دو عسکری اصطلاحیں
سب سے پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرے کالم کا روئے سخن بیشتر سویلین قارئین کی طرف رہا ہے اور آج بھی ہے۔ملٹری کی تینوں سروسوں (آرمی، نیوی، ائر فورس) میں افسروں کی سطح پر انگریزی زبان ذریعہء نوشت و خواند ہے اور اس باعث ذریعہء گفتگو بھی انگریزی زبان ہی ہے۔ لیکن اگر افواج پاکستان کی تعداد بالفرض سات لاکھ ہے تو اس میں ساڑھے چھ لاکھ اردو لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔ باقی 50ہزار اگر کمیشنڈ آفیسرز ہیں تو ان کی بولنے کی زبان خواہ پنجابی، پشتو یا سندھی ہو، لکھنے پڑھنے کی زبان انگریزی ہی ہے……
انگریزی زبان کے بہت سے فائدے ہیں۔ ملٹری کے لیول پر دیکھا جائے تو جو ہمارے آفیسرز فارن کورسز پر جاتے ہیں تو وہاں کے شرکاء کی اپنی قومی زبان کچھ بھی ہو، انگریزی زبان ہی ذریعہء تدریس اختیار کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں تمام جدید سلاحِ جنگ انگریزوں (یا دوسری مغربی اقوام) نے ایجاد کئے۔ اس لئے ہمیں ازراہِ مجبوری اور ضرورت انگریزی کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
انگریزی زبان کی عسکری اصطلاحوں (Terms) میں بعض ایسی اصطلاحیں بھی آپ کے سامنے آئیں گی جن کا اردو ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں البتہ تشریح ضرور کی جا سکتی ہیں۔ میرے پیش نظر دو عسکری اصطلاحیں ایسی ہیں جن کا تعلق اسی قبیل سے ہے…… ایک کو ڈاکٹرین کہا جاتا ہے اور دوسری کو اٹریشن کا نام دیتے ہیں۔
لفظ ”ڈاکٹرین“ کا ایک ترجمہ ”فلسفہء جنگ“ یا ”طریقِ حرب و ضرب“ بھی کیا جا سکتا ہے حالانکہ یہ دونوں تراجم تشریح کی ذیل میں آئیں گے، تراجم نہیں کہلائیں گے۔اس لئے ماہرینِ لسانیات نے کہہ رکھا ہے کہ اگر کسی اصطلاح کا ترجمہ اردو (یاکسی بھی دوسری زبان میں) موجود نہ ہو تو ان کو اردو (یا کسی بھی دوسری زبان میں) املاء کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ لہٰذا ”ڈاکٹرین“ کو فلسفہء جنگ لکھنے کی بجائے ڈاکٹرین لکھ دیا جائے تو ”بہتوں کا بھلا ہوگا“۔
لیکن دوسری اصطلاح اٹریشن (Attrition) ہے جس کا اردو مترادف نہیں ملتا اور اس کی تشریح اتنی طویل و عریض ہے کہ اس میں سے کوئی اردو مترادف نکالا نہیں جا سکتا۔ اس کی مثال پیش کرتا ہوں۔
آج کل بلوچستان اور صوبہ سرحد میں ہمارے بہت سے فوجی آفیسرز اور جوان مارے جا رہے ہیں اور جا چکے ہیں۔ ان کو ایک لحاظ سے ”شہید“ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن شہید کا لفظ جن لغوی معانی میں استعمال ہوتا ہے، وہ ان مرنے والوں پر صادق نہیں آتے۔
ان مرنے والے آرمی افسروں اور جوانوں کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے وہ کوئی مسلح آرمی یا نیوی یا ائر فورس کے لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ دہشت گرد اور تخریب کار ہیں جو چھپ کر وار کرتے ہیں، وہ وردی پوشوں اور غیر وردی پوشوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتے، ان کا کوئی دین ایمان یا فلسفہء جنگ نہیں، وہ ناگہانی طور پر آتے ہیں اور چھا جاتے ہیں۔ پاکستان آرمی، انٹیلی جنس کی بنیاد پر ان کے ٹھکانوں کا سراغ لگاتی ہے اور ان پر حملے کرتی ہے۔ ان حملوں میں وہ دہشت گرد بھی مارے جاتے ہیں اور حملہ آور آرمی کے افراد بھی لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔ آرمی کے آفیسرز اور جوان جو مارے جاتے ہیں ان میں بالعموم لفٹین سے لے کر لیفٹیننٹ کرنل رینک کے آفیسرز بھی شامل ہوتے ہیں، جے سی اوز (Jcos) بھی اور دوسرے زیریں رینک کے افراد بھی(حوالدار، نائیک، لانس نائیک اور سپاہی)۔
