جاپانی قوم اور عسکریت (5)
یاماموتو کی شدید خواہش تھی کہ امریکہ سے جنگ نہیں ہونی چاہیے۔وہ امریکہ سے جنگ کو حتیٰ المقدور ٹالنا چاہتا تھا۔ اس کا موقف تھا کہ جب تک جاپان،امریکہ کے برابر عسکری قوت کا حامل نہیں بن جاتا، اس وقت تک جاپان کو امریکہ سے ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ ایڈمرل یاماموتو کی اس پالیسی پر جاپانی گراؤنڈ فورسز کے جرنیل شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یاماموتو امریکہ سے خوفزدہ ہے۔ وہ اسے بزدلی کے طعنے دیا کرتے تھے۔ لیکن جب یاماموتو نے یہ طعن و تشنیع سن کر بھی اپنے موقف سے دستبردار ہونے کا فیصلہ نہ کیا تو کئی جرنیلوں نے اس کے لئے ذاتی باڈی گارڈ فراہم کرنے کی پیشکش کر دی۔ بحریہ کا وزیر، یونائی اگرچہ یاماموتو کا ہمنوا تھا لیکن آرمی کے جرنیلوں کی اکثریت اور مخالفت سے گھبراتا تھا۔ کئی آرمی افسروں نے یاماموتو کو قتل کی دھمکیاں بھی دینی شروع کر دیں۔ جب یاماموتو کی امریکہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی پالیسی میں شدت آئی تو وزیربحریہ، یونائی (Yonai) نے یاماموتو کو فل ایڈمرل پروموٹ کرکے اسے کمبائنڈ فلیٹ کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا اور سمندر میں بھیج دیا…… یونائی نے بعد میں تسلیم کیا: ”یاماموتو کی جان بچانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا“۔
دوسری جنگ عظیم میں
یکم ستمبر 1939ء کو جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کرکے جنگ عظیم دوم کا آغاز کیا تو یاماموتو کو کمبائنڈ فلیٹ کو کمانڈ کرتے ہوئے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے تھے۔ (کمبائنڈ فلیٹ کو اردو میں مشترک بحری بیڑا بھی کہاجا سکتا ہے، لیکن ہم نے عمداً ایسا نہیں کیا۔ جدید عسکری اصطلاحات کوانگریزی ہی میں املا کرنا اس کا اردو ترجمہ کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ ایک تو عسکری اصطلاحات کے اردو تراجم مروج نہیں اور دوسرے پاکستان بحریہ نے اپنے سیلرز تک کی زبان بھی انگریزی کر دی ہے۔ ائر فورس میں بھی یہی عالم ہے۔ صرف پاکستان آرمی میں کمیشنڈ افسروں اور دوسرے عہدیداروں کی زبانیں مختلف ہیں۔ اول الذکر کی پروفیشنل زبان انگریزی جبکہ موخر الذکر کی اردو ہے…… ہمارے خیال میں تمام جدید سروس اصطلاحات کو جوں کا توں انگریزی سے اردو میں املا کر دینا، ان کا ترجمہ کرنے سے بہتر ہے)۔
یاماموتو کے لئے احکامات یہ تھے کہ اس کا فلیٹ ایک تو مادر وطن کا دفاع کرے گا اور دوسرے تمام قسم کی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار رہے گا۔ چنانچہ عملہ کی ٹریننگ جو قبل ازیں سخت تھی، مزید سخت اور مزید مشقت آزما کر دی گئی۔ یاماموتوکو امید تھی کہ جاپان، جنگ میں شرکت کرنے سے گریز کرے گا لیکن جاپانی آرمی میدان جنگ میں کودنے کے لئے شدت سے بے تاب تھی۔وزیر بحریہ نے بھی پہلے تو خفیف سا احتجاج کیا لیکن آخر کار آرمی کا ہمنوا بن گیا۔
27ستمبر 1940ء کو جاپان نے جرمنی کے ساتھ معاہدہ کرلیا کہ وہ جنگ میں اس کے حلیف کے طور پر شریک ہو گا لیکن شرط یہ رکھی کہ جاپان صرف اس وقت شریک جنگ ہوگا، جب امریکہ اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دے کر باقاعدہ اعلان جنگ کر دے گا۔ اس شرط کے باوجود یاماموتو اس معاہدے سے ناخوش تھا۔ ان ایام میں وہ دوستوں سے اکثر کہا کرتا تھا: ”میں سوچ رہا ہوں کہ ریٹائرمنٹ لے لوں اور اپنے شہر ناگااوکا میں جا کر اپنے چلغوزوں کے باغ کی دیکھ بھال کروں“۔ جب جاپان کے وزیراعظم کونوژی (Konoye) کی اس سے ملاقات ہوئی تو وزیراعظم نے اس سے پوچھا: ”برطانیہ اور امریکہ کے خلاف جنگ میں جاپان کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟“ یاماموتو نے فوراً جواب دیا: ”سر، اگر ہمیں حکم دیا گیا کہ لڑو تو ہم کسی اندیشہ ء سود و زیاں سے بے پروا ہوکر لڑیں گے۔ تاہم میرا تجزیہ یہ ہے کہ جنگ کے اولین چھ ماہ یا ایک سال تک ہم منزلیں مارتے کہیں سے کہیں ضرور نکل جائیں گے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ امریکہ کے ساتھ جنگ سے گریز کریں گے“۔
کونوژی ایک جنگ باز وزیراعظم تھا۔وہ یہ جواب سن کر محض مسکرا دیا۔ اس کو معلوم تھا کہ زودیا بدیر جاپان کو جنگ میں کودنا پڑے گا۔
