لاکھوں دے کر جانیں گنوانے کا المیہ!

  لاکھوں دے کر جانیں گنوانے کا المیہ!
  لاکھوں دے کر جانیں گنوانے کا المیہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دِل بوجھل ہے، ہر صبح نئی اُمید لے کر جاگتا ہوں اور دُعا کرتے سو جاتا ہوں،مگر کچھ بھی نہیں ہوتا،دُعاؤں میں بھی کچھ  اثر نہیں رہا، شاید ہماری اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ہی  کھو گیاا، اللہ نے اپنے پیارے حبیبؐ کے توسط سے کتاب اتاری اور مزید باب بند کر دیا، ہدایت کی کہ اِس کتاب حکمت کو پڑھو اور غور کرو، پھر فرمایا لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے، کیا ان کے دِلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔ آج ہم کلمہ پڑھنے والوں نے اللہ کے فرامین کی اِس کتاب مقدس کو تاک میں رکھ دیا، ہم انسان اسے چومتے اور صرف دُعائیں کرتے ہیں۔صاحب ِ علم حضرات اسی میں اختلافی مسائل نکالتے ہیں،فسادات ہوتے ہیں،حکمت والے دانائی سیکھتے ہیں۔ہمارا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دنیا کی ہر نئی ایجاد کے بعد اِس کتابِ حکمت سے بعض آیات نکال کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ تو یہاں تحریر  ہے۔دنیا آج کائنات کی وسعتوں میں کھو چکی، تلاش جاری ہے،چاند اور مریخ جیسے سیاروں پر ڈیرے جمانے کی فکر ہے۔ اگرچہ انسانی اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں،انسانیت کا نام لے کر انسانیت سوز اقدامات کئے جاتے ہیں۔اخلاق کے ہر ایک نے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں، اللہ نے ڈرایا تو ہم ڈرتے بھی نہیں، ہم ہدایت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولو،صرف ایک ہی ہدایت پر عمل کر لیں تو دُکھ دور ہو جاتے ہیں، جھوٹ مسائل اور گناہوں کی جڑ بلکہ ماں ہے،لیکن ہم پر اثر نہیں ہے۔ہم بلاوجہ بھی جھوٹ بولتے ہیں،دِل دُکھی ہونے کی وجہ تو یہ ہے کہ آج صبح کی خبروں میں یہ تفصیل بتائی گئی کہ مستقبل کو اچھا بنانے کی خواہش میں ملک چھوڑ کر جانے والے سینکڑوں نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں۔ یہ وہ بدنصیب ہیں جو اپنے اثاثے بیچ کر لاکھوں روپے دیتے اور غیر قانونی طریقے سے جاتے ہوئے جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،الزام انسانی سمگلنگ اور سمگلروں  کے گروہ پر آتا ہے۔ آج ہی یہ بھی بتایا گیا کہ سالوں سے یہ دھندا جاری ہے اور اب تک صرف دو افراد کو سزا ہوئی ہے جو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تھی۔یوں انسانی جانوں سے کھیلنے والے یہ گروہ قانون کی گرفت سے بھی بچ جاتے ہیں۔

نئے حادثات پے در پے ہوئے اور اب تک تین چار حادثات میں قریباً200افراد جان سے جا چکے، اطلاعات کے مطابق زیادہ مرحومین کا تعلق گجرات سے ہے اور اب ان گھرانوں میں غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔رونا دھونا اور فاتحہ خوانی جاری ہے اس حوالے سے وہ دو چار خاندان ”خوش قسمت“ کہلاتے ہیں،جن کو اپنوں کی میتیں مل جاتی ہیں اور وہ ان کی تدفین کر لیتے ہیں،لیکن جو حضرات سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتے ہیں،ان کے لواحقین عمر بھر یہ روگ لگا کر روتے رہتے ہیں،اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن افراد کو زندہ بچا لیا جائے وہ متعلقہ ملک کی جیل میں ڈال دیئے جاتے اور قانون کا سامنا کر کے سزا بھگت کر  ہی واپس پلٹتے ہیں۔

یہ سب ہر ایک جانتا ہے کہ میڈیا یہ خبریں ان تک پہنچاتا ہے لیکن اس کا درد ناک پہلو یہ بھی تو ہے کہ جانے اور دنیا ہی سے جانے والے والے کم از کم50 سے60 لاکھ روپے ادا کرتے ہیں، بچ جانے اور واپس آ جانے والے دردناک داستانیں سناتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ ادھر ہمارے بھائی اپنوں کی خامیوں کو نظر انداز کر کے مظاہرے کرتے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان انسانی سمگلروں کو پکڑ کر سزا دی جائے،پھر یہ خبریں چلتی ہیں کہ سفارتکاروں نے پوری توجہ نہیں دی،حالانکہ نہ صرف وزیراعظم بلکہ صدرِ مملکت اور وزیر خارجہ بھی نوٹس لیتے اور سفارتخانوں کو ہدایات بھی جاری کرتے ہیں،ملک کے اندر ایف آئی اے کو چوکس ہو کر کارروائی کرنا پڑتی ہے، اس سے رقوم اور جانیں  تو عام شہریوں کی جاتی ہیں،مگر بدنامی ملک کی ہوتی ہے۔ہم میڈیا  والے بھی ہاتھ دھو کر سرکار ہی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

