اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر 29
شوکت نے اپنے معاشرہ کی رسموں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب ہم میں سے کوئی مخنث اپنے چیلے کو نکال دیتا ہے تو کوئی دوسرا اُسے لینے کے لئے تیار نہیں ہوتا جب تک پنچایت اپنا فیصلہ نہیں دیتی۔‘‘
’’ پنچائیت کا فیصلہ کبھی تو سینکڑوں روپے جُرمانہ تک پہنچتا ہے اور کبھی صرف جوتی میں تیل ڈالو لیا جاتا ہے۔‘‘
’’ جوتی میں تیل ۔۔۔؟‘‘
’’ جی ہاں ! ہمارے ہاں اس کو بڑا عیب سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہم لوگ جرمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
شوکت نے کہا، ’’ بعض لوگ ہمارا ڈانڈا بھانڈوں سے ملاتے ہیں، لیکن اُن کے اور ہمارے درمیان دُورکاناطہ بھی نہیں ، ہم نقلیں نہیں کرتے اورنہ کسی پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھے ہیں۔ ہمارے زندگی مستعار فقیرانہ ہے جو لوگوں کو دُعائیں دینے میں گزر جاتی ہے!‘‘
’’ کبھی تمہاری میت دیکھنے میں نہیں آتی؟‘‘
وہ ہنسا اور کہا’’ آپ بھی عجیب سوال کرتے ہیں ، معاف کیجئے نہ تو ہم آسمان سے ٹپکتے ہیں اور نہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ، ہمیں بھی ماں کی کوکھ ہی جنتی اور ہمارا جنازہ بھی مرد ہی لے جاتے ہیں۔‘‘
’’ نماز جنازہ کون پڑھاتا ہے؟‘‘
’’ مولوی‘‘
’’ مولوی؟‘‘
’’جی ہاں !‘‘ شوکت نے اس تحیر کو جھٹلاتے ہوئے کہا۔
’’ کیا ہم مسلمان نہیں۔ ہمارے دل بھی خدا کے خوف سے لبریز ہیں ، ہم بھی اسلام کو مانتے ہیں ، پیر فقیر مناتے ہیں ، نذر نیاز دیتے ہیں ، داتا کی حاضری بھرتے ہیں ، گنج شکر کے روضے پر جاتے ہیں، بری امام کے سلام کو پہنچتے ہیں۔ اب تو خیر وہ دن نہیں رہے لیکن زمانہ تھا کہ ہر سال صابر پیا کی چوکھٹ پر اور خواجہ کی نگری میں حاضری بھرتے تھے، ہر گیارھویں شریف کو شرینی بانٹتے ہیں۔ عیدیں آتی ہیں، شب برأت آتی ہے، عاشورہ کے دنوں میں پنجتن پاک کا سوگ مناتے ہیں ، عید میلاد کو چراغاں کرتے ہیں ، آخری چہار شنبہ کو بتا شے بانٹتے ہیں ، پھر ہم مسلمان بھی ہیں اور ہمارے ہاں کبھی فرقہ وارانہ جھگڑے نہیں ہوتے ، نہ کبھی انسانوں کے خود سے ہاتھ رنگے جاتے ہیں ، نہ کبھی ہم نے سیاسی حقوق کا مطالبہ کیا ہے اور نہ ہمارے کوئی حقوق ہیں، افسوس کہ خدا کی مخلوق سیاسی مخنثوں کے قبضہ میں ہے!‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسنط نمبر 28پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ اور یہ سیاسی مخنث کون ہیں؟‘‘
شوکت کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔۔ ’’ معاف کیجئے، انہیں آپ بھے جانتے ہیں سیاسی مخنثوں کی مضرتیں اجتماعی ہیں اور جنسی مخنثوں کی فردی‘‘ شوکت کے قہقہے فضا میں اس طرح گھل رہے تھے، جیسے کسی کھوکھلی عصمت کی چتاکادھواں خلاؤں میں گھلتا ہو۔۔۔ دھواں اور قہقہے۔
رات کی بات
21 اپریل 1948 ء کی شب پاکستان میں پہلا یوم اقبال تھا، ادھر یونیورسٹی میں حکیم الامت کے عقیدت مند فلسفہ خودی چھانٹ رہے تھے۔ اُدھر ریڈیو سے کلام اقبال نشر ہورہا تھا، اور کہیں کہیں فٹ پاتھ پر خوش لحن فقیر ’’ ساقی نامہ‘‘ الاپ رہے تھے۔۔۔
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
