اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسنط نمبر 28
وہ بولا’’مخنثوں کے گروہ کی ایک زندگی ہوتی ہے اور وہ اس کے مطابق لشتم پشتم بسر کرتا ہے۔ قدرت نے ہمیں اس زندگی کے لئے پیدا کیا ، سوجیسی بھی ہے گزررہی ہے ٹھیک ہے جب معاشرہ کی حوصلہ افزائی اور ہماری تن آسانی نے ہمیں اس ڈگر پر لاڈالا ہے تو یہی کاروبار ہوگیا ہے‘‘
’’ تو کیا تمہارا شغل محض گانا بجانا ہے۔‘‘
’’ جی ہاں، بہ ظاہر یہی ہے ، بازاروں میں ہم محض لوگوں کے اصرار پر ناچتے اور گاتے ہیں کچھ پیٹ کی مار بھی شامل ہوتی ہے لیکن ہمارا کام دو گھروں تک محدود ہوتا ہے ، ایک جہاں بیٹا پیدا ہو ، دوسرا جہاں لڑکے کابیاہ ہو۔ لڑکی کی پیدائش اور شادی پر مانگنا ہمارے کوڈ میں جائز نہیں۔‘‘
’’ لیکن سب مخنث تو خوش آواز نہیں ہوتے۔‘‘
’’ جی ہاں ! آپ کا ارشاد صحیح ہے لیکن مخنث نہ تو خوش چہرہ ہونے کی وجہ سے مانگنے جاتا ہے اور نہ خوش آواز ہونے کے باعث وہ تو محض مخنث کی حیثیت میں مانگتا ہے۔‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر27پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اور یہ جسمی تعلقات؟‘‘اُس نے فوراً ہی میری بات اُٹھالی اور گونجدار لہجہ میں بولا۔
’’ معاف کیجئے سبھی لوگ ایسے نہیں ہوتے، کچھ ’’ دانے ‘‘ گندے بھی ہوتے ہیں۔ کیا مردوں میں بدکار نہیں ؟ عورتوں میں بدقماش نہیں ، جو حالت آج ہو رہی ہے اور جو کچھ مجھے معلوم ہے مشاہدے ، مطالعے اور تجربے کی بناء پر گاناگفتنی ہے ہمارا وجود تو آٹے میں نمک کے برابر ہے، بلکہ ماش کے دانے کی سفیدی سے بھی کم تر لیکن عورتوں اور مردوں کا تناسب تو چشم بددور روز افزوں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم من حیث الجماعت بد نام ہیں۔‘‘
لیکن بازار شیخوپوریاں کی ایک تاریک سی گلی میں تو۔۔۔؟‘‘
’’ جی ہاں میں سمجھ گیا۔‘‘
’’ ایک دو مخنث دوکانوں کے چبوترے پر بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘ اُس نے ایک سردآہ کھینچی ۔۔۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ اُن کا بڑھاپا ویران ہوچکا ہے۔ وہ برگد کے ایک ایسے درخت کی اُداس چھاؤں ہیں جس کی دوپہر خانہ بدوشوں کی سہارا دیتی ہے۔‘‘
’’ اچھا ، تم کیا کما لیتے ہو؟‘‘
’’ میں ۔۔۔ ان دنوں تو مندا ہے، لیکن پھر بھی خدا کے فضل سے دواڑھائی سوماہانہ مل جاتے ہیں اس میں ایک تہائی سازندے لے جاتے ہیں اور دو تہائی ہمارا ہوتا ہے ۔۔۔ حضور ! ہماری قدر تو ہندو کیا کرتے تھے، اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو کئی کئی مہینوں کے لئے بے نیاز کر دیتے، ہندو عورتیں ہمیں بابا لوگ کہتی تھیں، لیکن مسلمان تو الفاظ کے پتھر لڑھکاتے ہیں ، بورھے ہیں تو وہ رمز کی بات کرتے ہیں ، جو ان میں تو وہ چٹکی لیتے ہیں ، بچے ہیں تو وہ تالیاں پیٹتے ہیں۔ العرض آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے۔‘‘
’’اتنا روپیہ کیا کرتے ہو؟‘‘
’’ اپنی ذات کے لئے تو لوگوں کا دیا ہوا روٹی کپڑا ہی کافی ہے لیکن میرے کاندھوں پر فرض کا ایک بوجھ بھی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ والد لدھیانے میں ایک بڑے خیاط تھے ، کاروبار اچھا تھا ، اپنے چھ مکان تھے ہم چھ بہن بھائی ہیں ، چار بہنیں ، دو بھائی، میں مخنث نکلا۔ دوسرا بھائی 1947 ء کی قیامت میں کام آگیا، والد ضعیف العمر ہیں، امی بھی اسی سن کو پہنچ چکی ہیں جب تک لدھیانہ میں رہے میری کمائی کا ایک دھیلہ بھی حرام سمجھا، اب جو لُٹ پُٹ کے لاہور پہنچے تو کوئی سہارا نہ تھا، ان کی خواہش کے خلاف میں نے ہاتھ بٹایا ایک بہن بیاہی ہے، اور اُس کا شوہر سرکاری ملازم ہے،دوسری نے اس سال میٹرک کیا ہے ، تیسری نے آٹھویں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، چوتھی تیسرے درجے میں ہے، پہلی دو بہنوں کو مزید تعلیم سے روک دیا ہے۔‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’ میاں دریا میں جو کچھ جال دیکھتا ہے ، وہ مچھیرا نہیں دیکھتا ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری تعلیم کا موجودہ نقشہ ہمیں اخلاقی انحطاط کی طرف لے جا رہا ہے ایک دن میری بہن نے مجھ سے کہا ۔۔۔ بھائی جان ! سب لڑکیاں ہماری مینڈھیوں کا مذاق اُڑاتی ہیں ، کہتی ہیں ابھی تک پرانی قطع کے بال بنا رہی ہو، کئی دفعہ سفید برقعوں پر ٹوکا ہے ، میں چُپ ہو رہا تیسرے روز دیکھا تو بہن بالوں کو سلجھا رہی ہے، میں نے یہی مناسب سمجھا کہ انہیں سکول سے اُٹھالوں کیونکہ بالوں کا سلجھاؤ ہی دلوں کا اُلجھاؤ بنتا ہے۔‘‘
’’ شوکت تم بڑے باخبرہو۔‘‘
’’ صرف اس لئے کہ آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھتا ہوں آپ حیران ہوں گے کہ میں نے گھر میں ریڈیو نہیں رکھا۔‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’ اس لئے کہ ریڈیو مشینی اُستاد جی ہے اور لڑکیاں اس سے تال سُرنکالنا سیکھتی ہیں باور کیجئے ہمارے معاشرتی زندگی میں جو نفسانی بے راہ روی اُبھر آئی ہے،اس کی ایک وجہ ریڈیو بھی ہے۔‘‘
’’ کیا ہر مخنث کے لئے کوئی حلقہ مخصوص ہوتا ہے؟
’’ جی ہاں ! ہر مخنث کے لئے ایک حلقہ مخصوص و مقرر ہے ، وہ کمانے کے لئے اس سے باہر نہیں جا سکتا ، اسی کا ہر حلقہ اس کی موروثی جائیداد ہے، جب وہ مرتا ہے تو اپنے جانشین مخنث کے نام منتقل کر جاتا ہے۔‘‘
’’ قانوناً؟‘‘
’’ جی نہیں، پنچایت کے روبرو ’’ وصیت‘‘ ہوجاتی ہے۔ مثلاً قلعہ گوجر سنگھ کا علاقہ میرا ہے ، یہ حلقہ میرے پاس ایک سکھ ہیجڑے نے تین ہزار روپے میں قبل از تقسیم گروی رکھا تھا، جب بٹوارہ ہوگیا تو وہ اپنے والدین کے ہمراہ مشرقی پنجاب چلا گیا، میں لدھیانے سے لاہور پہنچا اور اپنے تصرف میں لے آیا۔ لاہور کے مخنثوں نے کوشش کی کہ تین ہزار روپے لے کر یہ علاقہ اُن کے نام منتقل کر دوں لیکن میں مہاجر تھا اور مجھے کوئی نہ کوئی حلقہ الاٹ ہونا ضروری تھا۔‘‘
’’ تو کیا یہ حلقہ تمہیں محکمہ بحالیات نے الاٹ کیا ہے؟‘‘
شوکت نے زور کا قہقہہ لگایا۔
’’ جی نہیں ، پنچایت نے ! محکمہ بحالیات نے تو مجھے مخنث سمجھا اور مکان بھی الاٹ نہ کیا حالانکہ میرے والد نو دولتوں سے کہیں زیادہ صاحب جائیداد تھے۔‘‘
’’ تمہارا کوئی پیراُستاد ہے؟‘‘
’’ جی ہاں ! ہم اپنے پیر کو گورو کہتے ہیں ، ہماری بڑی گدی راولپنڈی میں ہے اور بخشو کی گدی کہلاتی ہے اس گدے کی آمدنی خاص ہے، یوں کہیئے سونے میں تلتی ہے عام جائیداد بھی خاصی ہے،دوسری گدی لاہور میں ہے ، ہیرا منڈی کے علاقے میں ، اس کو بابا رکھا کی گدی کہتے ہیں۔‘‘
’’ لیکن اس گدی میں تو سبھی کچھ چلتا ہے !‘‘
’’ یہ سبھی کچھ کیا ہے؟‘‘۔۔۔ شوکت نے بات اُٹھاتے ہوئے کہا ’’ سبھی کچھ کہاں نہیں چلتا؟ کیا زندگی کاکوئی گوشہ خالی ہے؟‘‘
شوکت کے لہجہ میں خود اعتمادی کا عنصر شامل تھا، اُس نے بتایا۔
آپ لوگ ہمیں حقارت سے دیکھے ہیں ہمیں پوچھئے کہ معاشرہ کی حالت کیا ہے، لوگوں کی اخلاقی حالت کہاں سے کہاں نہیں آپہنچی؟ جن لوگوں کو آپ محلوں کے آقا اور مسندوں کے وارث کہتے ہیں ، ان کا باطن ہم پرروشن ہے میں نے گانے بجانے ہی میں عمر نہیں گنوائی ہزاروں انسانوں کو قریب سے دیکھا ہے ۔میں ہر انسان کی آنکھ کو پہچانتا ہوں ایک ہی گردش مجھے کے مافی الضمیر تک لے جاتی ہے۔‘‘
’’ ملک بھر میں کتنے مخنث ہوں گے؟‘‘
’’ شمار تو نہیں کیا لیکن جو ظاہر ہیں ان کی تعداد پانچ چھ ہزار سے کیا کم ہوسکتی ہے۔‘‘
’’ اور جو پوشیدہ ہیں ؟‘‘
ان کے متعلق کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ، خداہی بہتر جانتا ہے۔‘‘شوکت کے پاس معلومات کا خزانہ تھا جو بانٹے جارہا تھا ۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)