اب اس غم و  اندوہ کے موقع پر بوجھل دِل کے ساتھ ہی مجھے تلخ بات کر لینے دیں۔یہ کیسے ”عقلمند نوجوان“ ہیں جو سنہرا مستقبل بیرون ملک دیکھنے اور لاکھوں روپے خرچ کر کے غیر قانونی راہ اختیار کرتے ہیں ان میں سے اگر کوئی منزل پر پہنچ بھی جائے تو اسے خوف کی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے،دُکھ جھیلنا اور چھپ کر رہنا پڑتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جوکہ منزل دیکھ پائے،ان حضرات کی عقل پر ماتم کرنے کو دِل چاہتا ہے کہ اس ملک میں غربت ضرور ہے۔ یہ بھی وسائل کی کمی کے باعث ہے لیکن جو لوگ باہر جانے کے لئے40-50 لاکھ روپے اکٹھے کر کے موت خریدتے ہیں وہ اس سے کہیں کم رقم میں اپنے ہی شہر اور ملک میں چھوٹا موٹا کاروبار کر کے روزی پیدا کر سکتے ہیں،اس کی مثال ایک ریڑھی بان ہے جو گاؤں سے شہر آتااور 50-60ہزار روپے سے فروٹ یا سبزی وغیرہ کا ٹھیلا لگا کر کئی پریشانیوں سے دوچار ہونے کے بعد بھی رات کو کچھ کما کر  ہی لے جاتا ہے۔40-50 یا60 لاکھ روپے والا تو اس سے بہت   بہتر کوئی کام کر سکتا ہے چہ جائیکہ اگر کسی ترقی یافتہ ملک پہنچ بھی جائے تو وہاں جا کر ٹائلٹ صاف کرنے کا کام کرے۔اس سلسلے میں بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

حکومت وقت نے تو اب خود افرادی قوت برآمد کرنے کے منصوبے شروع کئے ہیں کہ تارکین وطن زرِمبادلہ بھیجتے ہیں۔حکومت نے مختلف ماہرانہ کورس شروع کرائے ہیں، ان سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور ماہر بن کر قانونی ذریعے سے بیرون ملک جایا جا سکتا ہے۔یوں بھی لاکھوں روپے اور جان ہارنے سے یہ بھی بہتر ہے کہ آپ خود ہنر مند بنیں اور قانونی ذرائع اختیار کر کے باہر جائیں تواس سے سب کا بھلا ہو گا،جب تک لالچی زندہ ہیں،غلط کرنے والے  انسانی سمگلروں کا یہ دھندا جاری رہے گا۔ ضرورت ہے کہ اس انسانی المیے کے تمام پہلوؤں کی روشنی میں منصوبہ بندی کی جائے اور ہنر مندی کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے اسے بڑے پیمانے پر کر کے ایسے لوگوں کے لئے قانونی راستہ ہموار رکھا جائے جو لالچ میں جان و مال گنوا بیٹھتے ہیں۔

یہ بات تو مکمل ہو گئی، اب ایک وضاحت کی ضرورت پیش آ گئی کہ میرے ایک قاری نے گذشتہ روز والے کالم میں خاتون کی آدھی سزا اور پھر عورت کی آدھی گواہوں کے حوالے سے تفصیل کا مطالبہ کیا۔ میں نے یہ سطور ازراہ تفنن لکھی تھیں ورنہ یہ فیصلہ بڑی تفصیلی اور لمبی بحث کے بعد ہو چکا کہ عورت کی گواہی چند مستثنیات کے علاوہ مکمل ایک ہو گی،آدھی نہیں اور یہ قانون میں موجود ہے اس سلسلے میں ایک دور میں بڑی بحث ہوئی۔اس  بارے میں ملتان سے علامہ احمد سعید کاظمیؒ نے بڑی تفصیل سے کئی اقساط میں تحریر لکھی جو روزنامہ”امروز“ (مرحوم) میں شائع ہوئیں،حضرت علامہ احمد سعید کاظمیؒ کی یہ تحریر بحث کو ختم کر دینے والی ہے، قارئین! اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

قارئین، سزا کے حوالے سے اِس لئے نہیں لکھا کہ ابھی پورا فیصلہ نہیں پڑھا جو کچھ سامنے آیا وہ میرے لئے ناکافی ہے اب مطالعہ کروں گا،بظاہر یا بادی النظر میں جج صاحب نے اپنی طرف سے مکمل دلائل سے لکھا ہے بڑی عدالت ہی اس حوالے سے غور کرے گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -