصلے کیے گئے اور اقدامات عمل میں لائے گئے۔ اس وقت چین‘ روس‘ قازقستان‘ کرغستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور بیلاروس شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن ہیں جبکہ منگولیا آبزرور کی حیثیت سے ایس سی او کے اجلاسوں میں شرکت کرتا ہے۔ سری لنکا‘ ترکیہ‘ کمبوڈیا‘ آذربائیجان‘ نیپال‘ آرمینیا‘ مصر‘ قطر‘ سعودی عرب‘ کویت‘ مالدیپ‘ میانمار‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین ایس سی او کے ڈائیلاگ پارٹنر ہیں۔ ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین نیشنز (The Association of Southeast Asian Nations) کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ سٹیٹس (Commonwealth of Independent States) ترکمانستان اور اقوام متحدہ (The United Nations) بطور مہمان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم جغرافیائی سکوپ اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس کے رکن ممالک دنیا کے کل رقبے کے 24 فیصد پر پھیلے ہوئے ہیں جو یوریشیا(ایشیا اور یورپ) کے کل رقبے کا 65 فیصد بنتا ہے۔ ایس سی او دنیا کی 42 فیصد آبادی کی نمائندہ تنظیم بھی ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے رکن ممالک کا مشترکہ جی ڈی پی دنیا بھر کے جی ڈی پی کا 23 فیصد ہے جبکہ پی پی پی (Purchasing power parities (PPPs)) کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایس سی او کا جی ڈی پی دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا 36 فیصد بنتا ہے۔
پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کا کامیاب انعقاد یقیناً ہمارے لیے فخر کا سبب ہے۔ اس موقع پر اتنے مناسب اور اچھے انتظامات کیے گئے تھے کہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کے سربراہان حتیٰ کہ بھارت کے وزیر خارجہ بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔ کالم کے آغاز میں‘ میں نے شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے اعلامیہ کے چیدہ نکات لکھے۔ میرے خیال میں یہ ایسے شعبے‘ موضوع اور امور ہیں جن پر اگر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنا لیا جائے‘ تو میرے خیال میں ایس سی او کے خطے میں یورپی یونین جیسی اعلان کردہ یا بغیر اعلان کے ایک یونین بھی قائم ہو سکتی ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایس سی او کے رکن ممالک آپس میں مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا لیں تو انہیں اپنی درآمدات اور برآمدات کے لیے شاید دنیا کے دوسرے خطوں کا رخ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اعلامیہ میں جن شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا‘ ان کی اہمیت و افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن پاکستان کے لیے ان میں سب سے زیادہ پُرکشش اقتصادی ڈائیلاگ والا نکتہ ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان پچھلے کچھ عرصے سے معاشی مسائل اور مشکلات کا شکار ہے اور اس بھنور سے نکلے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اقتصادی تعاون سے مراد قرضوں کا لین دین ہی نہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ایس سی او کے رکن ممالک درآمدات اور برآمدات میں ایک دوسرے کے لیے باقی دنیا کی نسبت زیادہ سہولیات کا اعلان کریں‘ اور ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں کیونکہ یہ واضح ہے کہ جس ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اس ملک کی سکیورٹی خود بخود مستحکم ہو جاتی ہے۔