خان کو اسرار تھا کہ ہم اس کی معیت میں امیر سے ملیں ، علامہ اقبالؒ آغاز جوانی میں اس امیر ہی کی آواز کے معترف تھے اور یہ حُسن اتفاق تھا کہ آج اس کے ہاں کسی تقریب کا اہتمام تھا۔ سب پشتینی رنڈیاں اس کے ہاں مدعو تھیں۔ امیر کی بیٹیاں جن کا آفتاب ان دنوں نصف النہار پر ہے، اس ڈار میں خوبصورت کبوتریوں کی طرح غٹرغوں غٹرغوں کر رہی تھیں۔ تمام احاطہ بقعہ نور بنا ہوا تھا جیسے اپسراؤں کا کوئی غول ستاروں سمیت کرہ ارضی کی اس ٹکری پر اُتر آیا ہو۔
آج کی رات اُف اومیرے خدا آج کی رات
امیر چھیاسٹھ برس کے سن میں ہے ممکن ہے کبھی خوف روہو ، مگر اب عمر رفتہ کا جھوٹا جھول ہے۔ یا بہ ظاہر چچوڑی ہوئی ہڈیوں کا ایک ڈھیر ، جس میں دھوئیں کی سڑانڈرہ گئی ہے، رنگ سنولا چکا بلکہ سیاہ ہوتا جا رہاہے۔ بال سفید ہوچکے ہیں ، دانتوں میں کھڑکیاں نکل آئی ہیں، اور لہجہ مریل ہو چکا ہے۔
الٰہی جان نے کہا، ’’ خالہ یہ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں‘‘ امیر نے آنکھیں کھول دیں، گویا کسی بھولی بسری حکایت کا تعاقب کرہی ہیں ، ہم نے سوال کیا تو اُس کے بوڑھے چہرے کی جھریاں مسکرائیں ، جیسے کسی گمشدہ کہانی کے الفاظ بکھر گئے ہیں اور وہ انہیں ایکا ایکی جوڑ دینا چاہتی ہے۔ اقبال کے نام سے اُس کی جھکی ہوئی آنکھوں میں ایک نور سا جاگ اُٹھا، لیکن بسرعت مدھم ہوگیا، گویا ایک چپ سو سُکھ۔
اُس نے کچھ بتانا قبول نہ کیا، ہمارا اصرار بڑھا تو قدرے جھنجھلا کر کہا۔۔۔
’’ ہمارے ہاں مردوں کے کفن پھاڑنے کا رواج نہیں، انسانی گوشت کی چاٹ بری ہوتی ہے ، ایک دفعہ منہ لگ جائے تو شراب کے نشہ سے بڑھ کر خوار کرتی ہے، اس عمر میں انسان کو خوفِ خدا کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔ جب خدا کا خوف نہیں تھا تو سب کچھ یاد تھا۔ ‘‘
ہم نے بات کو طول دینا چاہا، اور تقاضا کیا کہ وہ ان صحبتوں کی کوئی کتھا چھیڑے، جب اقبال ، عبدالقادر ، گرامی ، ناظرہ وغیر ہم حاضر ہوتے تھے، لیکن اُس نے کھوکھلے قہقہوں میں ہمارے استفسار کو سمیٹا ، پھر ذرا ترش ہوکر کہا :
’’ خطائے بزرگوں گرفتن خطاست۔ میں کوئی کتاب نہیں کہ اُٹھایا ورق پلٹے جس صفحہ پیرے پر نظر ٹھیری اس کو کھنگالنا شروع کیا، پُرانی باتیں وقت کے ساتھ مر چکی ہیں، ان رازوں ہی کی ٹوہ میں رہیے جو زندگی میں راہنما ہوسکے ہیں۔ ان باتوں کی کھوج سے فائدہ؟ جو آپ کو تو نفع نہیں دے سکتیں لیکن دوسروں کو محض اس لئے نقصان پہنچتا ہو کہ آپ کے کان اس ذائقہ کے عادی ہوچکے ۔
یاد رکھئے ہم لوگ راز فروشی نہیں کرتے یہ کام شریفوں کا ہے۔‘‘
ہمیں یقین ہوگیا کہ امیر اس معاملہ میں ستر خفی ہے گو اُس کا روپ مرچکا لیکن اس کی آن نہیں مری، اس کی خودی زندہ ہے۔
ابھی تقریب کا رنگ نہیں بندھا تھا، ایک طرف اُستاد جی حقوں کا دھوآں اُڑارہے تھے، دوسری طرف رنڈیوں کی رنگا رنگ آوازیں ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہی تھیں۔ شب کا پہلا پہر تھا اور مدعوین عموماً رات کے نصف ثانی میں جمع ہوتے ہیں قاضی نے کہا چلو اتنے میں نایاب کے ہاں ہو آتے ہیں ، ہمارے ایک دوست جونا مور باپ کے بیٹے اور خود بھی نامور تھے ، اس طرح گھومتے پھرنے کے خلاف تھے اور اُن کا خوف بڑی حد تک جائز تھا وہ محض چوری چھپے کا تماشا دیکھنے کے لئے چلے آئے تھے، اور اس میں بھی زیادہ ترامیر سے ملاقات کا شوق تھا۔ بالآخر مان گئے اور جب پکھراج منزل کی دہلیز پر قدم رکھا تو ان کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ نایاب ریشم کے ڈھیر کی طرح سامنے آ بیٹھی ، اس نے خندہ پیشانی کے ساتھ آداب عرض کیا، ان حضرت کی آنکھیں بھی چندھیا گئیں۔ خواجہ سے کان میں کہا۔ ’’ بھائی بزرگوں نے غلط نہیں کہا کہ معصیت میں بڑی دلکشی ہوتی ہے۔‘‘
