تعلیمی اداروں کے سیکیورٹی خدشات کیسے دور کئے جا سکتے ہیں ؟

تعلیمی اداروں کے سیکیورٹی خدشات کیسے دور کئے جا سکتے ہیں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پروفیسر قاضی اکرام بشیر

پاکستان میں آرمی پبلک سکول کے بعد گلشن اقبال اور کوئٹہ میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور شہادتوں کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے مسائل زیادہ اہمیت اختایر کر گئے ہیں اور تعطیلات گرما کے بعد جب تعلیمی ادارے کھلیں گے تو بیرونی عناصر پر نظر رکھنے اور سیکیورٹی کے مسائل میں بہتری پیدا کرنے کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ حال ہی میں سیکیورٹی کے مسائل الیکٹرانک میڈیا میں بھی زیر بحث لائے گئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں واک گیٹس Walk Gates کی تنصیب اور سیکیورٹی گارڈز کے تقرر کے لئے فنڈز اور گرانٹس کی عدم فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے سیکیورٹی گارڈز کے تقرر کے لئے نظامتِ تعلیم اور دیگر اعلیٰ حکام سے اجازت لینا ہوتی ہے اور بسا اوقات نئی آسامیوں کی منظوری کے لئے فائل وزارت خزانہ کو بھیجنا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاملات تاریخ کا شکار ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ فرائض منصبی کے راستے میں درپیش آنے والی مشکلات سے اعلیٰ افسران کو آگاہ نہ کیا جائے کیونکہ اعلیٰ افسران بیورو کریسی اور سیاسی مقتدر شخصیات ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ کو پسند کرتی ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن میں نئے آنے والے افسران مختلف نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور معیار تعلیم کی بہتری یا فروغ تعلیم کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے سابقہ سیکرٹری تعلیم نے پنجاب بھر کے کالجوں میں یہ حکم جاری کر رکھا تھا کہ تمام اساتذہ کی حاضری صبح 8-45 بجے تک ان کو ارسال کی جائے۔ اس صورت حال میں بے شمار کالج اساتذہ پر وقتی طور پر غیر حاضر ہونے کے باعث انکوائریز قائم کر دی گئیں اور پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن کے عہدیداران اساتذہ کا تحفظ نہ کر سکنے کے باعث ایسوسی اینش کا الیکشن نہ جیت سکے۔ جن کالجوں کے پرنسپل صاحبان نے نظم و ضبط اور حاضری کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کی، وہاں سے سٹاف اراکین کی شکایت آنے پر ان سربراہان ادارہ کو نہ صرف تبدیل کیا گیا بلکہ ان کے خلاف ’’پیڈا ایکٹ‘‘ کے تحت انکوائریز بھی بنا دی گئیں۔ کالج اساتذہ بالعموم ایسے پرنسپل صاحبان کو پسند کرتے ہیں جو نظم و ضبط کے سلسلے میں زیادہ سخت رویہ نہ رکھتے ہوں۔ سربراہان ادارہ اپنی کرسی کو برقرار رکھنے کے لئے سفاف اراکین اور اعلیٰ افسران کا ہر مطالبہ اور حکم ماننے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن میں کالجوں کے پرنسپل صاحبان، ڈائریکٹرز اور ڈی پی آئی کے عہدوں کیلئے کوئی خاص مدت متعین نہیں ہے اس لئے یہ حضرات سالہا سال ان عہدوں پر رہ کر اپنے اثرو رسوخ اور اثاثوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ریٹائرمنٹ کے وقت یہ حضرات بحریہ ٹاؤن، واپڈا ٹاؤن اور ڈیفنس کے علاقوں میں شاندار رہائش گاہیں تعمیر کرتے ہیں۔ جہاں تک سکولوں، کالجوں اور جامعات میں نظم و ضبط کے مسائل کا تعلق ہے، ان مسائل پر قابو پانا کچھ آسان نہیں رہا۔ گزشتہ چند سالوں میں پنجاب بھر کے اہم ترین بوائز اور گرلز کالجوں میں بی ایس آنرز چار سالہ کورس کا اجرا کیا گیا، چنانچہ مخلوط تعلیم جو پہلے پوسٹ گریجویٹ سطح پر تھی اب انٹرمیڈیٹ کے بعد شروع ہو گئی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور اور گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ لاہور میں طلبا تنظیم نے بی ایس آنرز میں طالبات کے داخلے کی مخالفت کی جس کے باعث اس تنظیم کے انتظامیہ سے اختلافات شروع ہو گئے دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ایف سی کالج اور دیگر بوائز کالجوں میں بی ایس آنرز کی کلاسوں میں بڑے پیمانے پر طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات کے داخلے بھی کئے گئے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں اس سے قبل اس امر کا خیال رکھا جاتا تھا کہ طلبا و طالبات مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں اور اس ضمن میں مادر علمی کی درخشاں روایات کو ہمیشہ مد نظر رکھیں گزشتہ ادوار میں پروفیسر ایم رشید مرحوم اور پروفیسر فضا الرحمن خان کے ادوار کو مثالی نظم و ضبط کے باعث یاد رکھا جاتا ہے۔ راقم الحروف نے محسوس کیا کہ جب گورنمنٹ کالج کے طلبا و طالبات کے قریب سے گزر رہے ہوں تو انہیں اس امر کا زیادہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ وہ مادر علمی ہے جہاں علامہ اقبالؒ مولانا محمد حسین آزاد، فیض احمد فیض پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جیسے اساتذہ پڑھاتے رہے ہیں اور جس کے فارغ التحصیل طلبا میں پانچ سابق اور موجودہ وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ گورنمنٹ کالج کی اعلیٰ روایات اور نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ اور چیف پراکٹر خادم علی خان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بی ایس آنرز کی سطح پر طالبات کی ایک بڑی تعداد کے داخلے سے گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ میں بھی نظم و ضبوط کے کافی مسائل پیدا ہوئے جنہیں موجودہ پرنسپل پروفیسر اعزاز احمد خاں بطریق احسن حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں موجود بعض طلبا تنظیمیں نظم و ضبط اور سیکیورٹی کے مسائل میں کماحقہ تعاون سے گریزاں ہیں جس سے انتظامیہ کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
سیکیورٹی اور نظم و ضبط کے مسائل میں آپس کا گہرا باہمی تعلق ہے۔ اسی طرح کالجوں میں پرنسپل صاحبان کے لئے جو رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں بسا اوقات پرنسپل صاحبان ان میں رہائش پذیر نہیں ہوتے اگر پرنسپل صاحبان ان رہائش گاہوں میں قیام پذیر ہو جائیں تو وہ شب و روز کالج کیمپس کی سیکیورٹی کے مسائل پر نظر رکھ سکیت ہیں اور انہیں لمحہ بہ لمحہ سیکیورٹی کی صورتحال کا اندازہ رہے گا۔

مزید :

ایڈیشن 2 -