ستمبر1941ء میں یاماموتو نے ناگا اوکا کے ہائی سکول میں تعلیم پانے والے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا تھا: ”یہ سوچنا کہ امریکی ایک عیش پسند اور کمزور قوم ہیں، ہماری شدید غلطی ہے۔ میں نے ان کو جتنا دیکھا ہے اور جو مطالعہ اور مشاہدہ ان کی عسکری تیاریوں کا میں نے کیا ہے، اس کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ جذب و جنوں سے سرشار قوم ہیں، مہم جو اور مہم باز ہیں اور لڑنا مرنا جانتے ہیں۔ ان کی فکر اور سوچ سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لنڈن برگ نے جو حال ہی میں اکیلے ہوائی جہاز سے بحراوقیانوس کو عبور کیا ہے تو یہ کارنامہ امریکیوں کی خطر پسند طبیعت کا غماز ہے۔ ان کی اس خطر پسندی کی بنیاد سائنس ہے۔ یاد رکھیں ، امریکی صنعت ہماری صنعت سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ ہمارے برعکس جتنا تیل (پٹرول اور ڈیزل) ان کو ضرورت ہو، وہ ان کو تو مل سکتا ہے مگر جاپان ایسا نہیں کر سکتا۔ جاپان امریکہ کو صفحہ ء ہستی سے ناپید نہیں کر سکتا۔ اس لئے ہمارے لئے بہتر ہوگا کہ ہم امریکہ سے ٹکر نہ لیں“۔
آج اگر تاریخ کے جھروکے سے جھانک کے دیکھیں تو یاماموتو کے یہ الفاظ اس کی پیغمبرانہ بصیرت کے آئینہ دار تھے۔ جب پورا جاپان جنگی جنون اور جنگ بازی کے بخار میں مبتلا تھا تو یاماموتو کی فکر، گو یا دیوانگی کے صحرا میں فرزانگی کا ایک جزیرہ تھی!
ایک طرف یاماموتو کی فکریہ استدلال کررہی تھی تو دوسری طرف وہ اپنی پوری قوم کی فکر کے خلاف نہیں جا سکتا تھا۔ خواہی نخواہی اور چاروناچارا سے بھی جنگ کا حصہ بننا پڑا۔ ریٹائرمنٹ لے کر گھر میں کسی چلغوزے کے باغ کی رکھوالی جاپانی قوم کو میدان کارزار میں کود جانے سے نہیں روک سکتی تھی۔ اس لئے بالآخر اسے بھی قوم کی امنگوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے پڑے۔ لیکن پھر بھی اس کا استدلال تھا کہ جب تک امریکی بحری بیڑے کو جزائر ہوائی کے پانیوں میں شکست فاش نہیں دی جاتی، جاپان کو جنگ میں کامیابی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
اوائل 1941ء میں ایک تحقیقی مقالے کے مطابق یہ تجزیہ سامنے آیا تھا کہ پرل ہاربر پر نہ صرف حملہ کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس میں کامیابی کے امکانات بھی ہیں۔ چنانچہ اس نے فرسٹ ایئر فلیٹ کے کمانڈرناگوما کے ایک ماتحت ریئر ایڈمرل کوساکا (Kosaka)کو حکم دیا کہ وہ پرل ہاربر پر حملے کے آپریشنل پلان تیار کرے۔ کوساکا کو معلوم تھا کہ اس کا کمانڈر ناگوما اس حملے کے حق میں نہیں۔ ایڈمرل ناگوما بھی اپنے کمبائنڈ فلیٹ کمانڈر، یاماموتو کے خیالات سے متفق تھا لیکن یاماموتو کو جب یہ نظر آنے لگا کہ جاپان کو جنگ میں کودنا ہی پڑے گا تو اس نے لچک کا مظاہرہ کیا اور پرل ہاربر پر حملے کا پلان تیار کرنے کا حکم دیا۔ ناگوما(Nagoma) اور بحریہ کے کئی دوسرے سینئر افسروں کی رائے یہ تھی کہ اگر آرمی کے جرنیلوں کی بات مان کر حکومت نے جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو سارے کا سارا جاپانی بحری بیڑا،آرمی کی مدد کے لئے درکار ہوگا۔ جاپانی آرمی جب بحرالکاہل میں جنوب کی طرف آگے بڑھے گی تو اسے فلپائن، بورنیو، سماٹرا اور ملایا وغیرہ میں آرمی آپریشنوں کی سپورٹ کے لئے بحریہ کی مدد پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔
پرل ہاربر اور اس کے بعد
جب جاپانی حکومت پرل ہاربر پر حملے کے لئے گومگو کی کیفیت میں گرفتار تھی تو یاماموتو نے کہہ دیا تھا کہ پرل ہاربر کے بغیر جاپان کا کوئی بھی زمینی حملہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ایڈمرل ناگونو نے جب یاماموتو کی مخالفت کی تو یاماموتو نے دھمکی دی کہ اگر ناگانو نے کسی ہچکچاہٹ سے کام لیا تو وہ طیارہ بردار فلیٹ کی کمانڈ خود سنبھالے گا اور پرل ہاربر پر حملے کی خود قیادت کرے گا۔ ناچارناگانو نے ہتھیار ڈال دیئے (ایڈمرل ناگانو اور ایڈمرل ناگوما دو مختلف شخصیات تھیں۔ ان کے نام ملتے جلتے ہیں، اس لئے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ وائس ایڈمرل ناگوما (Naguma) فرسٹ ایئر فلیٹ کا کمانڈر تھا، جبکہ ایڈمرل ناگانو (Nagano) طیارہ بردار فلیٹ کا کمانڈر تھا اور دونوں یاماموتو کے ماتحت تھے) (جاری ہے)