ان گھروں میں گاہکوں کی کھسر پھسر کو ناگوار سمجھا جاتاہے۔ نایاب کی نانی جس کی عقابی نظریں گاہکوں کے تیوروں سے ان کی غایت پہچان لیتی ہے، اس سرگوشی پر کہاں چوکتی، ایک برجستہ فقرہ کسا اور گلوری بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ لیجئے شوق فرمائیے۔‘‘
خواجہ نے کہا۔۔۔ ’’ آ پ نے غالباً زندگی میں پہلی دفعہ یہ چوکھٹ دیکھی ہے؟‘‘
نائکہ نے قطع کلام کیا ’’ جی ہاں تو ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے۔۔اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔ محض ہمارے اصرار پر یہاں تک چلے آئے ہیں ورنہ ان کے لئے یہاں دلبستگی کا کوئی سامان نہیں ان کا اوڑھنا بچھونا تو کتابیں ہیں۔‘‘ خواجہ نے کہا:
’’جی ہاں ، وہ تو ان کاچہرہ بول رہا ہے، اوڑھنا بھی کتابیں اور بچھونا بھی کتابیں؟‘‘ راس پر ایک زبردست قہقہہ پڑا، لیکن بڑھانے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’ میاں ! یہ حجاب اولیٰ زیادہ دیر نہیں رہتا، ان بازاروں میں ہرن بھی چوکڑی بھول جاتے ہیں ، کون ہے جو اس شاہراہ سے نہیں گزرا، جن لوگوں کی عزت ایک اجتماعی سرمایہ یا قومی ملکیت ہو وہ بھی عمر کے کسی موڑ میں اس کوچہ کی آب و ہوا سے ضرور مستفید ہوتے ہیں ، یہ پھول سرِراہ سہی لیکن پھول تو ہیں ، معاف کیجئے پنجاب میں تو طبیعتوں کا رجحان قدرے مختلف ہے، اور لوگ ہم نشینی کی بجائے ہم جنسی چاہتے ہیں، مگر اُدھر دہلی و لکھنؤ میں بڑے بڑے شرفا مجلس آرائی کے لئے آتے تھے۔۔۔ سر سید کانوں کے رسیا تھے ، انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھا تو کلکتہ کی ایک جانی پہچانی طوائف نے انہیں چندہ میں بہت سا روپیہ دیا تھا، مولانا شبلی مرحوم بھی آواز پر مرتے تھے ، اکبر الہ آبادی نے تواپنے گھر میں ایک طوائف ہی کو بسالیا تھا ، نواب نصیر حسین خیال بھی ایک زندہ دل انسان تھے۔ غرضیکہ اُس دور کا ہر شاعر یا ادیب ان مکانوں کی سیاحت کر چکا ہے ، ادھر سیاسی راہنماؤں میں مولانا محمد علی مرحوم و مغفور جب کبھی کلکتہ جاتے یا لکھنؤ میں مہاراجہ محمود آباد کے ہاں قیام ہوتا تو زہرہ و مشتری کے ہاں بھی ایک آدھ نشست جمالیتے تھے ، چونکہ من اُجلا تھا، اس لئے اس میں کوئی عیب نہ دیکھتے تھے حکیم اجمل خاں کے زہد وورع پر اُنگلی رکھنا خود ایک عیب ہے، لیکن تحریک خلافت کے دنوں میں بھی وہ کبھی کبھار خوش وقت ہولیتے تھے، اور پھر ان کے ہاں جولوگ جمع ہوتے تھے ان کے علم و نظر کی مثال پورے ملک میں عنقا ہے ۔زمانہ زمانہ کی بات ہے، اُس زمانے میں ہم لوگ ایک ادارہ حیثیت رکھتے تھے، اب ہماری حیثیت ایک اڈے کی ہے ، ظاہر ہے کہ اڈوں پر انسانی آبرو زنگ کھا جاتی ہے۔‘‘
’’ تو آپ نے ثابت یہ کیا آپ کے مکانوں کو بڑے بڑے لوگ نوازتے رہے ہیں۔‘‘
’’ آپ کا فقرہ قدرے پہلو دار ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بڑی بڑی ہستیوں کے سوا نح حیات میں بہت سے ورق نہ سہی چند صفحے ہی سہی، چند صفحے نہ سہی ، کچھ حواشی ہی سہی۔‘‘(جاری ہے)
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں