لنگر خانے یا کارخانے
سال 2023ء اپنی کھٹی میٹھی یادیں لے کر رخصت ہو گیا،یہ سال پاکستان اور معیشت پر بہت بھاری گزرا دراصل یہ 2018ء سے شروع ہونے والی بربادی کا تسلسل تھا لیکن اِس سال نے عوام کا کچومر نکال دیا۔کاش ہماری سیاسی جماعتوں نے ملک کے لیے کچھ کیا ہوتا، پالیسی سازوں نے کوئی ایسا پلیٹ فارم تیار کیا ہوتا کہ ہماری نوجوان نسل گلیوں میں آوارہ پھرنے کی بجائے ملک اور اپنے خاندان کی بہتری کے لیے کوئی کردار ادا کر رہی ہوتی۔مشرقی پاکستان جیسے ہم نے جان بوجھ کر گنوا دیا تھا کاش ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا لیکن ہم سے آزادی حاصل کرنے کے دن سے آج تک اِس ہجوم نے قوم بن کر محنت کی جس کا نتیجہ آپ خود ملاحظہ فرما لیں کہ سال2023ء میں صرف گارمنٹس سیکٹر میں بنگلہ دیش نے47ارب ڈالر کی برآمدات کی جو کہ گزشتہ سال کی نسبت8.6فیصد زیادہ رہی اِن کے حکمرانوں نے پہلے دن سے ہی اپنی درست سمت کا تعین کر لیا تھا، اُنہوں نے اپنی قوم کو کوئی سبز باغ نہیں دکھایا نہ کوئی لنگر خانے بنائے نہ بے نظیر یا شیخ مجیب انکم سپورٹ پروگرام متعارف کروایا، نہ بلا وجہ کی جنگوں میں الجھے، نہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اُٹھایا، فوج بیوروکریسی سیاسی جماعتوں نے صرف اور صرف ملک کی لیے ترقی کی راہیں تلاش کیں اور اِس پر گامزن رہے، اُنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو ہنر دیا گھریلو عورتوں کو دستکاری کی تعلیم دی اور انہیں سلائی مشینیں تحفے میں دیں۔
چین کو دیکھ لیں، آج دنیا کی معاشی سپر پاور کی کرسی سنبھالنے جا رہا ہے اور اِس کا حق بھی بنتا ہے، آج بھی اِس کے بہت سے علاقے ہم سے زیادہ غریب ہیں لیکن چین نے اُنہیں باعزت اور خود دار زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا، وہاں کے سیاسی لیڈروں نے کبھی اپنی عوام اور نوجوان نسل کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کی، اُنہوں نے اپنی نسلوں کو محنت کرکے روزی روٹی کمانا سکھایا، گزشتہ سال چین نے صرف گارمنٹس کی مد میں 223.41 ارب ڈالر کی برآمدات کیں کی جو کہ گزشتہ سال کی نسبت 8 فیصد کم رہی لیکن وہ اِس سال نہ صرف اِس کمی کو دور کر لیں گے بلکہ اِس کے حجم کو کئی گنا بڑھا دیں گے اور وہ یہ کر سکتے ہیں، اُنہوں نے دنیا کی تمام ضروریات کو سٹڈی کیا، اِس پر محنت کی اور اسے بڑے ممالک کی نسبت کم قیمت میں تیار کر کے ساری دنیا میں پہنچایا۔ چین ہمارا بہترین دوست ہے اور اب ہمیں بھی اُن کا بہترین دوست بن جانا چاہیے لیکن ایسا ہم تب تک نہیں کر پائیں گے جب تک آ ئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے۔
ہندوستان کو دیکھ لیں ہم اور وہ ایک ہی دن آزاد ہوئے تھے، مشکلات اکٹھے برداشت کیں، پھر کیا ہوا کہ آ ج ہندوستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے اور ہم دنیا کے آخری نمبروں پر چلے گئے ہیں۔ ہندوستان نے اِس سال میں صرف گا رمنٹس کی برآمدات سے 1.3کھرب انڈین روپے کمائے اور وطن عزیز نے اِسی سیکٹر میں 13.34 ارب ڈالر جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
آ خر کیا وجہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ہم مزید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم پستے جا رہے ہیں، امیر امیر تر اور غریب خاندان فاقوں تک پہنچ چکے ہیں۔ تعلیم، روزگار،صحت،انصاف اور ایمان، ہم ہر میدان میں تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے، کیوں نہ وہ وجہ تلاش کریں جو ہمیں گزرتے وقت کے ساتھ تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہمارے پاس سی ایس ایس پاس کرنے والے بہترین دماغ موجود ہے۔ ہمارے ہاں بہترین انجینیئرز، ڈاکٹر، پروفیسر، ٹیکنیشن، آرمی،پولیس اور سیاست دان سب کچھ تو ہے پھر یہ بربادی کیوں ہو رہی ہے؟ اپنی ناقص سوچ اور کم عقلی کے ساتھ میں ایک مشورہ پیش کر دیتا ہوں اگر یہ قابل عمل ہو تو اِس کو لاگو کر کے دیکھ لیں شاید ہم مشکلات سے نکل جائیں۔فوری طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، لنگر خانے اور جو رفاع عامہ کے ادارے سرکاری اخراجات پر چل ر ہے ہیں اُنہیں بند کر دیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہر سال 471 ارب روپے پاکستانی عوام میں تقسیم کیے جاتے ہیں، اِس حوالے سے میری بات اسسٹنٹ ڈائریکٹربے نظیر انکم سپورٹ پروگرام محمد احسن سے ہوئی، اُنہوں نے بتایا کہ یہ فنڈ ٹیکس سے جمع شدہ یا قرض لی گئی رقم سے مختص کیا جاتا ہے،اگر اِنہی پیسوں سے ہر سال فنی تربیت گاہیں بنائی جائیں ایک سال کی رقم سے تقریبا 50 ہزار کے قریب ٹریننگ سینٹر بنتے ہیں اگر ہر ٹریننگ سینٹر سال میں سو افراد کو ٹریننگ دے تو ہر سال پاکستان میں 50لاکھ ہنرمند افراد پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر یہ مشق 10 سال تک جاری رہتی ہے تو وطن عزیز میں کتنے ہنرمند افراد کا اضافہ ہو جائے گا جبکہ لنگر خانوں اور سپورٹ پروگرام کے تحت قرض اُٹھا کر تقسیم کئی کی گئی رقم کے نتیجے میں پاکستان صرف اور صرف مقروض ہوگا۔
پاکستان کے نوجوانوں کے پاس یہ بہترین وقت ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اوپر سے بھکاری ہونے کا لیبل ختم کرنا ہے تو اِس الیکشن میں صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں، آ پ کا ووٹ فیصلہ کرے گا کہ آ پ کو لنگر خانے چاہیں یا کارخانے، اپنے ووٹ کے ذریعے انقلاب لے آئیں، انقلاب صرف وہاں آ تے ہیں جہاں مظلوم متحد ہو جائیں، جہاں مظلوم اپنے اپنے پسندیدہ ظالم کے لیے آپس میں دست و گریباں ہوں، وہاں انقلاب نہیں قحط آتے ہیں، اپنے من پسند نہیں بلکہ محب وطن لیڈروں کو حکمران بنائیں تاکہ آنے والے وقت میں ایک باوقار اور مستحکم پاکستان دیکھ سکیں۔ اِس رقم سے پاکستان میں الیکٹریشن، پلمبر، ویلڈر، مستری، مکینک،ڈینٹر، پینٹر، ہیوی ڈرائیور، کمپیوٹر آپریٹر، آن لائن کاروبار کرنے والے، درزی، فاسٹ فوڈ شیف، موبائل کمپیوٹر لیپ ٹاپ الیکٹریشن،کورین چائنیز عریبک انگلش سپوکن کورسز، اکاؤنٹنٹ، امپورٹ ایکسپورٹ، آفس منیجر، سپروائزر،کرین،بلڈوزر،شیول،ایکسیویٹرآپریٹر، انٹیریئرڈیزائنر،کمپوزر، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، ڈسپنسر، ایکسرے ایم آر آء سٹی سکین ٹیکنیشن، آپریشن تھیٹر اسسٹنٹ،سٹور کیپر،سول الیکٹریکل مکینیکل انجینئر(ڈپلومہ ہولڈر) بنائے جا سکتے ہیں جو پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی لیبر کی بجائے اچھی جگہ پر کام کر کے اچھا زر مبادلہ پاکستان بھیج سکتے ہیں، اگر آنے والی حکومت اِن تجاویز پر غور کرے تو یقین کریں کہ ہم بہت جلد ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جائیں گے۔ آپ کو کسی اشارے یا گلی بازاروں میں کوئی بھکاری نظر نہیں آئے گا، اِس لیے میری اپیل ہے کہ ایسے تمام پروگرام فورا بند کر دیں جس کے لیے رقم بجٹ سے مختص کی جائے اور اِس کی جگہ ایسے ٹریننگ سنٹر بنا کر نوجوانوں کو وظائف کے ساتھ ٹریننگ دیں تاکہ وہ باعزت روزگار کما سکیں، اگر میری تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور پاکستان میں آئندہ بھی کارخانوں کی بجائے لنگر خانے اور سپورٹ پروگرام جاری رہے تو آئندہ 10سالوں میں پاکستان کی حالت مزید بدتر ہو جائے گی، کارخانے لگائیں اور ہنر مند افراد کو نوکریاں دیں اور ایک خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھیں۔