ان مرنے والوں کی خبریں آئے روز ہم پڑھتے ہیں، ان کے جنازے پڑھائے جاتے ہیں اور بعض صورتوں میں ان کے لواحقین کو بھی منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔ اگر ان کا شمار کیا جائے اور اس میں ایک تاریخ مقرر کر دی جائے تو کہا جائے گا کہ فلاں عرصے میں، فلاں تعداد میں یہ آفیسرز، Jcos اور جوان مارے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر یکم جنوری 2024ء سے شمار کیا جائے تو آج 18اکتوبر 2024ء تک جتنے فوجی ان دہشت گردانہ حملوں میں مارے گئے ہیں ان کی تعداد سن اور پڑھ کر ہول آتا ہے…… یہ جو آہستہ آہستہ، روز بروز، ہفتہ بہ ہفتہ اور ماہ بہ ماہ پاکستانی فوجی، تخریب کاروں سے مقابلے میں مارے جاتے ہیں تو یہ تعداد آپ کی توجہ کا دامن ضرور پکڑے گی اور آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ اگر اتنی تعداد میں فوجی آفیسرز، جے سی اوز اور جوان مارے گئے ہیں تو گویا اسی تعداد میں ان کے خاندان کے کئی رشتہ دار بھی مارے گئے ہیں یا متاثر ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ صورتِ حال بڑی تشویشناک ہے…… اور اسی کو ”اٹریشن“ (Attrition) کا نام دیا جاتا ہے۔ اور وہ جو میں نے سطورِ بالا میں عرض کیاتھا کہ اس طرح آہستہ آہستہ، رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر اور وقت بے وقت جو فوجی مارے جاتے ہیں وہ فوج (آرمی) کی اٹریشن ہے۔ پاکستان پر کئی برسوں سے یہ ”اٹریشن“جاری ہے…… اور اب اس اصطلاح کو بعض عسکری تواریخ (Military Histories) میں بھی ملکی اور قومی سطح پر اپنایا جا رہا ہے۔
مثلاً بعض انڈین مورخین نے اس اصطلاح (اٹریشن) کو باقاعدہ ایک حصہء جنگ بھی ڈکلیئر کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں انڈیا کو پاکستان کے مقابلے میں جس ہزیمت کا سامنا ہوا، اس کی ”خِفت“ مٹانے کے لئے اس کو اٹریشن کا نام دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس جنگ میں سیالکوٹ اور لاہور دونوں محاذوں پر انڈین آرمی نے جو ناگہانی حملہ کیا تھا اس میں یہ نہ سیالکوٹ تک پہنچ سکی تھی اور نہ لاہور کا بال بیکا کر سکی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیا نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا اور ”اٹریشن“ کو بطور ڈاکٹرین استعمال کیا تھا……! سبحان اللہ!!
یہ انڈین لکھاری یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس جنگ میں انڈین آرمی کی فوجی نفری اور ہتھیار، پاکستان آرمی کی فوجی نفری اور اس کے ہتھیاروں سے زیادہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ اگر سیالکوٹ اور لاہور کو ”فتح“ نہ کرسکی تو یہ اس کا سوچا سمجھا ڈاکٹرین تھا اور اس کو کہا گیا تھا کہ اٹریشن سے کام لیں۔…… سیالکوٹ میں چونڈہ تک اور لاہور میں بی آر بی نہر تک ضرور آئیں لیکن یہاں آکر ”بیٹھ“ جائیں اور آگے بڑھ کر نہ سیالکوٹ پر قبضہ کریں اور نہ لاہور پر تسلط حاصل کریں۔
اب ان کا کہنا ہے کہ انڈین آرمی کا 1965ء کی جنگ میں ”مقصدِ جنگ“ (War Aim) یہی تھا کہ نہ لاہور فتح کرنا ہے اور نہ سیالکوٹ تک پہنچنا ہے بلکہ ان دونوں بڑے پاکستانی شہروں کے نزدیک جا کر توقف (Respite) اختیار کرنا ہے اور پاکستان آرمی کو مجبور کرنا ہے کہ وہ ان کی پوزیشنوں پر حملے کرے، اپنا گولہ بارود ضائع کرے، اپنے آفیسرز اور جوان مروائے تاکہ اس کے بعد انڈین آرمی ”دفاع“ سے نکل کر ”حملہ“ کی پوزیشن میں آ جائے اور یکبارگی یلغار کرکے سیالکوٹ اور لاہور پر تسلط حاصل کرلے…… ان کے مطابق یہی اٹریشن ہے اور یہی انڈین آرمی کا ڈاکٹرین تھا:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
حال ہی میں (2023ء میں)انڈیا سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے: ”انڈیا کی ملٹری سٹرٹیجی“…… اور اس میں یہی استدلال کیا گیا ہے کہ انڈیا نے 1965ء کی جنگ میں عمداً ”اٹریشن“ کاڈاکٹرین اپنایا تھا…… لیکن 6برسوں بعد عمداً اسے توڑ دیا اور 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا……یہ کتاب لائقِ خواندگی ہے۔ کسی قاری کو موقع ملے تو اس کا مطالعہ ضرور کرےّ ہرچند کہ یہ تصنیف انگریزی زبان میں ہے۔ اس کے مصنف کا نام کلیان آرامان ہے اور دنیا بھر کے معروف اشاعتی اداروں نے اس کو شائع کیا ہے۔